وحید الدین خان- اپنے افکار کے آئینے میں

نثاراحمد حصیر القاسمی
سکریٹری جنرل اکیڈمی آف ریسرچ اینڈ اسلامک اسٹیڈیز ۔ حیدرآباد۔
[email protected]
اہل علم کی فکری بے اعتدالی اور میدان علم میں جا بجا ان کے ٹھوکریں کھانے پر غور کرنے سے اندازہ ہوتاہے کہ آغاز میں ان کے افکار وخیالات درست تھے، مگر آگے چل کر اس میں کجی وبے اعتدالی پیدا ہوگئی، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ انسان جسم وروح کامرکب ہے اور اللہ نے حکم دیا ہے کہ ہم ان دونوں کی حاجتوں اور ضرورتوں کو اعتدال وتوازن کے ساتھ پورا کرتے رہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے تجھے دے رکھا ہے اس میں سے آخرت کے گھر کی تلاش بھی رکھ اور اپنے دنیوی حصے کو بھی فراموش مت کر اور جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے تو بھی اچھا سلوک کر اور ملک میں بگاڑ کا خواہاں نہ ہو ، یقین مان کہ اللہ تعالیٰ مفسدوں کو ناپسند رکھتاہے۔ (القصص:77)
انسان اگر اپنے نفس کی خواہشات کی تکمیل میں اور مال وزر کے حصول اور ہر طرح سے اسے پانے کی فکر میں مبتلا ہوجائے اور خود کو اسی میں لگا دے ، رات ودن اسی جدوجہد میں اپنی توانائی صرف کرنے لگے اور دنیا طلبی ہی اس کی سوچ اور تحریر وتقریر کا محور بن جائے اور اس کی زندگی میں روحانیت مفقود ہوجائے اور تقاضائے روح کو یکسر نظر انداز کردیا جائے جیسا کہ وحید الدین خان صاحب کی زندگی میں یہ روحانیت مفقود نظر آتی ہے۔ تو انسان سیدھے راستے سے ہٹ جاتا ہے، اسی لئے اسلام نے جسمانی ضروریات اور مادی خواہشات کی تکمیل میں اعتدال پیدا کرنے کا حکم دیا ہے اس سے منع نہیں کیا ہے کیونکہ جسمانی ومادی ضرورت انسان کی بنیادی ضرورت اور فطری ہے جس سے روکا نہیں جاسکتا۔
اور کبھی انسان اپنی پوری توجہ روحانیت کی طرف مبذول کردیتا اور روح کو غذا پہنچانے میں اس قدر غلو کا شکار ہوجاتا ہے کہ وہ جسم وجان کے تقاضوں اور مادی ضرورتوں کو نہ صرف نظر انداز کر بیٹھتا بلکہ اسے گندگی اور شیطانی عمل تصور کرنے لگتا ہے، جیسا کہ بعض مذاہب کے اندر اس کا تصور ہے کہ وہ شادی نہیں کرتے اور طرح طرح سے جسم کو اذیتیں دے کر رفع درجات کے طالب بنتے ہیں، اسلام نے اس سے بھی منع کیا اور واضح کیا کہ لا رھبانیۃ فی الاسلام ، بعض صحابہ کرام نے ایک بار جب جسم اور مادی تقاضوں سے کنارہ کش ہو کر صرف عبادت میں مشغول ہوجانے کے ارادہ کا اظہار کیا تو رسول اللہ صلعم نے انہیں اس سے روکا اور فرمایا :
ولکنی اصوم وافطر ، واصلی وارقد واتزوج النساء فمن رغب عن سنتی فلیس منی (متفق علیہ)
مگر میں تو روزہ بھی رکھتا ہوں، اور روزہ نہ بھی رکھتا ہوں، میں نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں میں عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں تو جو میری سنت اور میرے طریقے سے اعراض کرے گا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
