رمضان کی ایک اہم عبادت؛ اعتکاف

مولانا ندیم الواجدی
رمضان کے آخری دس دنوں کے لیے بہ نیت عبادت وثواب خود کو مسجد میں محصور کرلینا مسنون اعتکاف ہے ، اعتکاف کے معنی ہیں ٹھہرنا اور رکنا، اعتکاف کرنے والا بھی اپنے آپ کو ایک جگہ روک لیتا ہے ، اسی لیے اس کو اعتکاف کہتے ہیں۔ (عمدۃ القاری: ۸/۳۶۰)
اعتکاف اس لیے مشروع قرار دیا گیا ہے تاکہ بندہ ساری دنیا سے اپنے علائق منقطع کرکے یک سو ہوکر مسجد میں بیٹھ جائے اور اپنی پوری توجہ عبادتوں میں لگا دے سارے سال دل ودماغ دنیا کے معاملات میں اس قدر منہمک رہتے ہیں کہ چند لمحے بھی یک سوئی کے ساتھ عبادت کرنا نصیب نہیں ہوتا، اعتکاف کے چند روز ان لوگوں کے لیے کسی عظیم نعمت سے کم نہیں ہیں جو کارو بار حیات سے الگ ہوکر کچھ وقت اللہ کے ذکر اور اس کی یاد میں گزارنا چاہتے ہیں، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم معمولاً اعتکاف فرمایا کرتے تھے جس سے اس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے، روایات میں ہے کہ آپ نے ہمیشہ اعتکاف کی پابندی فرمائی اور کبھی اعتکاف کرنا نہیں چھوڑا، ایک سال سفر وغیرہ کی وجہ سے اعتکاف نہ کرسکے تو اگلے سال بیس دن کا اعتکاف فرمایا (ابوداؤد:۱/۷۴۷، رقم الحدیث: ۲۴۶۳، ترمذی: ۳/۱۶۶، رقم الحدیث: ۸۰۳) حضرت عائشہ الصدیقہؓ فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دے دی پھر آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات اعتکاف کرتی رہیں(بخاری: ۲/۷۱۳ رقم الحدیث: ۱۹۲۲،مسلم: ۲/۸۳۰، رقم الحدیث: ۱۱۷۲)
ایک حدیث میں ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص نے اللہ کی رضا جوئی کے لیے ایک دن کا اعتکاف کیا اللہ تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے درمیان تین خندقوں کی آڑ بنادیں گے اور ایک خندق سے دوسری خندق کے درمیان کی مسافت مشرق ومغرب کی مسافت سے زیادہ ہوگی (المعجم الاوسط: ۷/۲۲۰ رقم الحدیث: ۷۳۲۶، بیہقی فی شعب الایمان: ۳ں۴۲۴، رقم الحدیث: ۳۹۶۵ کنز العمال: ۸/۵۳۲) اعتکاف کرنے والے شخص کے متعلق سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’اعتکاف کرنے والا گناہوں سے بچا رہتا ہے اور اس کے لیے بغیر کئے بھی اتنی ہی نیکیاں لکھی جاتی ہیں جتنی نیکیاں کرنے والے کے لیے لکھی جاتی ہیں (ابن ماجہ:۱/۵۶۷، رقم الحدیث: ۱۷۸۱) ایک حدیث میں ہے کہ جس شخص نے رمضان کے دس روز کا اعتکاف کیا اس کا یہ عمل دو حج اور دو عمروں کے برابر ہوگا (البیہقی فی شعب الإیمان: ۳/۴۲۵، رقم الحدیث: ۳۹۶۶، کنزالعمال: ۸/۳۵۰) ایک روایت میں ہے کہ جس نے ایمان اور اخلاص کے ساتھ اعتکاف کیا تو اس کے (تمام صغیرہ) گناہ معاف کردیئے جائیں گے (کنز العمال: ۸/۵۳۲، رقم الحدیث: ۲۴۰۱۷) یہ اللہ کا بڑا احسان وانعام ہے کہ اس نے رمضان المبارک جیسا مہینہ عطا فرمایا اور پھر اس ماہ میں دس روز کا اعتکاف مسنون قرار دیا اور اس کا اتنا بڑا اجرو ثواب رکھا کہ کم محنت اور کم وقت میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمائی جاسکتی ہیں، اسی لیے صحابۂ کرامؓ اور سلف صالحین اور ہمارے اکابر حضرات اعتکاف کی سنت پرپابندی کے ساتھ عمل کیا کرتے تھے۔
