Baseerat Online News Portal

کون تھے مولانا نور عالم خلیل الامینی ؟

پوچھتے ہیں وہ کہ غالبؔ کون ہے کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا

از شمشیر حیدر قاسمی

پوچھتے ہیں وہ کہ غالبؔ کون ہے

کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا

ادب، تمیز، سلیقہ، شعور، وقار،متانت اور سنجیدگی کو اگر مجسم شکل میں کسی کو سمجھانا، بتانا یا دیکھانا پڑے تو بلا کسی تامل، تکلف اور تصنع کے حضرت مولانا نورعالم خلیل الامینی رحمۃاللہ علیہ کا سراپا سامنے لایا جاسکتا ہے، در اصل حضرت مولانا نور عالم صاحب خلیل الامینی کا تصور کرتے ہی ہمارا ذہن فورا ان صفات کی طرف منتقل ہوجاتا ہے،کیوں کہ ان کی شخصیت میں یہ صفات اس طرح سے راسخ ہوگئیں تھیں کہ ان کی ہر ادا، ہر قول و فعل حتی کہ مطالعہ و کتب بینی، درس و تدریس،نشست و برخواست، خورد و نوش اور تقریر و تحریر تک میں یہ صفات بالکل نمایاں تھیں، وہ بڑے نازک مزاج اور نظیف الطبع انسان تھے، بد اطواری اور بد نظمی سے انہیں غایت درجہ نفور تھا، طالب علم کے اندر ناشائستگی، بدذوقی اور بد وضعی دیکھتے تو بہت ہی کبیدہ خاطر ہوتے ، بروقت اس طرح ٹوکتے اور تنبیہ فرماتے کہ طالبعلم اسے زندگی بھر یاد رکھتا، محنت و مطالعہ ان کی زندگی کی خاص شناخت تھی، تکاسلی و تکاہلی کبھی ان کی قریب سے نہیں گزری، متعدد امراض اور تکالیف کے باوجود وہ چاق و چوبند دکھتے، ان کا درس انفرادی پہچان کا حامل ہوتا، عربی زبان و ادب کیا ہے؟ ، اس کا تدریسی نہج کیسا ہونا چاۂیے؟ ، قرآن و حدیث اور عربی زبان و ادب کی کتابوں سے الفاظ اور تعبیرات کس طرح کشید کی جاتی ہیں؟ ، اور اس کے استعمال و ادائیگی کی صورتیں کیا ہو سکتی ہیں؟ ، حضرت مولانا نور عالم خلیل الامینی رحمۃاللہ علیہ کے دروس میں طلبہ کو ان امور کی اچھی واقفیت حاصل ہوجاتی، وہ طلبہ جنھیں مولانا سے شرف تلمذ حاصل ہوجاتا،وہ اپنے اوپر ناز کرتا، دوران دروس ان کے تنبیہی جملوں کو طلبہ اپنے دوستوں اور رفیقوں کے مجلسوں میں فخریہ انداز میں بیان کرتے، ان کے ایک ایک جملے کو بطورسند پیش کرتے، مولانا محنتی، ذہین اور علمی ذوق رکھنے والے طلبہ سے بہت خوش ہوتے، سست، لا ابالی اور کاہل قسم کے طلبہ میں محنت اور جد و جہد کا جذبہ بیدار کرنے کے لئے انھیں جھنجھوڑتے، کتب بینی اور جہدو سعی کے لیے انھیں اکساتے، حضرت مولانا نور عالم خلیل الامینی رحمۃاللہ علیہ نے حضرت مولانا سید محمد میاں، حضرت مولانا وحیدالزماں کیرانوی اور حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی علیہم الرحمہ کی صحبتوں سے نہ صرف استفادہ کیا بلکہ ان کی شخصیتوں، ان کی خوبیوں، ان کے کمالات کو اپنے اندر سمولیا، مولانا کی عربی و اردو ہر دو تحریریں نہایت ہی دلکش، دلنشیں اور عمدہ ہوتیں، ان کی تحریر الفاظ کا حسن انتخاب، جملوں کا تسلسل اور تعبیرات کی خوبصورتی سے مرقع ہونے کے ساتھ نہایت ہی وقیع معلومات پر مشتمل ہوتی تھی، عربی زبان ہو یا اردو مولانا ہر دو زبان کے زمر شناس تھے، دونوں ہی زبان میں ان کا قلم چلا، بڑھا، اور بڑھتا ہی چلا گیا اور علم و حکمت کی نہایت دلکش اور روح پرور خوشبو صفحۂ قرطاس پر اس طرح مہکاتا اور گمکاتا چلا گیا،کہ میدان علم وادب کا با ذوق طالب علم یہ تمنا کرنے پر مجبور ہے کہ،
اپنا سا کیوں نہ ہم کو بناکر چلے گئے،
افسوس علمی شخصیتوں اور صاحبان فضل و کمال ہستیوں کو پس مرگ زندہ کا نام دینے والا قلم آج خود بھی پس مرگ زندہ میں شامل ہوگیا، لیکن یہ زندگی بھی عجیب ہے کہ ہر طرف صف ماتم بچھی ہوئی ہے، ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں آنکھیں اشکبار ہیں، رنج و الم نے دلوں کو یرغمال بنا رکھا ہے،
دنیا بھر میں موجود مولانا کے لا کھوں شاگردوں، عقیدتمندوں اور ان کی تحریروں کے شیدائیوں کے قلوب صدموں سے پھٹے جارہے ہیں کہ علمی وادبی دنیا کو نورانی ماحول عطاء کرنے والا نور عالم خلیل الامینی کا دلربا قلم ماہنامہ الداعی کے صفحات سے اشراقہ کی شکل میں اب عالم کو ضیابار نہیں کر سکے گا، وہ خود ہی رب کریم کی نورانی عنایتوں سے مستنیر ہونے کے لئے رب العالمین کے حضور پہنچ گیا، جہاں جاکر کوئی واپس نہیں آتا، مگر جانا سب کو ہے، آج وہ کل ہماری باری ہے، کل من علیہا فان، ویبقی وجہ ربک ذو الجلال و الاکرام،
فصبر جمیل،

  1. ٢٠/ رمضان المبارك ١٤٤٢ھ،مطابق 3/مئی 2021ء بروز دوشنبہ

Comments are closed.