غذائی زنجیر اور جنگلی حیات

تحریر: مدثر مقبول انجم
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور
خدائے واحد کی بنائی ہوئی تخیل و گماں سے بھی پرے وسیع و عریض کائنات میں سینکڑوں کھرب کہکشاوں میں موجود ہزاروں ارب ستاروں کے پردوں میں پنہاں ان گنت سولر سسٹمز میں ایک ہمارا نظام شمسی، اور اس میں موجود سیاروں میں ایک چھوٹے سے سیارے زمین کے کسی حصے پر اگے ایک پودے کے اوپر بیٹھی چڑیا کے منہ میں چھوٹی سی سنڈی کی اہمیت سے بھی اگر آپ انکاری ہیں تو دو باتیں ممکن ہیں۔ یا تو آپ کی عقل ناقص ہے یا علم۔
”فوڈ چین یا غذائی زنجیر” کی اصطلاح سے بہت سارے لوگ واقف ہوں گے بالعموم سائنس کے ساتھ کسی بھی طرح سے وابستہ اور بالخصوص حیاتیات کا علم رکھنے والے لوگ اس کی گہرائی سے آشنا ہوں گے۔ غزائی زنجیر جانداروں کے درمیان وہ ربط اور تعلق ہے جو تمام جانداروں کو زندہ رکھتا ہے۔مثال کے طور پر نباتات خوراک تیار کرتے ہیں۔ اس خوراک کو مال مویشی کھاتے ہیں اور پھر ان جانوروں کو ہم اپنی خوراک کے طور پر استعمال میں لاتے ہیں۔ ایک اور سادہ سی مثال سے اس کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ حشرات اور چوہے گھاس کھاتے ہیں۔اور حشرات اپنے سے بڑے جاندار یعنی کہ چڑیا اور مینڈک وغیرہ، جب کہ چوہے سانپ اور بلی کا شکار بن جاتے ہیں۔ یہ مینڈک اور چوہے سانپ کا نوالہ بن جاتے ہیں جبکہ سانپ خود کسی عقاب کا شکار بن جاتا ہے۔
یہ ایک چین بنتی ہے جو کہ کرہ ارض پر زندگی کی بقا کے لیے ناگزیر ہے۔اس کا ایک عنصر بھی اگر ٹوٹ جائے یا نکال دیا جائے تو باقی کے حصے کا ربط ختم ہو جاتا ہے اور زندگی کے وجود کو خطرے میں ڈال دیتا ہے۔اگر ایک چڑیا کو ماحول (ایکوسسٹم) سے ختم کردیا جائے تو آپ یہ جان کر حیران ہوں گے حشرات الارض زمیں پر نباتات کا نام و نشان تک ختم کر ڈالیں گے۔اور خوراک بنانے والے عنصر یعنی کہ نباتات کا خاتمہ زمیں پر زندگی کے خاتمے کے مترادف ہو گا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ خلاق عالم نے اس کائنات میں کسی بھی جاندار کو بیکار پیدا نہیں کیا۔ہر جاندار فوڈ چین میں اہمیت کا حامل ہے۔
فوڈ چین میں ہر جاندار کی اہمیت کو سمجھنے کے لئے ”ییلو اسٹون نیشنل پارک” کا قصہ سمجھنا ضروری ہے۔ ییلوسٹون نیشنل پارک امریکہ میں واقع ہے۔1872 میں قائم ہونے والے اس نیشنل پارک میں قیام کے وقت کثیر تعداد میں بھیڑیے موجود تھے۔ 1914 سے 1926 کے درمیان 114 بھیڑیے شکار کرلئے گئے۔1950تک نیشنل پارک سے اس جانور کا نام و نشان تک مٹ گیا۔ شکاری بھیڑیے کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایلک(بارہ سنگھا – ایک قسم کا ہرن) نے اپنی تعداد میں میں خوب اضافہ کیا۔بارہ سنگھا کی تعداد میں اضافے اور بھیڑیے کی عدم موجودگی نے وہاں کے ماحولیاتی نظام کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ بارہ سنگھا تعداد میں زیادہ اور بے خوف و خطر ہونے کی بناء پر آزادانہ گھومنے اور تیزی سے پودے چرنے لگا جس کی وجہ سے دوسرے جانوروں اور پرندوں کا مسکن تباہ ہو گیا۔ دریا کے کنارے سبزہ ختم ہونے نہ صرف کنارے زمینی کٹاؤ کا شکار ہونے لگے بلکہ پانی کا درجہ حرارت بھی تبدیل ہوگیا اور آبی جانور بھی معدوم ہونے لگ گئے۔ مسکن تباہ ہونے سے پارک میں بہت کم سپی شیز باقی رہ گئیں۔خرگوش، نیلوں، لومڑی، ریچھ، بجو،راون اور عقاب جیسے جانور پارک میں خطرناک حد تک کم دکھائی دینے لگے۔
