سعودی امریکہ تعلقات۔۔۔۔۔۔۔جنوبی ایشیا

سمیع اللہ ملک
جوبائیڈن نے عہدہ سنبھالنے کے بعدایک ماہ کے اندراگرکسی حلیف ملک کے حوالے سے خارجہ پالیسی میں تیزترسرگرمی دکھائی ہے تووہ ہے سعودی عرب۔سب سے پہلے توبائیڈن نے یمن جنگ میں سعودی عرب کی مددختم کی،بڑی اسلحہ ڈیل کومنجمدکیا،پھر سعودی ولی عہد،جوعملی طورپربادشاہ کے اختیارات سنبھالے ہوئے ہیں،ان کی تحقیرکی اوروائٹ ہاؤس نے شاہ سلمان سے ٹیلیفون پررابطے سے پہلے یہ وضاحت کی کہ بائیڈن شاہ سلمان کے ساتھ بات کریں گے اورولی عہدکسی بھی طرح ان کے ہم منصب نہیں۔ اس کے ساتھ ہی کہاگیا کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کادوبارہ جائزہ لیاجائے گا،اس کیلئے تعلقات’’ری سیٹ‘‘کرنے کی اصطلاح استعمال کی گئی۔امریکہاورسعودی عرب تعلقات میں سب سے ڈرامائی موڑسعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل پرامریکی انٹیلی جنس رپورٹ کا اجراہے۔امریکی کانگریس نے اس رپورٹ کی اشاعت لازم قراردی تھی لیکن سابق صدرٹرمپ نے اس رپورٹ کی اشاعت روک رکھی تھی۔اس رپورٹ میں کچھ بھی نیانہیں،سعودی ولی عہد کے خلاف کوئی ثبوت بھی نہیں،حالات و واقعات کی بنیادپریہ نتیجہ اخذکیاگیاہے کہ محمدبن سلمان نے جمال خاشقجی کی گرفتاری یاقتل کاحکم دیاتھا۔
یہ وہی نتیجہ ہے جو2سال پہلے اخذکرکے میڈیاکوبتایاجاچکاہے۔اس رپورٹ کے اجراسے یوں لگتاہے کہ بائیڈن سعودی ولی عہد کی ساکھ خراب کرناچاہتے ہیں اوریہ ان ڈیمو کریٹ اراکینِ کانگریس کے ایماپرکیاجارہاہے جو سعودی ولی عہد کوسابق صدرکے ساتھ قریبی اورذاتی مراسم کی سزادیناچاہتے ہیں۔ان اراکینِ کانگریس کی طرف سے ابھی بائیڈن پرمزیددباؤبڑھایاجارہاہے کہ وہ خاشقجی پابندیوں کی زدمیں سعودی ولی عہدکوبھی لائیں،یہی وہ دباوہے جس کے تحت بائیڈن نے بیان دیاکہ وہ سعودی عرب کے حوالے سے اہم بیان جاری کریں گے۔
بائیڈن کی طرف سے ممکنہ اعلان براہِ راست سعودی ولی عہدکے حوالے سے نہیں ہوگابلکہ امکان ہے کہ ولی عہد کی سربراہی میں قائم ویلتھ فنڈ،جسے پبلک ویلتھ فنڈکے نام سے جانا جاتاہے،پابندیوں کی زدمیں آجائے۔امریکی یہ دعوی کرتے ہیں کہ خاشقجی کے قتل کیلئے جانے والی ٹیم نے جوطیارہ استعمال کیاوہ اسی ویلتھ فنڈسے خریداگیاتھا۔اسی دعوے کوبنیاد بنا کراس ویلتھ فنڈکوہدف بنایاجاسکتاہے۔اگرایساکیاگیاتویہ سعودی معیشت کیلئیایک زلزلے سے کم نہیں ہوگا۔عرب ممالک میں ویلتھ فنڈ تیل کی دولت جمع کرنے اورانہیں ذاتی کنٹرول میں رکھنے کاذریعہ ہے۔یہ فنڈ حکمرانوں کی ذاتی ضروریات کے علاوہ تیل کی قیمتوں میں بحران کی صورت میں ملکوں کے بجٹ خسارے کوپوراکرنے کیلئیاستعمال ہوتے ہیں اورملک کومعاشی دھچکوں سے بچانے کاموثرآلہ ہیں۔ سعودی عرب کے پبلک ویلتھ فنڈکاحجم360/ارب ڈالرہے اوردنیاکے8ویں بڑے ویلتھ فنڈکی حیثیت رکھتاہے۔یہ ویلتھ فنڈ سعودی عرب کے طویل مدتی معاشی استحکام کی ضمانت ہے۔
