فلاحی اورسماجی کام کرنے والے امیدوار وں کی بیدر بلدیاتی انتخابات میں ہار

محمد یوسف رحیم بیدری، بیدر، کرناٹک۔ موبائل:۔ 9141815923
شہر بیدرکے جملہ 32وارڈوں پر تین سال کی تاخیر سے بلدیاتی انتخابات27اپریل2021ء کو منعقد ہوئے۔اور آج جمعہ کو ان انتخابات کے نتائج دیکھنے کوملے جن میں 14خواتین نے کامیابی حاصل کی۔ اسی طرح 12مسلمان کامیاب ہوئے ان میں مرد اور خواتین نے ففٹی ففٹی نشستیں حاصل کی۔ کانگریس سے8 مسلمان، جنتادل ایس سے 2مسلمان،مجلس اور عام آدمی پارٹی سے ایک ایک مسلمان اور بی جے پی سے کسی مسلمان نے کامیابی حاصل نہیں کی حالانکہ بی جے پی نے قدیم شہر سے مسلمان امیدوار بھی کھڑے کئے تھے۔ تاہم ہماراموضوع یہ نہیں ہے۔ بلکہ ہماراموضوع وہ شخصیات ہیں جو اپنے فلاحی،سماجی، تعلیمی اور دیگر کام کے لئے شہر بھر میں مشہورہیں لیکن انھیں عوام نے ووٹ نہ دے کر انھیں مایوس کیا۔ ان لوگوں میں پہلانام نوازخان کاہے*
*نوازخان:۔ معروف تعلیمی ادارہ نورایجوکیشن ٹرسٹ کے چیرمین اور کانگریس کے معروف قائد محمد ایاز خان کے بھائی نوازخان نے وارڈ نمبر33سے مقابلہ کیاتھا۔ ان کی اہلیہ کانگریس پارٹی سے امیدوار تھیں۔اور سب کو امید تھی کہ وہ انتخاب جیت جائیں گے۔ کیونکہ انھوں نے گذشتہ کئی سال سے اس علاقے میں پینے کے پانی کی مفت سربراہی،لائٹ اور کھمبوں کی تنصیب کے علاوہ دیگر کام بھی مفت انجام دئے۔شادیوں کی لئے اپنی جانب سے رقم دے کر اس سلم ائریا کے علاقوں میں اپنی فلاحی سرگرمیوں سے ہمیشہ عوام کی خدمت کی۔ پتہ نہیں کیاہوا کہ وہ انتخاب ہارگئے۔کہاجارہاہے کہ نواز خان کی ہار دراصل عوامی خدمت کرنے والے لوگوں کی ہارہے*۔
*سید منصوراحمد قادری:۔ جناب منصورقادری مساجد، عیدگاہ، جلوس جلسہ، شب معراج، برأت،شب قدر، میلادالنبی ؐ، حاجیوں کوروانگی، حاجیوں کی واپسی، سرکار کے خلاف احتجاج،پولیس سے پنگا،شرعی مہمات، مشائخین کی ضرورت ہیں۔ بلکہ ان تمام کام میں ان کااہم رول ہواکرتاہے۔ جس کام کو کبھی محسن کمال اور قیصر رحمن انجام دیاکرتے تھے وہ کام آج کل منصورقادری کیاکرتے تھے۔ بلکہ سارے منصوبے ان کی سیاسی پارٹی مجلس اتحادالمسلمین کے دفتر میں مبینہ طورپر بنائے جاتے ہیں۔ اور کل جماعتی احتجاج کی قیادت مجلس کے بیانر تلے منصورقادری ہی کیاکرتے ہیں۔ ایسے شخص کی ہار بتاتی ہے کہ ان انتخابات میں عوام کاموڈ فلاحی خدمت انجام دینے والے کو اپنا بلدیاتی قائد تسلیم کرنے میں نہیں تھا۔منصورقادری کی ہار سے ایسا لگتاہے کہ عوامی فلاح کے کام کرنے والوں اور قیادت کاخواب دیکھنے والوں کے لئے بیدر میں فی الحال راہیں مسدود ہیں*۔
*ونئے مالگے:۔ ونئے مالگے وارڈ نمبر 13سے جنتادل یس کے ٹکٹ پر کھڑے تھے، وہ انتخاب جیت نہ سکے۔ ونئے مالگے راجیوتسوایوارڈ یافتہ نوجوان ہیں۔ ایک این جی او چلاتے ہیں جس کانام ”ٹیم یووا“ ہے اس این جی او نے زیر زمین آبی گذرگاہوں کو قابل استعمال بنانے میں اہم رول اداکیاہے۔ اسی طرح شہر میں صفائی ستھرائی،دیوانے اورنیم پاگل افراد کو نہلانادھلانا، اور ان کی مدد، کلچرل پروگراموں کے ذریعہ ہندواور مسلمانوں کے علاوہ لسانی بنیادوں پر اردواور کنڑا زبانوں کے رشتے مضبوط کرنا ان کے مقاصدر ہے ہیں جس کے لئے وہ اوران کی ٹیم ہر آن سرگرم رہتی ہے۔