صورتحال کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے ماہرین نے تحقیق کی اور بھیڑیے کے عدم وجود کو پارک کے ماحول میں یکسر بدلاو اور اس کی تباہی کا ذمہ دار قرار دیا۔
1995 میں کینیڈین ماہرین جنگلی حیات نے چودہ بھیڑیے اس پارک میں بھجوائے – اس کے بعد 1996 میں گیارہ مزید بھیڑیے پارک میں چھوڑے گئے۔
پارک میں بھیڑیے آتے ہیں ماحول میں بدلاو آنے لگ گیا۔بھیڑیوں نے بارہ سنگھا کا شکار شروع کیا تو ان کی تعداد کم ہوتے ہی سبزہ اگنے لگ گیا۔درخت پھر سے جوبن دکھانے لگے۔ دریا کے کناروں پر جہاں وہ باآسانی شکار ہو جاتے تھے دور رہنے لگے۔ نتیجتا دریا کے کنارے ہر ے بھرے ہونے سے نہ صرف پانی کا درجہ حرارت معتدل ہوگیا بلکہ بہت سارے آبی جانور دوبارہ لوٹ آئے۔درختوں کے دوبارہ اگنے سے پرندوں کو مسکن ملنے لگا تو بہت ساری انواع و اقسام کے پرندے پھر سے اس پارک کی زینت بن گئے۔ کیوٹیز(امریکن بھیڑیا) کی تعداد کم ہونے سے لومڑی، خرگوش اور نیلوں، بجو،عقاب جیسے جانور جو بھیڑیے کی بچی ہوئی خوراک پر انحصار کرتیتھے دوبارہ پارک میں بسنے لگے۔ سگ آبی (بیورز) کی جہاں 1996 میں صرف ایک کالونی دیکھی گئی تھی وہاں بھیڑیے کی بحالی کے بعد 2009 میں بارہ کالونیاں مشاہدے میں آئیں۔
غرض یہ کہ فوڈ چین میں صرف ایک جانور کی عدم موجودگی یا موجودگی سے پورے ماحولیاتی نظام(ایکو سسٹم) میں کیا تبدیلی رونما ہو سکتی ہے اس کا تصور تو شاید ممکن ہے لیکن ازالہ نہیں۔
خلاق عالم نے جس احسن انداز میں میں اس کائنات کو تخلیق کیا ہے ویسے ہی وہ بڑے خوبصورت انداز میں اسے منظم طریقے سے چلا رہا ہے۔ فطرت میں انسانی تبدیلیوں نے انسان کو اگر ایک طرف سے ظاہری طور پر فائدہ پہنچایا بھی ہے تو دوسری طرف انسان کے لیے وہ مشکلات بھی پیدا کی ہیں جن کے ہاتھوں آج وہ بے بس نظر آتا ہے۔
حضرت انسان کو یہ بات نہ صرف اچھے طریقے سے سمجھ لینی چاہیے بلکہ عہد کر لینا چاہیے کہ وہ قوانین فطرت کا احترام کرتے ہوئے ہر جاندار کو جینے کا برابر حق مہیا کرے گا۔اور نظام قدرت میں عدم مداخلت کرتے ہوئے اس کرہ ارض پر بسنے والی جنگلی حیات کے تحفظ کو یقینی بنا کر نہ صرف اشرف المخلوقات ہونے کا حق ادا کرے گا بلکہ اپنے وجود کو دوسری مخلوقات کے لئے بھی سلامتی کا ذریعہ ثابت کرے گا۔
ورنہ خدا نہ کرے کہ انسان کے اپنے ہاتھوں کی تخلیق کردہ گلوبل وارمنگ اس سے ایک دن اس ٹکڑے پر رہنے کا حق چھین لے اور اس کا جنون فوڈ چین میں کسی ایسی تبدیلی کا باعث بن جائے جس کے نتیجے میں پچھتاوے کے بعد اس کرہ ارض پر خاموشی کے سوا کچھ نہ بچے۔
Comments are closed.