جوبائیڈن نے انتخابی مہم کے دوران خاشقجی کے قتل پرسخت بیانات دیتے ہوئے سعودی عرب کوایک’’اچھوت‘‘ریاست بنانے کے بلندوبانگ دعوے کیے تھے،اوراب رپورٹ کے اجراکے بعدامریکی میڈیاانہیں یہ دعوے یاددلاکراکسارہاہے کہ وہ اب کچھ کرکے دکھائیں۔بائیڈن اس سے پہلے اوباماکے ساتھ نائب صدررہ چکے ہیں۔اوباماانتظامیہ کے تعلقات بھی سعودی عرب کے ساتھ زیادہ خوشگوار نہیں تھے۔اوبامانے ہی ایران کے جوہری پروگرام پربین الاقوامی معاہدے پردستخط کیے تھے اوراب بائیڈن بھی اسی سوچ کولیکر چل رہے ہیں،لیکن کیامستقبل کے بادشاہ پرپابندیاں امریکی مفادمیں ہیں؟ایک صدارتی امیدواراورامریکہکے صدرکی حیثیت یکسر مختلف ہے۔اب بائیڈن کیلئیان دعوں پرعمل آسان نہیں اوروہ تنے ہوئے رسے پرچل رہے ہیں۔
امریکہکے باخبرحلقوں کادعوی ہے کہ سعودی ولی عہدپرپابندیوں کاآپشن زیرِغورتھاہی نہیں،جوبائیڈن کوان کی نیشنل سیکورٹی ٹیم اورمحکمہ خارجہ نے صلاح دی تھی کہ مستقبل کے بادشاہ پرپابندیاں پیچیدگیوں کوبڑھادیں گی اورسعودی عرب میں امریکی فوجی مفادات کوزک پہنچے گی۔اسی لیے بائیڈن انتظامیہ نے محکمہ خارجہ کوسعودی ولی عہدپرپابندیوں کے حوالے سے کسی جائزہ رپورٹ کی تیاری کیلئیکہاہی نہیں تھااورنیویارک ٹائمزکی یہ خبرخودہی لیک کی گئی کہ سعودی ولی عہد پابندیوں کی زدمیں نہیں آئیں گے۔جوبائیڈن سے ایک انٹرویو میں سوال بھی کیاگیاکہ کیاوہ خاشقجی قتل کیس کے حوالے سے سعودی ولی عہدپرزوردیں گے کہ وہ انسانی حقوق کادھیان رکھیں،جس پربائیڈن کاجواب تھاکہ’’وہ سعودی ولی عہدکے ساتھ نہیں بلکہ سعودی شاہ کے ساتھ ڈیل کررہے ہیں۔اب قواعد بدل رہے ہیں اورآئندہ نمایاں تبدیلیاں سامنے آسکتی ہیں،اگرسعودی عرب کوہمارے ساتھ معاملات رکھنے ہیں توانہیں انسانی حقوق کادھیان رکھناپڑے گا‘‘۔
سعودی ولی عہد کے متعلق براہِ راست کسی بڑے اقدام کی’’سفارتی قیمت‘‘بہت بھاری اورخطرناک ہوگی۔ بائیڈن انتظامیہ کوغیر ارادی نتائج سے خبرداررہنے کی ضرورت پڑے گی کیونکہ اس کاواسطہ ایک’’جنگجوشہزادے‘‘سے ہے،جوکچھ کرگزرنے پرآئے تونتائج کی پروانہیں کرتااورشہزادے کی جنگجوانہ فطرت کی گواہی ماضی کے واقعات دیتے ہیں۔