علم و ادب اور تہذیب و ثقافت کے پیکر تھے امینی صاحب رح

محمد قمر الزماں ندوی
وہ جن کے ہونے پہ نازاں تھی زندگی
وہ لوگ چل بسے ہیں خدا مغفرت کرے
تین مئی ۲۰۲۱ء کو سحر کے وقت مشہور صاحب قلم، ادیب،مترجم،مصنف،صحافی اور باکمال عالم دین جناب مولانا نور عالم خلیل امینی کی وفات کی خبر سوشل میڈیا کے ذرائع سے ملی ، دل دھک سے ہوگیا اور زندگی کی بے ثباتی اور ناپائیداری پر یقین اور زیادہ پختہ اور مضبوط ہوگیا کہ اس زندگی کی حیثیت پانی کے ایک بلبلے سے زیادہ نہیں ہے، لاریب یہ دنیا فانی ہے، ایک سرائے اور مسافر خانہ ہے اور انسان مثل مسافر ، اور راہ رو ہے۔ بلاشبہ ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے، صرف اللہ رب العزت کی ذات اور ہستی کو دوام و بقا حاصل ہے وہی باقی اور حی ہے، اس کے سوا جو کچھ بھی ہے اسے فنا اور نیست ہونا ہے، تاہم دنیا میں بعض انسان ایسے ہوتے ہیں، جو اپنی زندگی اس اصول اور ڈھب سے گزارتے ہیں کہ مرنے کے بعد بھی ان کے نقوش و اثرات باقی رہتے ہیں اور لوگ ان کو زندوں کی طرح یاد کرتے ہیں ، نیز ان کے اوصاف و کمالات اور خدمات کو یاد کرتے ہیں،ایسے ہی مثالی اور عبقری لوگوں میں تھے جناب مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب۔ جن کے بارے میں شاعر کا یہ شعر اچھی طرح فٹ آتا ہے کہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بہت مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
مولانا امینی صاحب کی وفات پر بے ساختہ زبان پر یہ شعر آگیا کہ
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آب بقائے دوام لے ساقی
مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب رح عربی زبان و ادب کے نامور ادیب انشاء پرداز صحافی اور استاد تھے، وہ عالی ظرف عالی دماغ، عالی فکر اور بالغ نظر عالم دین تھے، ۔۔
انہوں نے تقریبا نصف صدی تک عربی اور اردو زبان و ادب کے برہم گیسووں کو سنوارا ،اس کے نوک و پلک کو درست کیا اور اپنے قلم ✒ کا جادو دکھایا نیز علماء دیوبند کے افکار و خیالات عربوں کے سامنے پیش کیا، ہندوستان کی طرف سے ترجمانی کی،مولانا کی تحریروں میں بلا کی ادبیت ، چاشنی اور حلاوت تھی، ان کی تصنیف وہ کوہ کن کی بات سوانحی ادب کا بہترین نمونہ اور شاہکار ہے۔
وہ ایسے ادیب تھے جن کے قلم اور علم کا زور اور شور عربوں نے بھی سنا۔ وہ اردو وعربی کے ایسے صاحب طرز ادیب تھےجنہوں بہت ہی مہارت اور خوش اسلوبی کے ساتھ اپنے افکار و خیالات کو اپنے قارئین تک پہنچایا اور ان سے داد تحسین حاصل کی، یقینا وہ باکمال مدرس و قلم کار تھے سلیقئہ زندگی سکھانے والے اور اس کو برتنے کا صحیح ڈھنگ سکھانے والے معلم تھے وہ ایک نفیس متین باوقار اور نستعلیقی انسان تھے ان کے جانے سے علم و ادب کی دنیا ایک باکمال مربی و معلم اور اتالیق سے محروم ہوگئی۔
ایسا کہاں سے لاوں کہ تجھ سا کہوں جسے
وہ انتہائی محنتی جفاکش اور مجاہد انسان تھے ، بہت مرتب اور منظم زندگی گزارتے تھے، لایعنی اور فضول کا ان کے یہاں کوئی گوشہ اور حصہ نہیں تھا، وہ قیمت غم حیات کو دام دام وصول کرنے والے تھے اور اس سلسلہ میں وہ بہار اور خزاں کی کوئی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ ہم پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں اور ان کے اساتذہ، معاصرین اور تلامذہ بھی گواہی دیتے ہیں کہ انہوں نے زندگی کے ہر دن کو محاسبہ کے ساتھ گزارا وہ زبان حال اور قال دونوں سے کہتے تھے۔
اے شمع تجھ پہ رات یہ بھاری ہے جس طرح
میں نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح
مجھے افسوس ہے کہ ایسے باکمال انسان سے میں ان کی زندگی میں کبھی نہیں مل سکا اور نہ ان سے کبھی کوئی رابطہ کرسکا، دو بار دیوبند حاضری ہوئی، لیکن کوشش کے باوجود ملاقات کی صورت نہیں نکل سکی،ان کے اخلاق و عادات اور ان کی حیات مستعار کے جو واقعات اور زندگی کی تنظیم و تنسیق اور جہد و جہد کی جو تفصیلات ملی ہیں یہ سب شنیدہ ہیں دیدہ نہیں، ان کے شاگردوں کی زبانی اور بعض ندوہ کے اساتذہ کے ذریعہ معلوم ہوئیں ۔ البتہ ان کی تحریریں اور مضامین سے کافی استفادہ کا موقع ملا۔ میری ایک کمی ہے کہ کوئی بھی تحریر مکمل کم ہی پڑھتا ہوں، مطلب کی چیز صرف پڑھ لیا یا ادھر ادھر سے پڑھ لیا، لیکن مولانا امینی صاحب رح اور بعض اور مولف و مصنف ہیں جن کی تحریروں کو میں از اول تا آخر پڑھتا ہوں۔۔
