فاتح مکہ کی عالی شان فتح دنیا بھر کے فاتحین کے لئے امن کا پیغام

حافظ معراج المو منین ۔رانچی
فتح مکہ انسانی تاریخ کاوہ ناقابل فرموش واقعہ ہے جس نے عام معافی، صبر، اخوت، برداشت اور رواداری جیسی اعلیٰ روایات کو عملی صورت میںدنیا کے سامنے پیش کیا ۔مکہ مکرمہ کے مقدس شہر جہاںسے فرزندان توحید کو بے سرو سامانی کی حالت میںنقل مکانی کرنے پر مجبور کیا گیا تھا آٹھ سال بعد وہاں اس شان و شوکت اور فاتحانہ اندازسے داخل ہو رہے تھے کہ دنیا کی کوئی طاقت ان کا راستہ روکنے کے قابل نہ تھی ۔اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے عام معافی کا وہ بہترین راستہ اختیار کیا کہ آج بھی دنیا کا ہر سمجھدار اور امن پسند انسان قیام امن کے لئے اسے اپنے لئے مشعل راہ سمجھتا ہے۔ اس دن ایک قطرہ خون بہائے بغیر اس شہر کی کنجیاں امت کے حوالے کر دی گئیں، جو ام القریٰ، یعنی دنیا کی زندگی کا مرکز ہے جو بیت اللہ کا امین، سلسلہ توحید کے عالی مقام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بندگی وفاداری کی بے نظیر روایات کا امین اور رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا امین ہے ۔
صلح حدیبیہ کے بعد بنو بکرکی طرف سے قریش کی حمایت کے ساتھ ایک بڑی خیانت کا ارتکاب کیا گیا جس سے معاہدہ ٹوٹ گیا۔ قریش کے ذہن میں یہ رہا کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس امر واقعہ کی خبر نہ ہوگی ۔لیکن صبح ہونے پر انہیں یہ احساس ہو کہ ہم نے تو خود ہی معاہدہ توڑ ڈالا ۔ قریش کا قاصد فریاد لے کر نبی کریم کے پاس آیا آپ نے تین شرائط لکھ کر قریش کی جانب بھیجیں جو یہ تھیں ’ مقتولوں کا خون بہا دیا جائے، قریش بنو بکر کے حمایت سے الگ ہو جائے یا اعلان کر دیا جائے کہ حدیبیہ کا معاہدہ ٹوٹ گیا‘۔ قریش نے جواب دیا تیسری شرط منظور ہے۔
۲۰ رمضان المبارک ۸ ہجری کو نسل انسانی کے سب سے بڑے انسان امام الانبیاء محبوب خدا سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کا دس ہزار کا لشکر جرا ر کے ساتھ بڑے جوش خروش کے ساتھ مکہ کی جانب کوچ کرتے ہیں اور اس اعلان کے ساتھ داخل ہوتے ہیں کہ کوئی دروازہ نہ توڑا جائے کسی کو نقصان نہ پہنچایا جائے جو خانہ خدا میں موجود ہے امن میں ہے اور جواپنے گھر کے اندر موجود ہے امن میں ہے ۔ مسلمانوں کو یہ ہدایت کی کہ مکہ میں داخل ہوتے وقت صرف اسی پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت ہے جو خود مقابلہ کے لئے آئے اور یہ بھی ہدایت کی کہ کسی کے مال و جائداد میں دست درازی کی با لکل اجازت نہیں۔ شہنشاہ دوعالم کی اونٹنی مکہ شہر میں داخل ہوئی تو اللہ تعالیٰ کے بخشے ہوئے اعزاز، فتح پر فاتح کا سر عجز اور شکرانے پر جھکا ہوا تھا ۔ اور زبان مبارک پر سورہ فتح کی آیت مبارکہ جاری تھی جب فاتحانہ انداز میں داخل ہوئے تو انہوں نے عاجزی انکساری کا مظاہرہ کیا اور عام معافی کا اعلان کر دیا ۔فخر دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد حرام کے اندر تشریف لائے حجر اسود کو چوما اور بیت اللہ کاطواف کیا ۔ اس میں تین سوساٹھ بت تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کمان سے ان بتوں کی طرف اشارہ کرتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے ’’حق آیا اور باطل چلا گیا باطل جانے والی چیز ہے۔ بت اوندھے منہ گرتے جاتے تھے۔