امریکی انٹیلی جنس رپورٹ کااجراایک سیاسی اقدام ہے،لیکن اس سے اقدامات اورجوابی اقدامات کاایک لامتناہی سلسلہ بھی شروع ہوسکتاہے جس سے خطے میں امریکی مفادات خطرے میں پڑجائیں گے۔بائیڈن کابارباریہ کہناکہ وہ سعودی ولی عہد کے ساتھ معاملات طے نہیں کریں گے،امریکی اوریورپی میڈیا میں یہ تاثرپیداکررہاہے کہ شایدامریکہمحمدبن سلمان کے بادشاہ بننے میں رکاوٹ بن سکتاہے۔بائیڈن کاشاہ سلمان کوچننااوران کے ولی عہدکودھتکاردینا امریکی انتظامیہ کے ذہنی الجھاوکوآشکارکررہاہے۔ڈیموکریٹ پارٹی میں انتہائی بائیں بازو کے لوگ بائیڈن کی الجھن کوبڑھارہے ہیں۔
امریکی اوریورپی میڈیامیں محمدبن سلمان کوبادشاہت سنبھالنے سے روکنے کی باتیں سعودی سیاسی معاملات اورشاہی خاندان سے ناواقفیت کی بنیاد پرہیں۔شاہ سلمان کی صحت زیادہ اچھی نہیں اورامورِسلطنت انہوں نے خودولی عہدکے حوالے کررکھے ہیں۔ محمدبن سلمان کی گرفت سعودی نظام پرمضبوط ہے،محمدبن نائف کوولی عہد کی جگہ لانے کی سوچ اور بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے ایسے اشارے سعودی عرب میں نئے کریک ڈاؤن کوجنم دیں گے اورشاہی خاندان کے اندربغاوت کچلنے کی ایک بڑی مہم پہلے ہی انجام دی جاچکی ہے ،دوبارہ ایسی کوئی مہم حالات کومزید خطرناک بنادے گی،یعنی سعودی عرب میں کسی بھی طرح کا عدم استحکام خودامریکی مفاد میں بھی نہیں ہوگا۔اگربائیڈن کے دورِصدارت میں ہی محمدبن سلمان بادشاہ بنتے ہیں،جس کے امکانات موجود ہیں،توامریکہاورسعودی تعلقات میں تلخیاں مزیدبڑھیں گی۔
اگربائیڈن انتظامیہ یہ سمجھتی ہے کہ شہزادے کوبے توقیرکرنے سے سعودی عرب میں کوئی بغاوت زورپکڑے گی اوروائٹ ہاؤس کادباؤشہزادے کوشاہ ایران کی طرح تخت چھوڑکر نکلنے پرمجبورکردے گاتوایسابھی شایدنہ ہو،ہاں اگرایساہوتاہے تویہ یادرکھنا چاہیے کہ شاہ ایران کے خلاف تحریک کی حمایت کرکے ایران میں نتیجہ کیانکلاتھا۔بائیڈن انتظامیہ جمی کارٹر کی غلطی کو دہرانے سے اجتناب کرے تویہی امریکہکے حق میں بہترہوگا۔بائیڈن کاموجودہ دباوایسے غیرارادی نتائج کوجنم دے سکتا ہے۔بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے اب تک کے اشارے ایران کوشہہ دے رہے ہیں اوراس کا نتیجہ ایران کی کاروائیوں کی صورت میں سامنے آرہاہے۔ایران نوازگروہوں نے عراق میں امریکی فورسزپرراکٹ برسائے، اسرائیلی بحری جہازپرمیزائل سے حملہ کیااور سعودی دارالحکومت ریاض پرڈرون اورمیزائل کی صورت میں آگ برسائی۔
