کشمیر کی ایک بہادرخاتون کی کہانی

عبدالرافع رسول
یوں توعفت مآب کشمیری خواتین کی بھارتی عقوبت خانوں سے لیکرمیدان عمل تک بہادری کے ان گنت ایمان افروزکہانیاں ہیں لیکن آج ایک ایسی کشمیری خاتون کی بہادری کی داستان لکھ رہاہوں کہ جوگذشتہ 30برسوں سے اپنے بیٹے کی تلاش میں کمربستہ ہیں۔18اگست 1990کو رات کے تین بجے سویلین کپڑوں میں ملبوس سفاک بھارتی فوجی این ایس جی ’’نیشنل سیکورٹی گارڈ‘‘سے وابستہ اہلکارپروینہ آہنگرکے گھرواقع دھوبی محلہ بتہ مالوسری نگر میں داخل ہوئے اورانکے 17سالہ بیٹے جاوید احمد آہنگر کو گرفتارکرکے اپنے ساتھ اٹھا کر لے گئے۔ جاوید اس وقت 11ویں جماعت میں زیرتعلیم تھا۔اگلے دن یہ پتاجانے پرکہ قابض بھارتی فوجی این ایس جی ’’نیشنل سیکورٹی گارڈ‘‘ کا انٹروگیشن سینٹر پری محل زبرون سری نگر میں ہے تو اپنے لخت جگر کو ڈھونڈنے بدنام زمانہ اس انٹروگیشن سینٹرجاپہنچی جہاں کے جلادوں نے انہیں بتایا گیا کہ آپ کا بیٹا زخمی ہوا تھا اور اسے بادامی باغ فوجی چھائونی میں واقع ملٹری ہسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ پروینہ نے اپنے لخت جگر کی تلاش میں دیوانہ وار کئی بار بادامی باغ کی فوجی چھائونی کے چکرکاٹے لیکن وہاں سے وہ نہیں مل سکا۔ اس بہادرخاتون نے بیٹے کی تلاش پرکمرکس لی اورایک ایک کرکے جموںوکشمیرکے تمام پولیس اسٹیشنوں اوربھارتی عقوبت خانوں میں اپنے بیٹے کو تلاش کیا۔اپنے بیٹے کے فراق میں وہ صوبہ جموں میں واقع ہیرا نگر کٹھوعہ جیل، جموں سینٹرل جیل، ادھم پور جیل گئی لیکن انہیں جاوید کاکوئی اتہ پتہ نہ چل سکا ۔کشمیرکی یہ بہادرخاتون بھارت کے تمام بڑے جیلوں، دلی کی تہاڑ جیل، میرٹھ جیل، جودھ پور جیل تک جاپہنچیں لیکن اپنے لخت جگرکاانہیں یہاں بھی کوئی نام ونشان نہ مل سکا۔
بھارتی جیلوں اورعقوبت خانوں کے طویل اور تھکادینے والے سفرکے بعد بھی کشمیرکی اس بہادرخاتون کی ہمت ہرگز نہیں ٹوٹی اورانہوں نے1991میں اپنے بیٹے کی بازیابی کے لیے عدالت میں حبس بیجاکی درخواست دائر کردی ۔ حبسِ بے جا کی درخواست کے تحت لاپتہ شخص کو عدالت میں پیش کرنا لازمی ہوتا ہے۔ اگر عدالت میں پیش کرنا ممکن نہ ہو تو یہ بتانا لازمی ہوتا ہے کہ وہ شخص کہاں ہے۔ لیکن مختلف عدالتوں کے دروازے کھٹکانے اورکئی سال تک چیف جوڈیشل مجسٹریٹ سری نگر کی عدالت میں تاریخ پر تاریخ بھگتنے کے باوجود بالآخر جج نے ہاتھ کھڑے کئے اورپروینہ آہنگرسے کہا کہ میری اتنی طاقت نہیں کہ تمہیں تمہارا بیٹا بازیاب کر سکوں۔ یہاں سے ناامیدہوکربھی اس بہادرخاتون نے ہمت نہیںہاری بلکہ وہ پٹیشن لے کر ہائی کورٹ پہنچی لیکن وہاں سے بھی انہیں انصاف نہیں مل سکااورسری نگرہائی کورٹ بھی پروینہ کے بیٹے کوبازیاب نہ کرسکا۔واضح رہے کہ وادیِ کشمیر میں عدالتیں بھی انہیں انصاف دلانے میں ناکام ہیں۔