تطہیر کعبہ کے فوراََ بعد سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مئوذن اسلام حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اذان دینے کا حکم دیا صحن کعبہ توبھرا ہوا تھا ہی چاروں طرف پہاڑیوں کی بلندیوں پر بھی لوگ جمع تھے مئوذن اسلام حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان شروع کی پہلے ہی لفظ پرنیچے کھڑے ہجوم کا شور تھم گیا دوسری تکبیر کہی گئی تو مکمل سکوت طاری ہو گیابلال کی اذان میں اس دن ایک غیر معمولی تاثر تھا ان کے اذان کے الفاظ سامنے پہاڑیوں سے ٹکرا ٹکرا کر واپس پہنچ رہی تھی لوگوں کو یہ بازگشت بہت اچھی لگی ۔ معلوم ہوتا تھا تمام کائنات توصیف ربانی ،شہادت رسالت اور دعوت صلوٰۃ میں شریک ہے۔ وہ خانہ خدا جسے اسلام کے معمار اوّل حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کیاتھا، ہزاروں سال بت کدہ رہنے کے بعد آج پھر ایک حبشی غلام کے نغمئہ توحید سے گونج رہا تھا۔ یہ اذان اسلامی انقلاب کی کامیابی کا اعلان تھی۔ پھر رحمت دوعا لم صلی اللہ علیہ وسلم کی امات میںنمازادا کی اور آپ نے فتح کا تاریخ ساز خطبہ دیا اور فرمایا ’’ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا،اپنے بندے کی مدد کی اور تمام لشکروں کو اسی نے شکست دی پھر کفار مکہ سے پوچھا کہ آج میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں؟ سب کی گردنیں جھک گئی، سب کو اپنے پرانے دن یاد آنے لگے انہوں نے ہجرت سے قبل مسلمانو ں کو بہت ایذائیں پہنچائی تھیں۔ پھر سب نے بیک وقت جواب دیاہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتری کی امید ہے بڑے معزز باپ کے معزز فرزند ہیں تو آپ نے فرمایا ’ تمام مفاخر، تمام انتقامِ قدیم ، تمام خون بہا سب میرے قدموں کے نیچے ہیں۔تم پر آج کوئی الزام نہیں اللہ تمہیں معاف کرے جائو تم آزادہو۔ آج کے دن رحمت ہی رحمت ہوگی کسی سے کوئی بدلہ نہیں لیا جائیگا۔اس جنگ میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اللہ کے پیغمبر نے اپنے اخلاق کریمانہ اور اچھے برتائو سے سب کے دلوںکو ہمیشہ کے لئے جیت لیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کایہ انقلاب انسانی زندگیوں مین خوشگوار تبدیلیوں کا باعث بنا اورجس کے ثمرات بنی نوع انسانی رہتی دنیا تک فیض یاب ہوتی رہے گی یہ ایک ایسا انقلاب تھا جس روتے ہوئے کو خوشی بخشی، غلاموں کو آزادی بخشی انسانی سوچ کو انقلاب بخشا اور طہارت پاکیزگی اور تقویٰ بخشا۔
فتح سعیدِحق کا جھنڈا بلند ہوا ۔یہاں شرک کی جگہ توحید نے لے لی۔کفر کی جگہ ایمان اتر آیا، یہاںپر ایک غالب اللہ جلّ جلالہ و عم نوالہ‘کی عبادت کااعلان کر دیا گیا ۔شرک کے بت توڑ دیئے گئے اور ان کا یہاں کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔لوگ کثرت سے اسلام قبول کرنے لگے اوراسلام پوری دینا میں پھیلا اور سچا دین بن کر ابھرا اور صبح قیامت تک باقی رہے گا۔
تاریخ کی ورق گردانی سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں بے شمار طاقتور فاتحین حکمراں گزرے ہیں جنہون نے مخالفین پر فتح حاصل کرنے کہ بعد شہر کے شہر برباد کر دئے، خون کی ندیاں بہادیں، دشمنوں کو اہل خانہ سمیت قتل کر دیا لیکن اللہ کے محبوب رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے عام معافی کا راستہ اختیار کر کے پوری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ اپنی ذاتی انا سے بالا تر ہو کر بدترین دشمن کو بھی معاف کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں تو دشمنی کا باب ہمیشہ کے لئے بند کر کے امن کی راہ کوہموار کرتے ہیں۔
Comments are closed.