مسلمانوں کے لئے یہ گویا دستور حیات ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ افراط وتفریط کے بغیر حلال طریقہ پر مادی ضرورت کو پورا کرنا بھی ضروری ہے اور روحانی تقاضوں کو بھی۔
ایک بات یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو پیدا کیا اور اسے عبادت کرنے کا پابند بنایا تو اسے یوں ہی کھلا آزاد نہیں چھوڑ دیا بلکہ زندگی گذارنے کی ایک راہ اور منہج متعین کردیا اور رسولوں کو مبعوث کیا ، کتابیں اتاریں اور احکام وشرائع نافذ کئے تاکہ بندوں کو معلوم ہو کہ وہ کس مقصد سے پیدا کیا گیا ہے اور اسے کس طرح زندگی گذارناہے اور وہ جو بھی راستہ اختیار کرے اور جس طرح عبادت کرے پوری بصیرت وآگہی سے کرے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
ہم نے کہا تم سب یہاں سے نیچے کو چلے جائو ، جب کبھی تمہارے پاس میری ہدایت پہنچے تو اس کی تابعداری کرنے والوں پر کوئی غم وخوف نہیں ۔ (البقرہ: 38)
اس ربانی منہج اور طریق کو برتنے کیلئے فطری طور پر عقل وفہم کی ضرورت ہوگی، کیونکہ نصوص میں زندگی کے تمام جزئیات کا احاطہ تفصیلات نہیں ہوتا، ان میں صرف اصول وکلیات اور رہنمایانہ خطوط وہدایات ہوںگی، تفصیلات صرف وہیں ذکر کی جاتی ہیں جو اٹل ہوتے اس میں کبھی کسی حال میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی ، خواہ زمانہ کتنا ہی کیوں نہ بدل جائے۔
اس کا مطلب ہے کہ انسان کو زندگی گذارنے اور اس دنیا کے سفر کو خوش اسلوبی کے ساتھ رواں دواں رکھنے کے لئے عقل کی بھی ضرورت ہے اور نقل کی بھی، دوسرے الفاظ میں اسے ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ نص کی بھی ضرورت ہے اور اجتہاد کی بھی ، اگر انسان ظاہری نصوص ہی پر جم جائے اور اس میں اجتہاد نہ کرے تو اس سے مشکلات پیش آئیں گی، مشقتوں کا سامنا ہوگا اور امت جمود وتعطل کا شکار ہوجائے گی۔ قرون وسطیٰ میں کلیسائوں نے ایسا ہی کیا اور وہ جمود وتعطل کا شکار رہے اور اس جمود سے نکلنے کے لئے عقل وادراک اور فہم واجتہاد کی ضرورت پڑی، پھر رفتہ رفتہ عقل کو فوقیت دینے کا رجحان پیدا ہوا، یہاں تک کہ جو عقل کے دائرہ اختیار سے باہر کی چیز تھی وہاں بھی عقلی گھوڑے دوڑانے کی کوشش کی گئی ، اور غیب سے متعلق باتوں کو بھی عقلی پیمانے پر تولنے کی کوشش کی گئی‘ جناب وحید الدین خان صاحب سے یہی ہوا کہ انہوںنے نصوص کو عقل کے پیمانے پر تولنا شروع کیا، نصوص کو سمجھنے کا معیار اپنے عقل کو بنایا نہ کہ احادیث وآثار اور سلف صالحین کے اقوال کو اوراس کی وجہ سے انہیں گمراہی وفکر ی بے راہ روی کا شکار ہونا پڑا۔
اصل بات جو میں عرض کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ افکار ونظریات کے اندر جو انحراف اور فساد وبگاڑ پیدا ہوتا ہے ‘ اس کے یوں تو بہت سے اسباب ہوسکتے ہیں مگر بنیادی طور پر اس کے اسباب تین ہیں۔
(۱) معیار کا فقدان:
فطری طور پر لوگوں کا مزاج مختلف ہوتا ‘سوچنے سمجھنے کا انداز جدا گانا ہوتا اور فہم وادراک کا پیمانہ بھی الگ ہوتا ہے، اس لئے افکار وخیالات کے اندر تبدیلی آنا فطری امر ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ علمی وتجرباتی ترقی کے ساتھ افکار ونظریات اور سوچنے سمجھنے کے انداز میں تبدیلی کا آنا زندگی کا اٹوٹ حصہ اور لازمہ ہے تو یہ مبالغہ نہیں ہوگا۔ ہم کسی پودے پر نگاہ ڈالیں تو اندازہ ہوگا کہ بیج ڈالنے سے لے کر اسکے کٹنے تک یا خود انسان کے اندر پیدائش سے لے کر بڑھاپے اور وفات تک کتنی تبدیلی آتی اور وہ کتنے مرحلوں سے گذرتا ہے، تو اس جسمانی وذہنی تبدیلی کے ساتھ انسان اگر افکار وخیالات اور اعمال وتصرفات کو تولنے کا میزان ومعیار رکھتاہے تب تو وہ راہ مستقیم پر گامزن رہتا ہے ورنہ وہ لازمی طور پر دائیں بائیں بھٹکنے لگتا ہے اور اس کے اعمال وافکار میں انحراف پیدا ہوجاتا ہے اوریہ معیار یا میزان اللہ کی ہدایت اور عدل ہے۔ جس سے سارے امور کے اندر استقامت پیدا ہوتی ہے یا وہ عقل سلیم وصحیح ہے جو خواہشات اور حب جاہ ومال اور طلب شہرت وعزت سے پاک ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
یقینا ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی دلیلیں دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل فرمایا تاکہ لوگ عدل پر قائم رہیں۔ (الحدید :25)
اس کا مطلب ہے کہ اصل معیار ومیزان ’’میزان نقل ‘‘ہے ، جو آسمانی ہدایات اور وحی الٰہی پر قائم ہوتا ہے یا وہ میزان عقلی ہو جو فہم صحیح پر قائم ہو، انسان اگر اس میزان سے ہٹ جائے گا تو وہ اپنی پرواز ورفتار میں ٹھوکریں کھائے ۔ درست راہ سے ہٹ جائے گا اور صراط مسقیم سے دور ہوجائے گا۔ وحید الدین خان صاحب نے اسی لئے ٹھوکریں کھائیں اور درست راہ سے ہٹ گئے کہ انہوں نے میزان اپنے اس عقل کوبنایا جو خواہشات کے تابع اور حب جاہ ومال سے انتہائی درجہ مغلوب تھا۔
(۲) حد اعتدال سے تجاوز:
انسان اگر مختلف اخلاق وکردار کا حامل ہو تو انحراف وکج روی سے پاک صحیح راستے کے التزام کا تقاضہ ہے کہ اس کے ان اوصاف واخلاق اور اقدار وکردار کے اندر اعتدال ومیانہ روی ہو، کیونکہ ہر چیز کے اندر ایک عدل ووسط ہوتا ہے، اور انسان کبھی بھی کسی ایک جانب مائل ہو کر افراط وتفریط کا شکار ہوسکتا ہے، اسی لئے اس وسطیت ومیانہ روی کو اسلام کی جامع صفت قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
وکذالک جعلناکم امۃ وسطا (البقرہ: 143)
ہم نے اسی طرح تمہیں عادل وانصاف پرور امت بنایا۔
یعنی معتدل ومیانہ روامت بنایا جو افراط وتفریط سے پاک ہے ، مثال کے طور پر اقدام کرنا، اگر حد سے بڑھ جائے تو وہ عجلت بازی وانتہا پسندی ہوجاتا اور اگر اس میں کمی آجائے تو وہ بزدلی ہوجاتا ہے، یا خرچ کرنا اگر حد سے بڑھ جائے تو اسراف ہوجاتا اور اگر کمی آجائے تو بخل وکنجوسی ہوجاتی۔