یہ اور ان کی ٹیم کورونا وارئیر رہی ہے۔ گذشتہ ایک سال کے دوران بھوکوں تک کھاناپہنچانا، کوویڈکے ضمن میں گاؤں گاؤں بیداری پیداکرنا، اور سوشیل میڈیا میں بھائی چارے کے پیغام کو عام کرنے اور ضلع انتظامیہ سے قریب رہنے کے باوجود انہیں ہارکامنہ دیکھنا پڑا۔ ونئے مالگے کی ہارنے یہی سبق دیاہے کہ عوام ضرورت مند ہے۔ فلاحی کام اس تک پہنچانے والے بھی ہیں لیکن فلاحی کام کرنے والوں کوعوام ووٹ دینے سے قاصر ہے۔ ایسا کیوں ہے اس کاجائزہ ونئے مالگے اور ان کی ٹیم ضرور لے گی۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں فلاحی کاموں سے انقلاب آسکتاہے، ونئے مالگے کی مثال سے انھیں مایوسی ہاتھ لگی ہے۔لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ونئے مالگے کو اپنی کوشش جاری رکھنی ہے۔ وقت آتاہے انتظار کرنے والا چاہیے*۔
*انجینئر مبشرسندھے:۔معروف سیاست دان اور رکن پارلیمان جناب اسدالدین اویسی کی MIMشاخ بیدر کے صدر کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ اسی طرح ویلفیرپارٹی آف انڈیا ضلع بیدر کے صدر انجینئر مبشرسندھے کے نصیب میں بھی ہارکاہار پہننالکھاتھا۔* *مبشرسندھے انجینئر ہونے کے علاوہ بنیادی طورپر ایک صالح نوجوان ہیں اورتڑپنے اورپھڑکنے والادل اپنے سینے میں رکھتے ہیں۔ کوویڈ۔ 19کی پہلی لہر سے پانچ چھ سال قبل سے ہی انھوں نے لوگوں تک مفت ادویات پہنچانا، ان کی صحت کا خیال رکھنا، ان کی سرجری کروانا، ضرورت مندوں میں اناج کی مفت تقسیم،اور اد جیسے پانی کی قلت والے علاقے میں سرکاری سطح سے پانی کاانتظام، تعلیم کے خواہاں طلبہ وطالبات کے لئے تعلیم کی راہیں ہموار کرنا، طلبہ کو تعلیم کی طرف رغبت دلانااور مفت تعلیم دلانے کی کوشش کرنا، قانونی مشاورت پہنچانااور خود ضرورت مندوں کے گھرتک پہنچناوغیرہ، یہ ایسے کام ہیں،جن کی بنیاد پر وارڈ نمبر 5کی عوام سے انھوں نے ووٹ طلب کئے۔ عوام نے سنی ان سنی کردی۔ بلکہ مختلف قسم کے اداروں کے صدور نے بھی ان کی کاوشوں کو قابل اعتنا نہیں سمجھا۔ اور ہرممکن کوشش ان کے خلاف کی گئی۔ ان کی ہار سے پتہ چلتاہے کہ فلاحی کام کرنے والوں کو اپنے معاشرے کا نئے سرے سے سروے کرنا پڑے گا۔اور یہ سوال کہ فلاحی کام کرنے والا الیکشن جیت سکتاہے یانہیں؟اس سوال کا جواب جب تک ملے گانہیں تب تک فلاحی اور تعلیمی ادارے سیاسی میدان میں ناکام قرار دئے جاتے رہیں گے۔
*نبی قریشی:۔ جناب نبی قریشی جنتادل یس ضلع بید رکے مینارٹی شعبہ کے صدر ہیں۔ ان کی ہار ملاکر جملہ تین پارٹیوں کے صدور کی ہار ان بلدیاتی انتخابات میں ہوئی ہے۔ نبی قریشی کونسلرتھے گویا انھوں نے اپنی نشست گنوادی ہے انھیں کانگریس پارٹی سے شکست ہوئی۔ نبی قریشی نے بحیثیت کونسلر جوکام کئے وہ علیحدہ ہیں لیکن بحیثیت سماجی کارکن جو فلاحی کام انجام دئے ہیں اس کی فہرست الگ ہے۔ وہ غریبوں کی فلاح کیلئے ان میں چاول اور شادی بیاہ کے موقع پر رقم کی تقسیم، ساڑیوں کی تقسیم وغیرہ کاکام انجام دیاکرتے تھے۔ ہر سال بلڈ ڈونیشن کیمپ رکھنا اپنی عادت بنالی تھی۔ ان کادفتر24گھنٹے ضرورت مندوں کی مدد کے لئے کھلارہتاہے۔ جہاں غریب افراد مفت میں آدھار کارڈ، شناختی کارڈ، ہیلتھ کارڈ، لیبر کارڈ اوراسی قسم کے دیگر کارڈ بنالیتے ہیں۔ان تمام کام کے باوجود بھی عوام نے انھیں کونسلر کے لئے منتخب نہیں کیا۔ فلاحی کام انجام دینے والے سیاست دانوں کا بھی شکست اگرمقدر ہے توپھر آئندہ نئی حکمت عملی کے ساتھ انتخابی لڑائی لڑنی پڑے گی۔ اور لڑائی کیسے لڑی جاتی ہے اس سے نبی قریشی بخوبی واقف ہیں
