Baseerat Online News Portal

رمضان المبارک اور برادران وطن! قسط (٤)

محمد صابر حسین ندوی

٤- غیر مسلموں کو دعوت افطار
رمضان المبارک میں افطار کا وقت مسلمانوں کیلئے انعام کا لمحہ ہوتا ہے، جہاں اللہ تعالی دن بھر بھوک و پیاس کی شدت برداشت کرنے والے اور اللہ کیلئے اپنی جان کو گھلانے والوں کیلئے ایک تحفہ افطار کی صورت میں ملتا ہے، یہ وقت بہت ہی پرکشش، پرلطف اور جاذب نظر ہوتا ہے، خوان نعمت کے ساتھ رحمت الہی متوجہ ہوتی ہے، اگر ایک گھر میں بھی چند افراد ہوں تو ان کا نظام افطار بھی عشق الہی سے چور اور جذبہ اطاعت سے بھرپور ہوتا ہے، ایک گھر اور خاندان میں ہر انسان کی پر کیف نگاہیں، دعائیں، مناجات اور افطار کیلئے خاص نظم واقعی قابل دید ہوتا ہے، جب یہی نظم بڑے پیمانے پر کیا جائے، مسلمانوں کی ایک جماعت ملکر افطار کریں تو وہ دعوتی اور تبلیغی پہلو سے بہت ہی نایاب موقع ہوتا ہے؛ بالخصوص جب ان میں غیر مسلموں کو دعوت دی جاتی ہے، تو وہ بھی اس نظم کو دیکھ کر حیران و ششدر رہتے ہیں، خاص طور پر ہندوازم، منواسمرتی کے ظالمانہ نظام، متفاوت سماج اور اونچ نیچ کے مارے ہوئے، چھوا چھوت اور بھکتی کے نام پر کھانا ضائع کرنے والے، امتیازات کے سایہ میں سماج کو بانٹ کر رزق کو بھی تقسیم کرنے والوں کی حیرانی دوچند ہوجاتی ہے، جب وہ دیکھتے ہیں کہ مسلمان ایک ہی صف میں بیٹھ کر اللہ تعالیٰ سے لَو لگا کر، دعاؤں میں مشغول ہو کر وہ کس طرح کھجور، پانی اور چند پھلوں پر قناعت کرتے ہیں، ہر ایک مسلمان سنت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے مطابق ایک نوالہ منہ میں لیتا ہے، اور ایثار و قربانی کا جذبہ دکھاتا ہے، ہر کوئی اپنے بھائی کو ترجیح دیتا ہے اور پھر کھانا ابھی پورا بھی نہ ہوا کہ تکبیر الہی پر لبیک کہتا ہوا واپس اللہ تعالی کی عبادت کیلئے صف بستہ ہوجاتا ہے، یہ سب کچھ مشرکین، کافرین کو توحید اور رسالت کی طرف سوچنے اور سمجھنے پر مجبور کرتے ہیں، جو کام سالوں تک تبلیغ و ارشاد کے ذریعہ کیا جاتا ہے، وہ کام صرف ایک افطار سے ہوجاتا ہے، اس وقت کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے اگرچہ بڑے پیمانے پر اجتماعی افطار ممکن نہیں؛ لیکن کیوں نہ ایسا ہو کہ اس دفعہ اپنے آس پاس غیر مسلم بھائیوں کو بھی گھروں پر دعوت دی جائے، انہیں دسترخوان پر بلایا جائے، چند گھر جمع ہوجائیں اور برادران وطن کو بھی کھجور اور پانی پر بلا کر موحدین کیلئے انعام یافتہ موقع کا نظارہ کروایا جائے، استاد محترم، فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
افطار میں جہاں ایک پہلو غذا کا اور کھانے کھلانے کا ہے، وہیں اس میں عبادت اوربندگی کا جو رنگ ہے، وہ بھی بہت ہی پرکشش اور جاذبِ قلب و نظر ہے، محض اللہ کے لئے دن بھر بھوکے پیاسے رہنا اور اپنی روز کی عادتوں سے کنارہ کش ہو جانا، پھر جیسے ہی مغرب کے وقت مؤذن نے خدا کی کبریائی کا نعرہ لگایا، سارے لوگ ایک ساتھ افطار کے لئے دستر خوان پر بیٹھ گئے، نہ کوئی بڑا نہ چھوٹا، نہ اونچا نہ نیچا، نہ مالدار نہ غریب، کسی کے ساتھ کوئی امتیاز نہیں، ایک ہی دستر خوان پر ایک ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں، پھر اس وقت بھی خدا سے دُعاء و التجاء، دن بھر کے بھوکے ہیں ،پھر بھی اللہ تعالیٰ کی بندگی میں مشغول ہو جاتے ہیں، خدا کے سامنے بچھاؤ اورجھکاؤ کی یہ کیفیت اتنی دل آویز اور پُر کشش ہے کہ لوگ اسے دیکھ کر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے ۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ اپنے غیر مسلم بھائیوں کو افطار کے لئے مدعو کریں، وہ کھانے میں بھی شریک ہوں اور خدا کی بندگی کے اس غیر معمولی منظر کو بھی اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھیں؛ لیکن یہ ضروری ہے کہ افطار کے نظم کو شور شرابہ اور محض کھانے کے انتظام کے لئے دوڑ دُھوپ سے بچاتے ہوئے وہ ماحول پیدا کیا جائے جو افطار کے وقت مطلوب ہے، اور غذائی دعوت سے زیادہ روحانی دعوت پر توجہ مرکوز رکھی جائے، روحانی دعوت سے مراد یہ ہے کہ اُن تک دین کی کچھ بات پہنچانے کا نظم کیا جائے، مثلا افطار سے آدھا ایک گھنٹہ پہلے مدعوئین کو بلا یا جائے اور رمضان المبارک کی نسبت سے غیر مسلم بھائیوں کے حسب ِحال مختصر سا بیان رکھا جائے، جس میں توحید، رسالت آخرت کا تصور ، روزہ کا مقصد، رمضان المبارک کے افعال وغیرہ پر روشنی ڈالی جائے، قرآن مجید کا تعارف کرایا جائے، اس کے تاریخی طور پر محفوظ ہونے کے پہلو کو واضح کیاجائے گویا صرف کھانے کا دستر خوان نہ ہو؛ بلکہ ہدایت ِربانی کا دستر خوان بھی بچھانے کی کوشش کی جائے” ۔ (شمع فروزاں: ١٦/٤/٢٠٢١)

[email protected]
7987972043
05/05/2021

Comments are closed.