انسان پر ماحول و تربیت کا بہت اثر پڑتا ہے ہم یہ یقین اور دعوی کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ مولانا امینی رح کے اندر علم و ادب کی یہ گہرائی وگیرائی و ملکہ اور زبان کی یہ چاشنی اور زندگی گزارنے کی اس لطافت و نستعلیقیت میں سب سے بڑا رول ، کردار اور دخل تھا مولانا علی میاں ندوی رح کی صحبت اور اتالیقی کا، علم و ادب کے اس جوہری نے اس زرہ کو مہتاب بنا دیا ، مس خام کو کندن بنا دیا۔اور ندوہ کے قیام اور وہاں کی مدرسی نے ان کو ایک ماہر استاد اور باکمال ادیب و انشاء پرداز اور بے نظیر مصنف اور مترجم بنا دیا۔۔ ندوہ کے قیام ہی کے دوران حضرت مولانا علی میاں ندوی رح کی ایماء پر ان کی کتاب مولانا الیاس رح اور ان کی دینی دعوت کا عربی میں ترجمہ کیا اور بہترین ترجمہ کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ یہاں ہم ان کے سوانحی خاکے کو بھی پیش کرتے ہیں تاکہ خلف کو سلف کی خدمات اور ان کی جہد و جہد کا احساس ہو اور ان کی کوششیں اور کاوشیں سن اور پڑھ کر اپنے اندر بھی مہمیز لگائیں۔۔
مولانا نور عالم خلیل امینی استاد دار العلوم دیوبند ،و مدیر ماہنامہ الداعی کی پیدائش: 18 دسمبر 1952ء کو بہار کے مظفر پور ضلع میں ہوئی آپ معروف عالم دین اور دار العلوم دیوبند میں عربی ادب کے استاذ تھے۔ ان کی کتاب فلسطین فی انتظار صلاح الدین پر آسام یونیورسٹی سے علامۂ فلسفہ (Ph.D) مقالہ لکھا گیا۔ مولانا امینی عربی زبان کے مصنف ہیں اور ان کی کتاب مفتاح العربیہ مختلف مدارس میں درس نظامی کے نصاب میں شامل ہے۔
آپ کی ابتدائی تعلیم مدرسہ امدادیہ دربھنگہ ، دارالعلوم مئو اور دارالعلوم دیوبند میں ہوئی۔ 1970ء میں مولانا نے درس نظامی کی تکمیل کے لیے مدرسہ امینیہ میں داخلہ لیا۔ ان کے اساتذہ میں وحید الزماں کیرانوی اور محمد میاں دیوبندی وغیرہم شامل ہیں۔ مولانا امینی دارالعلوم دیوبند کے استاذِ ادب عربی اور عربی ماہانہ ” الداعی” کے مدیرِ اعلی تھے۔ تقریبا دس سال تک وہ ندوہ میں بحیثیت استاد عربی رہے اور ان ایام میں انہوں نے مولانا علی میاں ندوی رح مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی مدظلہ العالی اور مولانا سعید الرحمٰن اعظمی ندوی حفطہ اللہ سے عربی زبان و ادب میں بھر پور انداز میں خوشہ چینی کی، مولانا محمد الحسنی صاحب رح کی رفاقت نے عربی زبان و ادب کے ذوق میں اور جلا بخشی۔
2017 میں آپ "صدارتی سرٹیفکیٹ آف آنر” (Presidential Certificate of Honour) کے اعزاز سے نوازا گیا۔آسام یونیورسٹی میں ابو الکلام نے نور عالم خلیل امینی کی تحریروں میں فلسطين في إنتظار صلاح دين کے خصوصی حوالہ کے ساتھ سماجی و سیاسی پہلوؤں کے عنوان پر اپنا ڈاکٹریٹ مقالہ لکھا۔
تصانیف ترميم
مولانا کی عربی اردو کتابوں میں سے کچھ کے نام مندرجۂ ذیل ہیں:
اردو ترميم
وہ کوہ کَن کی بات (علامہ وحید الزماں کیرانوی کی سوانحِ حیات)
فلسطین کسی صلاح الدین ایوبی کے انتظار میں
پسِ مَرگِ زندہ
حرفِ شيریں
موجودہ صلیبی صہیونی جنگ
کیا اسلام پسپا ہو رہا ہے؟
خط رقعہ کیوں اور کیسے سیکھیں؟
عربی ترميم
مفتاح العربیہ (مکمل دو حصے) اس کتاب کو مختلف مدرسوں میں درس نظامی نصاب میں پڑھایا جاتا ہے۔
فلسطين في انتظار صلاح دين (عربی)
المسلمون في الهند
الصحابة و مكانتهم في الإسلام
مجتمعاتنا المعاصرة والطريق إلى الإسلام
الدعوة الإسلامية بين الأمس واليوم
متی تكون الكتابات مؤثرة؟
تعلّموا العربیة فإنہا من دینکم
العالم الهندي الفريد الشيخ المقرئ محمد طيب
انتقال: کئی دنوں سے بستر علالت پر رہنے کے بعد بحکم خداوندی ۳/مئی ۲۰۲۱ مطابق ۲۰ رمضان المبارک کو آخری سانس لی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
Comments are closed.