امبریش کنچا:۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے مختلف بندوں کو مختلف صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ جن میں اک امبریش کنچا بھی ہیں۔ امبریش کنچا بنیادی طورپرایک مصلح مزاج نوجوان ہیں۔ ظلم او ربرائی کے خلاف جدوجہد ان کے خون میں شامل ہے۔ وہ پہلے سماجی کارکن ہیں بعد میں انھوں نے سیاست کا رخ کیا۔ اس سے قبل امبریش کنچا نے کنڑی فلم اداکار اوپندر ا کی سیاسی پارٹی سے پارلیمانی انتخاب لڑکر شکست کا منہ دیکھاتھا۔ اس دفعہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے میدان میں رہے اور ناکام ہوگئے۔امبریش نے کبھی ضلع انتظامیہ اور میونسپلٹی سے پنگالیاتھا۔ لوگ کہتے ہیں ونئے مالگے ضلع انتظامیہ سے قریب رہ کرانتخاب ہارگئے اور امبریش ضلع انتظامیہ اور میونسپلٹی کے خلاف جاکر انتخاب ہارگئے۔ یہاں بھی سوال اٹھتا ہے کہ جو شخص ظلم اور برائی کے خلاف جدوجہد کرتاآیاہے، ضلع انتظامیہ اور میونسپلٹی کے افسران کے خلاف ایک سنجیدہ لڑائی جس نے لڑی ہو جس کے سبھی گواہ ہیں، اس کی ہار آیا اس کی انتخابی حکمت عملی میں نقص ہے۔ یاوسائل کی کمی کی ہارہے یا پھر عوام سماجی اور فلاحی کام کرنیو الوں کو اپنی قیادت کے لئے مناسب نہیں سمجھتی؟
ماجد بلال:۔ اس سال کے بلدیاتی انتخابات میں جن نوجوانوں کو اپنی جیت کاپہلے سے یقین تھا ان میں ماجد بلال بھی شامل تھے۔ ماجد بلال سماجی خدمت نہیں بلکہ انسانی خدمت کاوہ نام ہے جس نے کوویڈکی قہرناکی اور اس دور میں
انسانوں کی سنگ دلی کو دیکھتے ہوئے 600سے زائد کوویڈسے متاثرہ میتوں کو جلانے اور دفنانے کاانتہائی اہم کام انجام دیاہے۔ بلالحاظ مذہب وملت کئے جانے والایہ کام اور اس کے علاوہ انسانوں کوصحت سے متعلق مفت سہولیات بہم پہنچانا، ان کااہم مقصد رہاہے جبکہ دیگر ضرورتوں کو بھی انھوں نے پورا کیا۔ اور جب انتخابی مہم چلائی تب عوام نے انہیں جیت کابھروسہ دلایا۔ کئی لوگ ہاتھ اٹھاکر دعا کرتے رہے۔ میتوں کی تدفین اور اس کو جلانے کے کام کے عوض ان کے پاس 80سے زائد اعزازات موجود ہیں۔ لیکن جب نتیجہ آیاتو وہ ہار چکے تھے۔ ماجد بلال کی ہار سے بہت ساروں کا یقین فلاحی کام سے اٹھ گیاہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ سیاسی جیت کچھ اور تقاضے کرتی ہے اور بے وقوف لوگ سماجی کام میں اپناوقت اور پیسہ لگاتے ہیں
اور بھی نوجوان ہیں جن میں اظہر احمد خان، اختر احمد عرف محسن،شیخ انصر ریگل، محمدجنیدالدین وغیرہ شامل ہیں جن کے سماجی اور فلاحی کام ان کے لئے سیاسی فائدہ نہیں پہنچاسکے اور وہ بلدیاتی انتخاب ہارگئے۔
ہمیں امید ہے کہ انسانیت کے یہ گل سرسبد اپنی ناکامی پر فلاحی وسماجی کام کو موقوف نہ کرتے ہوئے نئے سرے سے اپنی سیاسی حکمت عملی بناکر دوبارہ میدان میں آئیں گے اور آخرکار معرکہ سرکرلیں گے۔ ہماری دعائیں مذکورہ نوجوانوں اور سیاسی قائدین کے ساتھ ہیں۔
Comments are closed.