امام غزالی نے احیاء علوم الدین کے اندر تحریر کیا ہے کہ اخلاق کے بنیادی اصول چار ہیں، حکمت ، شجاعت، عفت اور عدل ، حکمت سے مراد نفس کی وہ حالت ہے جس سے انسان تمام اختیاری اعمال کے اندر صحیح وغلط کی تمیز کرتا ہے اور عدل سے مراد نفس کی وہ حالت ہے جس سے وہ غصے اور خواہشات کو کنٹرول کرتا اور حکمت کے تقاضوں پر عمل کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اور شجاعت سے مراد یہ ہے کہ کسی مقام پر اقدام کرنے یا نہ کرنے میں غیض وغضب کی قوت عقل کی طاقت کے تابع ہو، اور عفت سے مراد یہ ہے کہ شہوانی قوت عقل وشریعت کے آداب سے آراستہ ہو، اگر ان چاروں اصول کے اندر اعتدال ہوگا تو ہی اس سے اچھے اخلاق وکردار صادر ہوںگے ، امام غزالی نے یہ بھی لکھا ہے کہ قوت عمل کے اندر اعتدال ہوگا تو اس کے اندر حسن ظن پیدا ہوگا، اور نفوس کے پوشیدہ آفتوں کو سمجھ سکے گا۔ اور اگر عقل کے اندر اعتدال نہ ہو تو اس سے لازمی طورپر مکر وفریب دھوکہ دہی، کذب بیان اور اپنے فائدے کے لئے کچھ بھی کر گذرنے کا جذبہ سامنے آئے گا۔
غرض اخلاق وکردار اور فضائل اعمال میں انسان اگر حد اعتدال سے تجاوز کر جائے تو لازمی طور پر اعمال و کردار اور سلوک وعمل میں بھی انحراف وکجروی پیدا ہوجائے گی اور اس کے افکار وخیالات میں بھی‘ وحید الدین خان صاحب کی قوت عقل کی بے اعتدالی ہی کی وجہ سے ان کے اندر صحابہ وسلف صالحین سے لے کر تمام اساطین علماء وفقہاء ومحدثین کے بارے میں ان کے اندر بد ظنی پیدا ہوئی اور ہر ایک کو انہوں نے اپنی تنقید مذموم و تنقیص کا نشانہ بنایا ، متاع دنیا کی خاطر انہوںنے دجل وفریب اور کذب بیان کا سہارا لیا۔
(۳) حالات کے دبائو کا اثر:
انسان افکار وخیالات ، توقعات وامنگوں اور عزائم وارادوں سے خالی الذہن ہو کر نقل وحرکت اور دوڑ بھاگ نہیں کرتا بلکہ ان چیزوں کا انسانی ذہن ودماغ میں ہجوم ہوتا ہے جو موجودہ حالات سے متاثر ہوتا ہے اور اس کے پیش نظر ہی وہ کسی ایک جانب اپنا قدم تیز کردیتا او رکسی جانب سے اپنا ہاتھ کھینچ لیتا اور قدم پیچھے ہٹا لیتا ہے، جب حالات پرفتن ہوں، ہر چہار جانب سے دبائو ہو اور ساتھ ہی پرکشش پیش کش بھی ہو جس سے منہ میں پانی بھر آتے ہوں تو اس وقت انسان کی پہنچان ہوتی ہے کہ وہ ان ساری لبھانے والی چیزوں کے باوجود صحیح ڈگر پر گامزن رہتا اور صراط مستقیم پر ثابت قدم رہتا ہے یا اس کے اندر کجی آتی ہے، انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والتسلیم کو بھی لبھانے کی کوششیں کی گئیں، پرکشش پیش کش کی گئی ، ہر طرح سے انہیں لالچ دلائے گئے تاکہ وہ راستے سے ہٹ جائیں اور اپنے مشن سے منحرف ہوجائیں، مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت کی اور اس طرح کی لالچوں میں پڑنے سے انہیں محفوظ رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلعم کے بارے میں فرمایا ہے:
یہ لوگ آپ کو اس وحی سے جو ہم نے آپ پراتاری ہے، بہکانا چاہتے ہیں، کہ آپ اس کے سوا کچھ اور ہی ہمارے نام سے گھڑ لیں تب تو یہ لوگ اپنا دلی دوست بنا لیتے۔ اور اگر ہم آپ کو ثابت قدم نہ رکھتے تو بہت ممکن تھا کہ انکی طرف قدرے قلیل مائل ہوہی جاتے ، پھر تو ہم بھی آپ کو دوہرا عذاب دنیا کا کرتے اور دوہرا ہی موت کا، پھر تو آپ اپنے لئے ہمارے مقابلہ میں کسی کو مدد گار بھی نہ پاتے ۔(بنی اسرائیل ، اسراء 75-73)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عہنما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلعم تو معصوم تھے مگر آپ کو خطاب کرکے یہ کہنا درحقیقت امت کو تعلیم دینا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اللہ تعالیٰ کے احکام اور اس کی شریعت میں مشرکین کی طرف مائل نہ ہوں۔ (الجامع لاحکام القرآن للقرطبی :300/10)
غرض حالات وواقعات کا افکار وتصورات کی تبدیلی وانحراف میں بڑا اہم رول ہوتا ہے، یہ تبدیلی کبھی اچھی ہوتی ہے اور کبھی بری ، بری اس وقت ہے جبکہ اس کا مقصد دنیوی مال ومتاع حاصل کرنا ، دین ومذہب کی صورت مسخ کرنا، کتاب وسنت کے اٹوٹ احکام کی غلط تشریح کرنا، دشمنان اسلام کا قرب حاصل کرنے کے لئے دین کے مسلمات کا انکار کرنا یا اس کی غلط تاویلیں کرنا ہو۔ وحید الدین خان صاحب حالات کے دبائو کا سامنا نہیں کرسکے ، اور اس کے سامنے سپر ڈال دی ، وہ پرکشش پیش کشوں کو قبول کرتے رہے بلکہ بے تابی سے اس کے منتظر رہنے لگے تھے کہ انہوں نے اپنا مقصد حیات قارون کا خزانہ جمع کرنا بنا لیا تھا۔
اس میں شبہ نہیں کہ وحید الدین خان صاحب ‘صاحب طرز ممتاز انشاء پرداز، موثر صاحب قلم ، اخاذ ذہن اور جدید وقدیم علوم کے غواص اور مستشرقین کی کتابوں سے کسب فیض کرنے والے تھے، بڑے سلیقہ سے نتائج اخذ کرنے اور دوسروں کے سامنے پیش کرنے میں انہیں بڑی مہارت حاصل تھی، انہوں نے اپنے علمی ومعاشی سفر کا آغاز جماعت اسلامی سے وابستگی سے کیا اور دارالعلوم ندوہ العلماء وجمعیت علمائے ہند سے گذر کر نظام الدین کے مرکز اسلامی کی منزل پر آکر رک گئے۔ نظام الدین پہنچنے سے پہلے اگرچہ ان کی فکر محور حصول زر رہا مگر ان کی فکر سلامت رہی اس سلامتی کے زمانہ میں انہوں نے علم جدید کا چیلنج جیسی کتابیں لکھی جو کافی مقبول ہوئی۔ اس کے بعد ایک خطیر رقم کے عوض ان کے فکر کو یرغمال بنالیا گیا۔ یا یوں کہیں کہ منہ مانگی قیمت وصول کرکے انہوں نے خود کو ملحدین کے ہاتھوں میں فروخت کردیا۔ معمر القذافی کی انکار حدیث پر مبنی کتاب ’’ کتاب اخضر ‘‘ کا انہوں نے ترجمہ کراکر شائع کیا جس سے ان کی معاشی حالت مستحکم ہوگئی اور نظام الدین میں شاندار عمارت کے وہ مالک بن گئے اس کے بعد انہوںنے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، انہوںنے صہیونی تحریک سے اپنے تعلقات استوار کئے، مادی فوائد کے عوض انہوں نے اسرائیل کی کھل کر تائید کی ، ان کی دعوتوں پر اسرائیل کے دورے کئے، فلسطین تحریک کو ناجائز وانتہا پسندی ودہشت گردی قراردیا۔ اسی طرح وہ آر ایس ایس کے بھی بڑے چہیتے وہر دلعزیز بنے رہے اور ان کے من کی باتیں ان کی زبان سے ادا ہوتے رہے ‘ اسلامی لباس میں رہ کر خان صاحب دشمنان اسلام کو مواد فراہم کرنے کا کام کرتے رہے اور اس کی منہ مانگی قیمت وصول کرتے رہے ۔