اعتکاف اگر شہرت اور نام وری کے لیے کرے تو اس سے بہتر نہ کرنا ہے کیوں کہ عبادات میں ریاکاری مطلوب نہیں ہے، بلکہ اخلاص مطلوب ہے، اخلاص کا مطلب ہی یہ ہے کہ آدمی جو کام بھی کرے اللہ کے لیے کرے اور اس کی نیت اجر وثواب کا حصول ہو، اس کے علاوہ کچھ نہ ہو، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ نے لکھا ہے کہ ’’اعتکاف کا مقصد اور اس کی روح دل کو اللہ کی پاک ذات کے ساتھ وابستہ کرلینا ہے کہ سب کی طرف سے ہٹ کر اسی کے ساتھ مجتمع ہوجائے، اور ساری مشغولیت کے بدلے میں اسی کی پاک ذات سے مشغول ہوجائے، اور اس کے غیر کی طرف سے منقطع ہوکر اس میں اس طرح لگ جائے کہ خیالات وتفکرات سب کی جگہ اس کا پاک ذکر اور اس کی محبت سما جائے یہاں تک کہ مخلوق کے ساتھ انس ومحبت کے بدلے اللہ کے ساتھ محبت پیدا ہوجائے کہ یہ اُنس قبر کی وحشت میں کام دے اس دن اللہ کی پاک ذات کے سوا نہ کوئی مونس ہوگا نہ دل بہلانے والا اگر دل اس کے ساتھ مانوس ہوچکا ہوگا تو کس قدر لذت سے وقت گزرے گا (فضائل رمضان ۵۱)
اعتکاف کے بے شمارفوائد ہیں جن میں سے کچھ یہاں بیان کئے جاتے ہیں (۱) اعتکاف اللہ کو راضی کرنے اور اس سے محبت پیدا کرنے کا بہترین وسیلہ ہے (۲) اعتکاف کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ بہترین قرب حاصل ہوتا ہے اور خلوت میں اللہ سے مناجات کا صحیح موقع ملتا ہے (۳) اعتکاف کی حالت میں ہر وقت فرشتوں کے ساتھ مشابہت رہتی ہے (۴) اعتکاف گناہ معاف ہونے کا بہترین ذریعہ ہے (۵) اعتکاف کرنے والا بہت سے گناہوں سے محفوظ ہوجاتا ہے (۶) اعتکاف کی حالت میں بندہ ہر وقت اللہ کے دربار میں حاضر رہتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ کی نظر کرم اور نظر رحمت کا زیادہ سے زیادہ مستحق ہوتا ہے (۷) اعتکاف کرنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی اللہ کے در پر آپڑا ہو اور یہ کہہ رہا ہو کہ جب تک آپ میری مغفرت نہیں فرمائیں گے میں یہاں سے نہیں جاؤں گا (۸) اعتکاف شب قدر سے فائدہ اٹھانے کا بہترین ذریعہ ہے اور اسی لیے مسنون اعتکاف جو کہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں کیا جاتا ہے اعتکاف کی دوسر ی قسموں سے افضل ہے کیوں کہ یہ فضیلت اعتکاف کی دوسری قسموں میں حاصل ہونا مشکل ہے (ماہ رمضان کے فضائل واحکام، ص:۲۷۶)
جس مسجد میں اعتکاف کیا جائے اس میں پانچوں وقت کی نماز با جماعت ہوتی ہو، اعتکاف کی نیت سے ٹھہرناضروری ہے، بے مقصد اور بے ارادہ ٹھہرنے کو اعتکاف نہیں کہتے، نیت کی صحت کے لیے اسلام اور عقل شرط ہے، اس لیے اعتکاف کے لیے مسلمان ہونا تو ضروری ہے ہی عاقل ہونا بھی ضروری ہے، بالغ ہونا شرط نہیں ہے نابالغ مگر سمجھ دار بچہ بھی اعتکاف کرسکتا ہے (علم الفقہ، ۴۴۸)