کئی عشروں کی پابندیوں کے باوجودمشرق وسطی میں ایران کوپراکسی ملیشیازکی وجہ سے حریف عرب ملکوں پربالادستی حاصل ہے۔ایران نے لبنان،شام،عراق اوریمن میں جنگجو گروہوں کی مددسے سعودی عرب کاگھیراوکررکھاہے۔بائیڈن کے یمن جنگ میں سعودی عرب کی مددختم کرنے اورحوثی باغیوں کودہشتگردقراردینے کے فیصلے کوواپس لیکرایران کو فائدہ پہنچایااور حوثیوں کے حوصلے بلندہوئے یوں سعودی عرب پرحملے بڑھ گئے۔
ان حالات میں سعودی عرب کے پاس ایک ہی راستہ رہ جاتاہے کہ وہ امریکہپرانحصارختم کرکے نئے دوست تلاش کرے اوریہ کام شروع بھی ہوچکاہے۔اسرائیلی میڈیا کے مطابق اسرائیل،سعودی عرب،بحرین اورمتحدہ عرب امارات پرمشتمل4ملکی مشترکہ دفاعی اتحادپرمذاکرات شروع ہوچکے ہیں۔یہ مذاکرات بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے ایرانی جوہری پروگرام پربین الاقوامی معاہدے کی طرف واپسی کے اعلانات کے بعدشروع ہوئے۔سعودی عرب دفاع کیلئے روس اور چین کے دروازے بھی کھٹکھٹاسکتاہے اور اسرائیل کے ساتھ مزید قربت کی راہ ہموارہوسکتی ہے کیونکہ دونوں ملک ایران کے جوہری پروگرام کویکساں خطرہ تصورکرتے ہیں۔
بائیڈن انتظامیہ سعودی عرب کے حوالے سے ایک حد سے آگے جانے کی متحمل نہیں ہوسکتی کیونکہ سعودی عرب ناصرف تیل کی منڈی میں استحکام کاضامن ہے بلکہ خطے کی دیگر ریاستوں کو مدد فراہم کرکے علاقائی استحکام کوبھی یقینی بنانے میں مدد دیتاہے۔حالیہ اسرائیل عرب تعلقات کی بحالی کیلئے’’معاہدہ ابراہیمی‘‘میں سعودی عرب نے پس پردہ رہ کراہم کرداراداکیا۔یہ بات بائیڈن انتظامیہ سے ڈھکی چھپی نہیں اسی لیے آئندہ کے اقدامات سعودی عرب یاولی عہدکوکچھ معاملات میں محدودتوکرسکتے ہیں لیکن تعلقات ٹوٹنے کی نوبت نہیں آئے گی۔بائیڈن کی شاہ سلمان کوکی گئی فون کال کے بعدوائٹ ہاوس کااعلامیہ ایک بارپھرغور سے پڑھنے کی ضرورت ہے،جس میں کہا گیاکہ بائیڈن نے تعلقات کی تاریخی نوعیت کونوٹ کیا،گرفتارسعودی سماجی کارکن کی رہائی کاخیرمقدم کیااورسعودی عرب کے دفاع میں مددکاوعدہ کیا۔
دوسری طرف اس خطے میں چین نے ایران کے ساتھ 460بلین ڈالر کاتجارتی سمجھوتہ کرکے اس کومکمل طورپربھارت کی گود سے نکال کرامریکہکیلئے ایک نیاچیلنج کھڑاکردیاہے اور اب ایران بھی کھل کربھارت کے خلاف میدان میں آرہاہے۔اب صرف عرب ممالک کا فیصلہ باقی ہے۔ادھرچین نے سعودی عرب اور باقی ممالک کوتیل کی تجارت ڈالرمیں کرنے کی بجائے لوکل کرنسیوں میں کرنے کی آفرکی ہے جویقیناجہاں امریکی ڈالرکوبدترین دھچکاہوگاجبکہ کوروناکی وجہ سے امریکی معیشت پہلے ہی زبوں حالی کی شکارہے۔