اس غم والم میں پروینہ آہنگر اب اکیلی نہیں بلکہ تین عشروں ،یعنی تیس سال کے اس طویل عرصے کے دوران ایسے 10ہزارسے زائد گمشدگان کے لواحقین اور متاثرین مائیں بھی انکے ہمراہ اپنے بیٹوں اوربعض اپنے شوہروں کی تلاش میں لگاتاراورمسلسل کمربستہ ہیں۔جن کے بیٹے ،جن کے سہاگ قابض بھارتی فوج کے ہاتھوں گرفتارہوئے اورپھر انہیں گم کردیے گئے ۔1994 میں گمشدگان کے لواحقین اور متاثرین نے پروینہ آہنگر کی سرپرستی میں ایسوسی ایشن آف پیرنٹس آف ڈس ایپئرڈ پرسنزAPDP))بنائی تاکہ 1990سے آج تک قابض بھارتی فوج کے ہاتھوں جبری طور پر لاپتہ افراد کو تلاش کیاجا سکے۔APDP)) کا مطالبہ ہے کہ جبری گمشدگیوں کی تحقیقات کے لیے ایک آزاد کمیشن بنایا جائے اور یہ بتایا جائے کہ ان کے عزیزکہاں ہیں؟اس کامطالبہ یہ بھی ہے کہ مقامی عدالتیں انہیں انصاف نہیں دلا پائیں تو اس معاملے میں اقوام متحدہ کی مداخلت انتہائی ناگزیر ہو چکی ہے کہ وہ انہیں انکے عزیزوں کی بازیابی کے لئے مدداورتعاون کرے۔
APDP))سے وابستہ تمام غمزدگان متاثرین کاایک دوسرے کے ساتھ ایک مضبوط رشتہ ہے،اوران متاثرین کی پشت پر90لاکھ کشمیری مسلمان ہیں اور انہیں امید ہے کہ کبھی نہ کبھی ان کے لخت ہائے جگریا نیم بیوائوں کے شوہر واپس آئیں گے جنہیں قابض بھارتی فوج نے جبری طور پر لاپتہ کیا۔کشمیر میں جبری طور پر لاپتہ افراد کے لیے جدوجہد کرنے والے متاثرین کومجتمع کرنے اورایک مشترکہ صدابلندکرانے والی کشمیرکی بہادرخاتون پروینہ آہنگر کا کہنا ہے کہ وہ جب تک زندہ ہیں انصاف کی جنگ جاری رکھیں گی۔
ایسی بھی متاثرہ مائیں ہیں کہ جن کے ایک سے زیادہ بیٹے لاپتہ کیے گئے ہیں۔وہ ان کاراستہ تک رہی ہیں۔ایسی نیم بیوائیں بھی ہیںجن کے چار، چار بچے ہیں۔ وہ اپنے شوہروں کا انتظار کررہی ہیں۔ ایسی خواتین نے دوسری شادیاں بھی نہیں کیں۔ ان کے بچے اپنے باپ کو تلاش کررہے ہیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ جبری گمشدگیوں کے واقعات پر پولیس تھانوں میں کوئی ایف آئی آر بھی درج نہیں ہوتے تھے۔پروینہ کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنا ہر ایک رشتہ ختم کیا لیکن جبری گمشدگان کے متاثرین کے ساتھ رشتہ مضبوط کیا ہے اوراپنازخم سہلاتے ہوئے ان کے غم میں بھی برابرکی شریک ہیں ۔
