ویکسین بحران: ’وشوگرو‘ کی چاہت میں اپنوں کو بھول گئے

عاقل حسین
موبائل : 9709180100
’’ہم نے تم سے، تم نے ہمارا، رشتہ جوڑا غم سے، ایک وفا کے سوا کون سی خطا ہوئی تھی ہم سے، یہ کیسا صلہ دیا وفا کا‘‘ جی ہاں! کوویڈ 19؍ مہاماری سے بھارت کے ساتھ ساتھ پوری دنیا متاثر ہے۔ ہر ملک اپنے شہریوں کے تحفظ کو ترجیح دے رہا ہے۔ امریکہ جیسے سپر پاور ملک کو پہلے اپنے شہریوں کی حفاظت کی فکر ہے مگر لیکن بھارت وشوگرو بننے کی چاہت میں، کورونا کے مشکل وقت میں اپنوں کو بھول گیا۔ اپنے ملک کے عوام کی سلامتی کے تئیں فکرمندی نظر نہیں آتی ہے۔ اگر اپنے ملک کے شہریوں کی حفاظت کی فکر ہوتی تو پہلے اپنے شہریوں کا ویکسی نیشن کرایا جاتا اور اس کے بعد ہی دوسرے ممالک کے بارے میں سوچتا لیکن بھارت نے ایسا نہیں کیا۔ بھارت وشوگرو بننے کی چاہت میں دوسرے ممالک سے ویکسین دوستی نبھاتے ہوئے تقریباً 100؍ ممالک کو ویکسین دینے میں پہلی ترجیح دکھائی۔ لیکن آج عالم یہ ہے کہ بھارت دنیا کے سب سے بڑے ویکسین تیار کرنے والے ملک میں ویکسین کی کمی محسوس ہونے لگی ہے۔ بھارت کو مطالبہ کے مطابق ویکسین کی فراہمی میں مسائل کا سامنا ہے۔ متعدد ریاستوں نے مرکزی حکومت کو خط بھیج کر ویکسین کی کمی کا ذکر کیا ہے۔ اس میں مہاراشٹر، ہریانہ، چھتیس گڑھ، آندھرا پردیش، اڈیشہ اور تلنگانہ نے ویکسین کی سپلائی میں کمی کی شکایت کی ہے۔ یہاں تک کہ اڑیشہ کے وزیر اعلیٰ نوین پٹنائک نے مرکزی وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن کو خط لکھ کر کہاہے کہ ریاست میں ویکسین کی کمی ہے۔ ویکسین کی کمی کے سبب تقریباً 700؍ ویکسی نیشن مراکز کو بند کرنا پڑا ہے۔ ایسی ہی حالت اب بہار میں بھی بن گئی ہے. بہار میں یکم مئی سے 18 سال سے اوپر تک کے افراد کیلئے ویکسینیشن کا کام شروع ہونے والا تھا.مگر ویکسین کی قلت کے سبب اب یکم مئی سے ویکسینیشن کا کام شروع نہیں ہوگا.ویکسن کی قلت کی وجہ بہار میں این ڈی اے حکومت نے فی الحال ویکسینیشن کے عمل پر روک لگا دیا ہے.اس کے علاوہ کئی ریاستوں میں بھی یکم مئی سے 18 سے اوپر تک کے عمر کے شخص کی ویکسینیشن ہونی تھی. لیکن ویکسین کی قلت کے سبب ابھی ان ریاستوں میں بھی ویکسینیشن نہیں ہوگی.
وشوگرو بننے کی چاہت کچھ ایسی کہ گذشتہ سال ٹرمپ حکومت کے دوران، امریکہ دنیا کا سب سے زیادہ متاثرہ ملک تھا۔ وہاں کورونا انفیکشن کے لاکھوں معاملے تھے اور کثیر تعداد میں اموات ہورہی تھیں۔ ایسے میں جب ہائیڈرو کسی کلوروکن کا مطالبہ بڑھا تب بھارت نے امریکہ کو یہ دوا بھیجی تھی۔ اس وقت کے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ٹویٹر پر ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کا شکریہ ادا کیا تھا اور اس کے بدلے میں وزیر اعظم مودی نے بھی لکھا تھا کہ وبائی امراض کے وقت میں ہندوستان اور امریکہ کے تعلقات میں مضبوطی آئی ہے۔ مگر بھارت میں نووایکس اور آسٹرا زینکا تیار کرنے والے سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیانے حال ہی میں خام مال کی کمی پر تشویش کا اظہار کیا اور سیرم انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ ادر پونا والا نے امریکی برآمدات پر پابندیوں کی وجہ سے ویکسین کی تیاری میں استعمال ہونے والے پلاسٹک کے تھیلے اور فلٹرز کی کمی کا خدشہ ظاہر کیا۔ لیکن ویکسین اور دواسازی کے خام مال کی درآمد پر عائد پابندی ختم کرنے سے امریکہ نے انکار کردیا اور وہائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی نے کہا کہ ’امریکہ فرسٹ‘ یعنی امریکہ پہلے اپنے شہریوں کی ضروریات پوری کرے گا۔ جس کے بعد پی ایم مودی اور اس وقت کے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ٹویٹس ایک بار پھر سوشل میڈیا میں گردش کرنے لگے۔ اور ہندوستانیوں نے لکھنا شروع کیا کہ وہ کس طرح ٹرمپ کو ‘یاد کر رہے تھے؟ عام لوگوں نے پوچھنا شروع کیا کہ جب امریکہ وبا کے بدترین مرحلے سے گزر رہا تھا تو ہندوستان نے اس کی مدد کی تھی تو اب امریکہ کیوں ہاتھ پیچھے کھینچ رہا ہے؟ اس کے بعد امریکہ کے مختلف طبقوں سے مطالبہ اٹھنے لگا کہ امریکہ کو بھارت کی مدد کرنی چاہئے۔ بہت سے امریکی قانون سازوں اور مشہور شخصیات نے بھی اس کے لئے اپیل کی۔ صرف یہی نہیں، ہندوستان کے وزیر خارجہ ایس جئے شنکر نے بین الاقوامی مدد کی اپیل کی۔ تب جاکر امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے ایک ٹوئیٹ میں کہا کہ امریکہ ہندوستان کو اضافی مدد بھیجے گا۔ پھر امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے ٹویٹر پر جاری بیان میں کہا کہ ہندوستان نے گذشتہ سال امریکہ کی مدد کی تھی۔ اب ہماری باری ہے کہ ہر طرح سے ہندوستان کی مدد کریں۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ بھارت کو ویکسین اور دوائیاں بنانے کے لئے ہر خام مال کی سپلائی کرے گا۔ وہیں دونوں ممالک کے قومی سلامتی کے مشیر کی ٹیلیفون پر بات ہوئی جس کے بعد ائیر انڈیا کا ایک طیارہ نیو یارک ایئرپورٹ سے 318؍ آکسیجن لے کر ہندوستان آیا۔ وشوگرو کی چاہت رکھنے والے بھارت کو امریکہ کے علاوہ دنیا بھر سے مدد ملنی شروع ہوگئی ہے۔ سب سے پہلے، سنگاپور سے ہندوستانی فضائیہ کے ایک خصوصی ہیلی کاپٹر سے 4؍کرائیوجنک ٹینکر سمیت 250؍ آکسیجن لائے گئے۔ متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ نے ہندوستانی وزیر خارجہ ایس جئے شنکر سے بات کی اور آکسیجن کے 7؍خالی ٹینکر ہندوستان بھیجے۔ ہندوستان کے ساتھ کھڑے ہونے کے پیغام کے طور پر دبئی کے برج خلیفہ کو ترنگے میں دکھایا گیا۔ سنگا پور نے میڈیکل آکسیجن بھیجا۔ پھر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک بھی مدد کے لئے آگے آئے۔ برطانیہ نے آکسیجن سمیت 600؍ طبی سامان بھیجنے کا اعلان کیا۔ جس میں 120؍ وینٹی لیٹر بھی شامل ہیں۔ ہانگ کانگ سے 800؍ آکسیجن منگوائے گئے۔ سعودی عرب نے 80؍ میٹرک ٹن آکسیجن بھیجا۔ روس نے ریمیڈیشویر اور دیگر مدد فراہم کرنے کی بات کہی۔ جرمنی سے آکسیجن کے 23؍ پلانٹس لائے جارہے ہیں۔ فرانس، یوروپی یونین، کینیڈا اور آسٹریلیا نے بھی مدد کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ وہیں وزیر اعظم مودی نے جاپان کے وزیر اعظم سے بات کی اور جاپان نے اس مشکل وقت میں بھارت کو ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کرائی۔گوگل اور مائیکرو سافٹ کے سربراہ ہندوستانی نژاد سندر پچائی اور ستیہ نڈیلا نے بھی بھارت کو مدد دینے کا اعلان کیا۔ حتی کہ ہم جسے دشمن سمجھتے ہیں اس پاکستان نے بھی مصیبت کے وقت مدد کی پیشکش کی ہے۔ لیکن مرکزی حکومت کو تقریبا ایک ماہ سے اپنے شہریوں کی فکر نہیں تھی اور ہم مغربی بنگال، آسام، تمل ناڈو، کیرالہ، پانڈوچری کی ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں مصروف تھے۔ جب کورونا کی وبا نے خوفناک شکل اختیار کرلی اور ملک میں کورونا کے معاملے لگاتار بڑھتے گئے، اسپتالوں میں آکسیجن کے فقدان میں لوگوں کی اموات بڑھنے لگی، حکومتوں کی ناکامی کے بعد اعلی عدالتوں اور ریاستوں کی عدالتوں نے اس کا نوٹس لینا شروع کردیا۔ یہاں تک کہ مدراس ہائی کورٹ نے انتخابی کمیشن کو پھٹکار لگاتے ہوئے کہاکہ کورونا کی دوسری لہر کے لئے اگر کسی کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے تو وہ انتخابی کمیشن ہے۔ کیوںنہیں انتخابی کمیشن پر قتل کا معاملہ درج کیا جائے؟ جس کے بعد انتخابی کمیشن نے آخری انتخاب میں ریلیوں پر روک لگادی ساتھ ہی ووٹوں کی گنتی کے بعد فتح جلوس پر بھی روک لگانے کا حکم دیا ہے۔ اب سوال اٹھتا ہے کہ مرکزی حکومت اور انتخابی کمیشن کو اپنے ملک کے عوام کی فکر کیوں نہیں رہی؟ اس کا جواب تو انتخابی کمیشن اور مرکزی حکومت سے ملک کے عوام کو مانگنے کا حق ہے۔ انتخابی کمیشن اور مرکزی حکومت کو ملک کے عوام کو جواب دیتے ہوئے معافی مانگنی چاہئے۔
Comments are closed.