خان صاحب نے شروع سے ہی چاہے جماعت اسلامی سے وابستہ رہے ہوں یا ندوہ وجمعیت علماء سے اپنی فکر کا محور مال وزر کو بنایا، انکی ساری کدوکاوش اسی دائرے میں ہوئی مگر اس کے لئے انہوں نے دین کا پلیٹ فارم بنایا اور اشاعت دین کے نعرے کا سہارا لیا۔ انہوں نے اس راہ میں کسی چیز کو حائل نہیں ہونے دیا، جب فکر میں سلامتی اور تحریر میں متانت تھی تب بھی ان کی کوشش معاشی استحکام وفارغ البالی کے لئے تھی اور جب وہاں سے دور ہوئے تب بھی ان کی فکر کا محور یہی رہا، میں نے اوپر ذکر کیا تھا کہ فکری انحراف کے تین اسباب ہیں، اور یہ تینوں خان صاحب موصوف میں موجود رہے ، افکا ر وخیالات کو تولنے پرکھنے کے میزان ومعیار ربانی کا ان میں فقدان تھا جس کی وجہ سے راہ مستقیم پر گامزن رہنا ان کے لئے کیلئے ممکن نہیں رہا، اسی طرح ان کے اندر بے اعتدالی وکچ روی نمایاں نظر آتی ہے، کسی بھی امر میں انسان اگر حد اعتدال سے تجاوز کرجائے تو لازمی طور پر اس کے اعمال وافکار میں انحراف آئے گا۔ اور یہی بے اعتدالی خان صاحب کا نشان امتیاز رہا۔
خان صاحب دور حاضر کے حالات وواقعات کے دبائو کا بھی شکار رہے،اور اسی تناظر میں وہ دین کی تشریح کرتے اور آیات واحادیث کو مسخ کرتے اور معنوی تحریف جیسے جرم کا ارتکاب کرتے رہے، اسرائیل ہو یا آر ایس ایس ، صہیونی تحریک ہو یا مسیحی مشن، ہر دشمن اسلام طاقتوں سے دوستی کرنے اور تعلقات کو استوار کرنے کی تڑپ اور اس راہ سے مادی فوائد حاصل کرنے کے جذبے نے انہیں مجبور کردیا تھا، کہ وہ گاہے بگاہے ان کے مطلب کی باتوں کا اظہار کرتے رہیں، اگر بات اتنی ہی ہوتی تو کوئی حرج نہیں مگر انہوں نے تو اسلام کی جڑوں کو کھوکھلی کرنے کی کوشش کی اور برملا ایسے عقائد اختیار کئے جو کسی مسلمان کے نہیں ہوسکتے تھے اور یہ محض یہود ونصاری کو خوش کرنے قادیانیوں سے تائید وحمایت ومنفعت حاصل کرنے کیلئے تھا ، مثال کے طور پر انہوں نے نبی آخرالزماں کے افضل الانبیاء ہونے کا انکار کیا، شاتم رسول کی تائید وحمایت کرنا اپنا فریضہ جانا، اور اس کی سزائے قتل کا انکار کیا۔ انہوں نے دین اسلام کی اپنے عقل نارسا کے ذریعہ نئی تصویر پیش کی۔ انہوں نے جہاد اور رسول اللہ صلعم کے اسوئہ کاملہ کا انکار کیا اور اعلان کیا کہ دور حاضر میں محمدی ماڈل فرسودہ وناقابل عمل ہے، ضرورت مسیحی ماڈل ختیار کرنے کی ہے۔ جو درحقیقت مسیحیت قبول کرنے کی درپردہ دعوت ہے، پورے دین کو دین منحرف گردانتے ہوئے انہوں نے امت پر الزام لگایا کہ انہوں نے ایسے ہی دین منحرف کو اختیار کیا ہے، انہوںنے حدیث کی حجیت کا بھی انکار کیا اور قذافی کی کتاب اخضر کے اردو ترجمے شائع کرکے بڑے پیمانے پر اسے پھیلانے کی کوشش کی۔ سلف صالحین سے لے کر خلف تک ہر ایک کے اندر انہیں کیڑے نظر آئے اور ان کی ملامت سے نہ کوئی محدث بچا نہ فقیہ، یہ کام یہود ونصاری نہیں کرسکتے تھے، کہ اس پر ایک طوفان کھڑا ہوجاتا ، اس لئے یہ اور اس طرح کی باتیں کرنے کے لئے ایک فرد کی ضرورت تھی ،جو انہیں خان صاحب کی شکل میں مل گئے تھے اور اس کے عوض ان کے سامنے فتوحات کے دروازے کھل گئے ، مادی منفعت کے خزانے کی انہیں کنجی ہاتھ لگ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ دسیوں بلڈنگ اور اربوں کھربوںکے مالک بن گئے ، ان کے احوال اور فکری انحراف کو دیکھ کر تاریخ اکبری کا وہ صفحہ میری نگاہوں کے سامنے آگیا جس میں ملاناگو ری کا تذکرہ ہے۔ ملامبارک ناگواری نے آگرہ میں بہت بڑی یونیورسٹی قائم کی اس وقت کے اکبر بادشاہ کی جانب سے دولت کے خزانے ان پر نچھاور کئے گئے ، ان کی ہر خواہش وطلب پوری کی گئی ، دنیا کی خاطر اس نے ایک نیا دین ایجاد کیا ، دین الٰہی، انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے بنیادی اصول اور مسلمات کے خلاف ورزی کی، یہ ملا مبارک بہت بڑے عالم تھے، مولانا مناظر احسن گیلانی نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ ملا مبارک ناگوری بہت بڑا محدث و فقیہ تھا، اور اسلامی علوم کے تمام شعبوں میں اسے بڑی مہارت حاصل تھی، ان کے اور حافظ ابن حجر عسقلانی کے درمیان شاید تین یا چار استادوں کا واسطہ تھا، وہ خود بڑے محدث کے شاگر تھے، اور بڑے بڑے فقہاء ومحدثین ان کے شاگرد تھے، مگر ان کے علم سے اسلام کو فائدہ نہیں پہنچا بلکہ بڑا نقصان ہوا، اور اسلام ومسلمانوں کیلئے فتنہ ثابت ہوا ، جبکہ اس کے پاس وسیع علم تھا، ان کے ایک شاگرد ملا عبدالقادر بدایونی تھے جو بہت بڑے بزرگ تھے، ان کی پرہیزگاری مشہور تھی، ان کے اندر صرف علم کے ساتھ ساتھ خوف خدا بھی تھا، انہوں نے ایک کتاب لکھی جس میں وہ اپنے استاذ ملا مبارک ناگوری کا تذکرہ بڑے درد اور افسوس سے کرتے ہیں:
تو اے مرد سخن پیشہ زبہر چند مستی دوں
زدین حق بمانددشتی بہ ہنروئے سخن دانی
تجھے جو بولنے کی قوت اللہ نے دی تھی اس کے ذریعہ تونے کوئی حق کام نہیں کیا ، تجھے سنت رسول میں کیا کھوٹ نظر آیا جو ادھر چلا گیا، اور بادشاہ کے اشارے پر کتابیں لکھیں اور ایک نیا دین ایجاد کیا، خان صاحب بلا شبہ اس کی سچی تصویر ہیں ملا مبارک کے نقش قدم پر چل کر انہوں نے خوب دولت وثروت سمیٹے، اور حکومت کے ایوانوں اور تمام دشمنان اسلام طاقتوں سے خوب پذیرائی حاصل کی ۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلعم نے فرمایا ، مجھے اپنی امت کے بارے میں سب سے زیادہ خطرہ چرب زبان منافقوں سے ہے۔
(مسند احمد، 310-143، طبرانی 237/18 ، حدیث 593)
Comments are closed.