آہ!مولانا نورعالم خلیل امینی اللہ کوپیارےہوگۓ

محمد صدرعالم ندوی
مہوا ویشالی 9661819412
ایک ماہ سےمولانا کی بیماری کی خبرآرہی تھی مختلف ڈاکٹروں کےذریعہ علاج ہورہاتھا دعاکابھی اہتمام ہورہاتھا لیکن وہی ہواجوخداکومنظورتھا ،ساری ترکیبیں دھری کی دھری رہ گٸیں ،تین مٸ 2021 بیس رمضان المبارک ١٤٤٢ھج بروز سوموارکو صبح 3.15میں آسمان کی طرف اشارہ کرتےہوۓ آخری سانس لی ،صبح میں وہاٹس ایپ کھولا ،تومولاناکےانتقال کی خبربجلی بن کرگڑی ،اناللہ واناالیہ راجعون پڑھا،پھردھیرےدھیرےغم ہلکا ہوا ،ہم لوگوں کوتوصبر ہی کرناہے اوراسی کی تعلیم شریعت نےدی ہے ہم لوگ اللہ کی امانت ہیں، اورسبھوں کو اللہ کےپاس جانا ہے
مولانا عربی واردو ادب کےمایہ نازادیب تھے ،دارالعلوم دیوبندکےبڑےاستادتھے ،ماہنامہ "الداعی "کےاڈیٹرتھے،جب کسی موضوع پرلکھتےتو اس کاحق اداکردیتے،راقم الحروف حضرت مولانا سیدمحمدشمس الحق سابق شیخ الحدیث جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیرکی حیات وخدمات پر مضامين کامجموعہ شاٸع کررہاتھاتومیں نےمولاناکو بھی ایک مضمون لکھنےکےلیےکہا ،تومولانانےایک مضمون ،ایک بافیض عالم ،کےعنوان سےلکھا،یہ مضمون ضیاۓ شمس نامی کتاب میں شامل ہے،مولانا اصول اوروقت کےپابندتھے،جب میں پہلی باردارالعلوم دیوبندگیا ،اورمولاناسےفون کرکےملاقات کےلیے وقت لیا اوروقت مقررہ پرگیا،تومولانانےدل کھول کربات کی ،اوراپنی کتاب ،وہ کوہ کن کی بات ،اورحرف شیریں ،کتاب بھی دی،وہ کوہ کن کی بات مولانا وحیدالزماں کیرانوی کی سوانح ہے اورحرف شیریں ،قواعدکی کتاب ہے مولانا کو اپنےاستاد مولانا وحیدالزماں کیرانوی سےبےانتہامحبت تھی ،اسی محبت میں ڈوب کرکےوہ کوہ کن کی بات لکھی، جواردوادب کاشاہکار نمونہ ہے ،مولانا کٸ سالوں تک دارالعلوم ندوةالعلما۶ سےبھی منسلک رہے ،یہاں مولانا محمدالحسنی ،اورمولاناسعیدالرحمان اعظمی ندوی سےخصوصی استفادہ بھی کیا اورپڑھایا بھی ،پھراپنےاستادمولاناوحیدالزماں کیرانوی کی دعوت پردارالعلوم دیو بندچلےگۓ اورعربی ادب کےاستادمتعین ہوۓ اورزندگی بھردیوبندکےہی ہوکررہ گۓ مولانا جلسہ جلوس کےآدمی نہیں تھے ،اس لیے عوامی شہرت نہیں ملی ،مولانا درس وتدریس کےآدمی تھے ،اس لیے اہل علم کےیہاں کافی مقبول اورمستندعالم تھے ،طلبہ کو سمجھانےکی غضب کی صلاحيت تھی ،مثال دےدےکرسمجھاتےجس سےکندسےکندبچہ بھی مولانا کی بات کو آسانی سےسمجھ لیتا ،جب کسی موضوع پرقلم اٹھاتےتو اس موضوع کاحق اداکردیتے اور قارئين کوتشنگی باقی نہیں رہتی مولانا کی تحریریں عرب دنیامیں غور سےپڑھی جاتی تھیں ،مولانا صاف لکھتے اوراسلام کاپیغام واضح اندازمیں دیتے،مولانا کی عربی خدمات کودیکھتےہوۓ صدرجمہوریہ ایوارڈ سےبھی نوازا گیا،ایک مرتبہ مجھے عرب کی یونیورسیٹیوں میں داخلہ کےلیے تصدیق نامہ کی ضرورت تھی مولانا نےفوراقلم اٹھایا اوراسی وقت برجستہ لکھ دیا ،پھرکسی وجہ سےمیراداخلہ عرب کی یونیورسیٹیوں میں نہیں ہوا جس کامجھےآج تک افسوس ہے ،مولانا کوجب بھی میں نےخط لکھا،مولانا نےہرخط کاجواب دیا ، ان شاء اللہ کسی وقت خط کوشاٸع کیاجاۓگا ،مولانا بہارکےضلع مظفر پورکےتھے ،لیکن دیوبندکےہوکررہ گۓ ،مولانا بہارکےبارےمیں کہتےکہ بہارمردم خیزنہیں ہے بلکہ مردم خورہے کتنےبڑےبڑےلوگ بہارمیں ہیں لیکن وہ بندکوٹھریوں میں ہیں،مولانا نےایک مرتبہ کہاکہ لکھناپڑھنابہت مشکل ہوگیاہے ،خودسےمضمون لکھتاہوں ،پھراسےصاف کرتاہوں اورڈاک کےحوالہ کرتاہوں کوٸ کام کاآدمی نہیں ملتا ہے،ادھرکٸ سالوں سےمولاناسےکوٸ رابطہ نہیں ہوسکاجس کامجھےبےحدافسوس ہے لیکن مولانا کی محبت اورشفقت ہمیشہ یاد آتی رہیں گی مولانا اپنی کتابوں اورتحریروں کےذریعہ ہمیشہ یادآتےرہیں گے ،اخیرمیں اللہ سےدعاہےکہ مولانا کی بال بال مغفرت فرما ،اورپس ماندگان کو صبرجمیل دے آمین یارب العالمین

Comments are closed.