چین کی یہ پیشکش سعودی عرب اوردیگرخلیجی ممالک کوامریکی دبا ؤسے نکلنے کابہترین موقع بھی ہے جس سے عرب ممالک امریکہسے پرانی تنخواہ پرکام کرنے کاعندیہ دے سکتے ہیں اس وقت امریکہکاجوعرب ممالک پربھرپور دباؤہے، اگرسعودی عرب دباؤپرگھٹنے ٹیک کرامریکی بلاک میں رہتاہے توچین فوری طورپرسعودی عرب کی بجائے ایران اورروس سے تیل خریدناشروع کردے گا ۔یادرہے کہ چین صرف سعودی عرب سے 40ارب ڈالرزکاتیل خریدتاہے جبکہ ایران پہلے ہی چین کو آدھی قیمت پرتیل دینے کی آفرکرچکاہے۔
عرب ممالک پربہت ہی کڑاوقت ہے لیکن امریکہ اپنے دشمنوں سے زیادہ اپنے دوستوں کوڈستاہے اورچین ہرحال میں اپنے دوستوں کوساتھ لیکرچلتاہے۔اب فیصلہ محمد بن سلمان کے صوابدید پرہے کہ وہ خطے میں اپنے اقتداراورملکی سلامتی کیلئے زندگی اور موت میں کس کاچناکرتاہے جبکہ پاکستان اورچین پہلے ہی سعودی عرب اورایران میں تعلقات کی بحالی کیلئے کام کررہے ہیں۔
باقی اسرائیل کی کوشش ہے کہ خودجنگ میں نہ کودے بلکہ امریکہ،بھارت اوراپنے مغربی اتحادیوں کیذریعے چین کوشکست دے،بالکل وہی پالیسی جوپہلی جنگِ عظیم میں امریکہکی تھی،جب روس،برطانیہ اورفرانس بمقابلہ جرمنی،آسٹریا،ہنگری اور سلطنتِ عثمانیہ تھے اورامریکہپہلے3سال تک دونوں کواسلحہ اورخوراک فروخت کر کے خوب پیسے کماتارہا اور آخری سال جب روس انقلاب کے بعدجنگ سے باہرہوااوردونوں فریقین بہت زیادہ کمزورہوگئے تواعلانِ جنگ کردیااوراسی طرح جنگ جیت گیا۔ اب اس خطے میں اسرائیل کی بھی وہی پالیسی ہے جس کی بنا پروہ فی الحال سی پیک کوبہانہ بناکربھارت کی پیٹھ تھتھپاکرجہاں امریکہکاساتھ دے رہاہے وہاں بھارت کوبھی اپنااسلحہ فروخت کرکے مال بنارہا ہے۔اسرائیل یہ سمجھتاہے کہ چین کاراستہ روکنے کیلئے بالآخرامریکہاورمغرب اک نیامیدان جنگ کھولنے پرمجبورہوجائیں گے اورجب امریکہ،بھارت،چائنہ روس اورپاکستان آپس میںلڑکربے حدکمزورہوچکے ہوں گے تواس وقت جنگ میں شامل ہوکراوربغیرزیادہ محنت کہ جنگ جیت کروہ سپرپاورکاتاج اپنے سرپرسجاکرگریٹراسرائیل کی بنیادرکھے گا۔
امریکہبھی اسرائیل کے اس پلان کواچھی طرح جانتاہے اس لیے وہ خودجنگ میں نہیں کودناچاہتابلکہ بھارت اوردوسرے ممالک کاکندھااستعمال کرکے جنگ جیتناچاہتاہے لیکن اسرائیل یہ ہونے نہیں دے گا۔یہودیوں کی خفیہ تنظیمیں پہلے ہی رپورٹ دے چکیں اورکہہ چکیں ہیں کہ چین اس خطے میں امریکہکوبری طرح شکست دے گاکیونکہ ہزاروں میل دور بیٹھاامریکہ اس خطے میں موجودممالک کے اتحادکے سامنے بری طرح بے بس ہوجائے گااور اس میں سب سے بڑاکردارپاکستان اداکرے گا ۔
Comments are closed.