بلبلِ ہزار داستان حضرت مولانا نور عالم خلیل امینیؒ کا سفرِ آخرت

 

 

محمد سلمان مدرس مدرسہ حسینیہ مصطفی آباد مرغوب پور ہردوار اتراکھنڈ 9690514804

 

۲۰/ رمضان المبارک ۱۴۴۲ھ بروز پیر کی صبح اپنے ساتھ یہ خبرِ صاعقہ اثر لے کر آئی کہ دارالعلوم دیوبند کے مقبول ترین، محبوب ترین، مایۂ ناز اور ہر دل عزیز استاذ حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی قدس سرہ بھی راہئ ملک بقاء ہوئے ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔

حضرت الاستاذ صرف ایک فرد نہیں تھے بلکہ اپنی ذات میں ایک انجمن اور اپنے آپ میں ایک تحریک تھے، ظاہر ہے کہ جس کی نفع رسانی کا دائرہ جتنا وسیع ہوتا ہے اُس کی جدائی کا غم بھی اتنا ہی زیادہ ہوا کرتا ہے، آج عربی ادب کو سوگوار ہونے کا حق ہے کہ اُس کا عاشقِ زار چلا گیا، اردو ادب کو خون کے آنسو بہانے کا حق ہے کہ اردو کا صاحبِ طرز ادیب رخصت ہوگیا، درس و تدریس کو نوحہ خوانی کا حق ہے کہ ایک مثالی مدرس پیوندِ خاک ہوگیا، تحقیق و تصنیف کو بین کرنے کا حق ہے کہ ایک بے مثال محقق مصنف ابدی نیند سوگیا بلکہ گلستانِ علم و فن کا ہر ذرہ مستحقِ تعزیت ہے کہ بلبلِ ہزار داستان خاموش ہوگیا؛ آپ بہ یک وقت مثالی مدرس، خوش فکر مصنف، ہمہ جہت مفکر، وسیع النظر مدبر، منفرد محقق، بے مثال انشاء پرداز، عبقری ادیب، مردم شناس، رجال ساز، انقلاب آفریں، ادیب گر، خوش پوشاک، خوش ذوق، مجسمۂ متانت، پیکرِ ظرافت، سراپا نفاست اور اعلیٰ انسانی اقدار کے جامع انسان تھے ۔

راقم سطور کو بفضل اللہ و توفیقہ "دیوان متنبی” اور "دیوان حماسہ” کا مجوزہ حصہ حضرت سے پڑھنے کا موقع ملا مگر درس گاہ سے باہر کبھی بالمشافہ ملاقات کی نوبت نہیں آئی تھی کہ خوش قسمتی سے ایک مرتبہ برادرِ عزیز جناب حضرت مولانا مفتی محمد شاہ نواز صاحب متوطن موضع چانچک ضلع ہردوار کے ہم راہ افریقی منزل قدیم میں واقع آپ کے کاشانے پر حاضری کی سعادت نصیب ہوئی، نہایت ہی بشاشت اور خندہ پیشانی کے ساتھ ملاقات فرمائی، خوش ذائقہ ضیافت سے شاد کام فرمایا، قیمتی اور پر سوز نصیحتوں سے نوازا، حالاتِ حاضرہ پر بامعنی اور مفید تبصرے فرمائے، اُس دن حضرت کو درس گاہ سے باہر نہایت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ درس گاہ میں جن کے جلال کی تاب لانا ہر کسی کے بس میں نہ تھا ذاتی زندگی میں وہ سراپا جمال تھے، باہر جن کی نستعلیقیت اور جامہ زیبی کے چرچے تھے خانگی زندگی میں ان کی دل موہ لینے والی سادگی اس سے کہیں زیادہ دل کش تھی، دل کو بڑی انسیت ہوئی، جی چاہتا تھا کہ دیر تک استفادہ ہو مگر غالبا پندرہ ہی منٹ کے بعد گھڑی کا الارم بجا اور ہم سے رخصتی کا طالب ہوا، اُس دن پہلی بار گھڑی پر بہت غصہ آیا، ہم جیسے ناکارہ تو یہی سوچ رہے تھے کہ

*وصل کا دن اور اتنا مختصر*

*دن گنے جاتے تھے اِس دن کے لیے*

مگر حضرت جیسے وقت کے قدردان زبان حال سے گویا یوں کہ رہے تھے کہ

*ظالم تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی*

*گردوں نے تری ساعتِ عمر اور گھٹادی*

گھڑی کا الارم بجنے کے بعد وہاں بیٹھنا حضرت کا قیمتی وقت ضائع کرنے کے مترادف تھا اس لیے ہم نے حضرت سے اجازت چاہی، حضرت نے تو اعلی ظرفی کی حد ہی کردی اور وقت کی تنگ دامانی کا شکوہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ بیٹا! اگر وقت ہوتا تو اور بیٹھتے، حضرت کے درِ دولت سے قدم نکالنے تک "جزاکم اللہ” "حیاکم اللہ” "بارک اللہ فیکم” "استودعکم اللہ” جیسے دعائیہ کلمات سماعت سے ٹکراتے رہے ۔ اُس دن یہ بھی علم ہوا کہ وقت کی حفاظت اور قدر کیسے کی جاتی ہے ۔

افسوس! اب شرافت و نجابت کے ایسے نمونے کہاں دیکھنے کو ملیں گے ۔ اللہ رب العلمین حضرت قدس سرہ کی مغفرت فرمائے، قرب کے اعلی درجات عطا فرمائے اور آپ کے اہل خانہ و متعلقین کی غیب سے کفالت فرمائے آمین ۔

 

بعض واقف کاروں نےلکھا کہ حضرت نے اپنے آخری ایام میں اپنے اہل خانہ کو راز الہ آبادی کے یہ پر سوز اشعار سنائے اور آبدیدہ ہوگئے?

 

 

اتنے مانوس صیاد سے ھوگئے

اب رھائی ملے گی تو مرجائیں گے

 

آشیاں جل گیا، گلستاں لٹ گیا

ہم قفس سے نکل کر کدھر جائیں گے

 

اور کچھ دن یہ دستورِ مے خانہ ہے

تشنہ کامی کے یہ دن گزر جائیں گے

 

میرے ساقی کو نظریں اٹھانے تو دو

جتنے خالی ہیں سب جام بھر جائیں گے

 

اے نسیمِ سحر! تجھ کو ان کی قسم

ان سے جا کر نہ کہنا مرا حال غم

 

اپنے مٹنے کا غم تو نہیں ہے مگر

ڈر یہ ہے ان کے گیسو بکھر جائیں گے

 

اشک غم لے کے آخر کدھر جائیں ہم

آنسوؤں کی یہاں کوئی قیمت نہیں

 

آپ ہی اپنا دامن بڑھا دیجیے

ورنہ موتی زمیں پر بکھر جائیں گے

 

کالے کالے وہ گیسو شکن در شکن

وہ تبسم کا عالم چمن در چمن

 

کھینچ لی ان کی تصویر دل نے مرے

اب وہ دامن بچا کر کدھر جائیں گے

 

اللہ کرے کہ حضرت کی خصوصیات و امتیازات پر کوئی مفصل تحریر لکھنے کا موقع ملے، سرِ دست تو اپنا غم غلط کرنے کے لیے لکھے گئے انہی سیاہ نقوش پر اکتفاء کرتا ہوں

 

محمد سلمان واردِ حال مالور کرناٹک

Comments are closed.