جبری گمشدگی بہت بڑی مصیبت ہوتی ہے۔جولواحقین کو مرنادیتی ہے نہ جینادیتی ہے ۔کوئی مرجاتاہے تو کم از کم لاش ملتی ہے، لواحقین کو تسلی ہو جاتی ہے۔ لیکن کشمیرمیں قابض بھارتی فوج کے ہاتھوں گمشدگان کے لواحقین ایک ایسے کرب میں مبتلاہیں کہ ان کے عزیزوں کازندہ ہونے یاانکی شہادت پاجانے کاکوئی ثبوت ،کوئی نشان نہیں۔ایسے عالم میں مصیبت انہیں شش جہت گھیرے بیٹھی ہے۔یہ کشمیر ی مسلمانوں کے دلوں اورانکے دماغوں پر ایک ایسی گہری چوٹ ہے جس سے اٹھنے والے دردکی ٹھیسوں کی کوئی حدنہیں۔ایسی مصیبت کی شکار کشمیرکی بہادرخاتون پروینہ آہنگرکی قیادت میں گمشدگان کے لواحقین کاایک ہی سوال ہے کہ بتایاجائے ان کے عزیزوں کو زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا؟
کشمیرکی بہادرخاتون پروینہ آہنگر کہتی ہیں کہ گمشدگان کے لواحقین کو بہت تنگ کیا گیا،خوف دلایاگیا،ڈرایاڈھمکایاگیا لیکن ہم نے ہمت نہیں ہاری۔ ہم انصاف کے لیے اپنی جنگ جاری رکھیں گے۔ ہم جب تک زندہ ہیں تب تک حصول انصاف کے لئے لڑیں گے۔چاہئے کچھ بھی ہو ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ ایک نہ ایک دن انصاف ضرور ملے گا۔ آخر ظلم کی ہار ہوگی۔ اللہ تعالی کی عدالت سے بڑی کوئی عدالت نہیں۔وہ کہتی ہیں کہ ہمیں امید ہے کہ کبھی نہ کبھی ہمارے بچوں کاپتاچل ہی جائے گا ۔
خیال رہے کہ ایسوسی ایشن آف پیرنٹس آف ڈس ایپئرڈ پرسنزAPDP)) کی طرف سے سالانہ کئی باربالخصوص ہرسال 10 دسمبر کو انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر سری نگر میں لال چوک کے نزدیک پرتاب پارک میں جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج کیا جاتا ہے اوربھارت کے اصل چہرے کوبے نقاب کرکے اس دن کشمیرسے ایک مشترکہ آوازبلندہوتی ہے کہ اقوام متحدہ بھارت سے جواب طلب کرے کہ کشمیر میں جن افراد کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے وہ کہاں ہیں۔ایک مشترکہ صدابلندہوتی ہے کہ اقوام متحدہ تحقیق کرے کہ 2010کوکشمیرمیںجن ہزاروں گمنام قبروں کا انکشاف ہواتو ڈی این اے ٹیسٹ کرکے دیکھاجائے کہ گمنام قبروں میں کون لوگ مدفون ہیں۔ قابض بھارتی فوج سے پوچھوں کہ ہمارے بچوں کو اٹھایاتو وہ کہاں ہیں۔
کشمیرکی اس دلیرخاتون پروینہ آہنگرنے ایسوسی ایشن آف پیرنٹس آف ڈس ایپئرڈ پرسنزAPDP))بناکر دنیا کے مختلف فورمز جنیوا، لندن، کمبوڈیا، چانگ مائی، انڈونیشیا، تھائی لینڈ اور فلپائن میں بیان کیا اور دنیا کی کچھ اعلی یونیورسٹیوں میں وادی کشمیر میں ہونے والی جبری گمشدگیوں پر لیکچر دیا۔اقوم متحدہ میں ان کے لیکچر کی پذیرائی توہوئی لیکن یہ عالمی ادارہ کشمیرکے گمشدگا ن کی تلاش اورانکی بازیابی کے لئے کوئی عملی مدد نہ کرسکا اوربھارت سے کوئی جواب طلبی ہوئی اورنہ ہی اسیاس بابت پوچھاگیا۔

Comments are closed.