رمضان المبارک کے آخری عشرے میں جو اعتکاف کیا جاتا ہے وہ سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر آبادی (بستی) کی مسجد میں اعتکاف کرنا ضروری ہے، اگر کسی نے بھی اعتکاف نہیں کیا تو اس آبادی کے تمام مسلمان گنہ گار ہوں گے، لیکن اگر ایک نے بھی اعتکاف کرلیا تو تمام لوگوں کے ذمے سے اس کا وجوب ساقط ہوجائے گا اور تمام بستی والوں کی طرف سے ادائیگی ہوجائے گی، تاہم بہتر یہ ہے کہ ہر محلے کی مسجد میں اعتکاف کا اہتمام کیا جائے کیوں کہ بعض علماء نے ہر محلے والوں کے لیے اعتکاف کو سنت قرار دیا ہے، (طحطاوی علی مراقی الفلاح: ۳۸۲ احسن الفتاوی: ۴/۴۹۸، فتاوی دار العلوم: ۶/۵۱۲) لیکن بڑے قصبے کی مسجد میں اعتکاف کرنے سے اس سے متصل چھوٹی بستی کے لوگوں کے ذمہ سے یہ سنت کفایہ ادا نہیں ہوگی۔ (فتاوی دارالعلوم: ۶/۵۰۱)
رمضان المبارک کی بیس تاریخ کو سورج غروب ہونے سے کچھ دیر پہلے مسنون اعتکاف کا وقت شروع ہوتا ہے اور عید کا چاند نظر آنے تک رہتا ہے ،اگر کسی نے اکیس تاریخ سے اعتکاف شروع کیا تو یہ اعتکاف مسنون نہیں ہوگا اور نہ اس پر مسنون اعتکاف کا اجر ملے گا۔ (امداد الفتاوی: ۲/۱۵۴، فتاوی دارالعلوم: ۶/۵۰۸)
سب سے افضل وہ اعتکاف ہے جو مسجد حرام یعنی کعبۃ اللہ کی مسجد میں کیا جائے، اس کے بعد مسجد نبوی کا، اس کے بعد مسجد بیت المقدس کا، اس کے بعد اس جامع مسجد کا جس میں جماعت کا انتظام ہو، اگر جامع مسجد میں جماعت کا انتظام نہ ہو تو محلّے کی مسجدکا اس کے بعد اس مسجد کا جس میں زیادہ جماعت ہوتی ہو (علم الفقہ: ۴۴۸)
مسنون اعتکاف کے لیے روزہ شرط ہے، جب کوئی شخص اعتکاف کرے گا تو اس کو روزہ رکھنا بھی ضروری ہوگا بلکہ اگر وہ روزہ نہ رکھنے کی نیت بھی کرے تب بھی اس کو روزہ رکھنا لازم ہوگا، اسی لیے اگر کوئی شخص صرف رات کے اعتکاف کی نیت کرے وہ لغو ہے، کیوں کہ رات کو روزہ نہیں رکھا جاتا، ہاں اگررات اور دن دونوں کی نیت کرے یا کئی دنوں کی نیت کرے تو رات ضمناً داخل ہوجائے گی اور رات کو اعتکاف کرنا ضروری ہوگا۔ (علم الفقہ: ۴۴۹)
اعتکاف کے دوران نوافل کی کثرت ہونی چاہئے، قرآن کریم کی تلاوت کا معمول رکھا جائے اور تسبیحات وغیرہ پڑھی جائیں، خاص طور پر یہ تسبیحات پڑھیں سُبْحَانَ اللّٰہِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ، لاَاِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللّٰہِ لاَ حَوْلَ وَلاَقُوَّۃَ إِلاَّ بِاللّٰہِ، اَسْتغْفِرُ اللّٰہَ رَبِیّ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَیْہِ یَارَبِّ اغْفِرْلِیْ۔ درود شریف بھی بہ کثرت پڑھنا چاہئے، سب سے بہتر درود وہ ہے جونماز میں تشہدکے بعد پڑھا جاتا ہے، صلوۃ التسبیح کا اہتمام کریں ، ہوسکے تو روز پڑھیں، اس سے بہت سے گناہ معاف ہوتے ہیں، اعتکاف کے دوران اشراق چاشت ، اوّابین اور تشہد وغیرہ نماز یں آسانی کے ساتھ ادا کی جاسکتی ہیں، ان کا اہتمام کیا جائے ، تحیۃ الوضو بھی پڑھنی چاہئے، فجر کی نماز کے بعد اشراق کے وقت اور شام کو عصر کی نماز سے فارغ ہوکر مغرب تک ذکر وتلاوت میں مشغول رہیں، شب قدر کی راتوں میں جاگ کر عبادت بھی کی جائے، ہوسکے تو مستند دینی کتابوں کا مطالعہ بھی رکھیں، دعاؤں میں الحزب الاعظم اور مناجات مقبول پیش نظر رہیں، بلکہ ان دونوں کتابوں کی ایک ایک منزل روزآنہ پڑھ لیں ، اعتکاف کے دوران اپنے کسی قول یا فعل سے کسی دوسرے معتکف کو یا دوسرے نمازیوں کو تکلیف نہ پہنچانی چاہئے۔
[email protected]
Comments are closed.