کیا 2021 میں 20 لاکھ اموات چھپائی گئیں؟ سرکاری رپورٹ سے کورونا دور کی سچائی کا انکشاف

نئی دہلی : ہندوستان میں کورونا وبا کے دوران اموات کی اصل تعداد ایک طویل عرصے سے بحث کا موضوع رہی ہے۔ کئی ماہرین، صحافیوں اور عالمی اداروں نے اشارہ دیا تھا کہ حکومت کی جانب سے جاری کردہ سرکاری اعداد و شمار حقیقی حالات کی مکمل عکاسی نہیں کرتے۔ اب، رجسٹرار جنرل آف انڈیا (آر جی آئی) کی تازہ ترین رپورٹ نے ان خدشات کو تقویت دی ہے۔ نیوز پورٹل ’اے بی پی نیوز’ پر شائع خبر کے مطابق، اس رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ سال 2021 میں کورونا کی دوسری لہر کے دوران ملک میں مجموعی طور پر بیس لاکھ سے زائد اضافی اموات ہوئیں، جو سرکاری ریکارڈ سے کہیں زیادہ ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، 2021 میں ہندوستان میں مجموعی طور پر ایک کروڑ تین لاکھ اموات درج کی گئیں، جبکہ 2019 میں یہ تعداد 83 لاکھ تھی اور 2020 میں 81 لاکھ۔ اس فرق سے یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ 2021 میں کم از کم 20 لاکھ ایسی اموات ہوئیں جو معمول کے رجحان سے زیادہ تھیں۔ ماہرین کے مطابق، اس غیر معمولی اضافے کی بنیادی وجہ کورونا وبا ہے لیکن ان میں سے کئی اموات کو سرکاری طور پر نہ تو کورونا سے جوڑا گیا اور نہ ہی ان کا طبی طور پر اندراج ہو سکا۔
یہ رپورٹ تین الگ الگ سرکاری دستاویزات پر مبنی ہے جن میں سیمپل رجسٹریشن سسٹم (ایس آر ایس)، سول رجسٹریشن سسٹم (سی آر ایس) اور میڈیکل سرٹیفکیٹ آف کاز آف ڈیتھ (ایم سی سی ڈی) شامل ہیں۔ ان کے مطابق ریاستوں کی جانب سے 2021 میں صرف تین لاکھ بتیس ہزار اموات کو کورونا سے جوڑ کر رپورٹ کیا گیا تھا، جبکہ میڈیکل سرٹیفائیڈ ڈیٹا میں یہ تعداد چار لاکھ تیرہ ہزار کے قریب تھی۔ اس کے برعکس، عام اموات کے سال بہ سال فرق سے پتا چلتا ہے کہ صورتحال کہیں زیادہ سنگین تھی۔
کورونا کے دوران نہ صرف صحت کا نظام دباؤ کا شکار تھا، بلکہ دیہی علاقوں میں تو طبی سہولیات کی شدید قلت تھی۔ کئی جگہوں پر افراد کی اموات کے وقت کورونا کی جانچ تک نہیں ہو سکی، اور نہ ہی مناسب اسپتال کی سہولت موجود تھی۔ اس کے علاوہ، اموات کے وقت بروقت اندراج نہ ہونے کی وجہ سے بھی اعداد و شمار غیر واضح رہے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اس وقت کے سیاسی دباؤ اور وبا کے پھیلاؤ کے خوف سے بھی سرکاری سطح پر اصل اعداد کو کم کر کے پیش کیا گیا۔
اب جب کہ حکومت کی اپنی رپورٹ میں یہ اعتراف سامنے آیا ہے کہ 2021 میں اموات کا رجحان غیر معمولی حد تک بڑھا ہوا تھا، تو اس سے وہ لاکھوں خاندان بھی متاثر ہوتے نظر آتے ہیں جنہوں نے اپنے عزیزوں کو کھو دیا، مگر ان کی اموات کو کبھی سرکاری ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ اس رپورٹ سے نہ صرف ایک تلخ حقیقت آشکار ہوئی ہے بلکہ حکومت، سماج اور اداروں کے لیے ایک سوال بھی کھڑا ہو گیا ہے کہ مستقبل میں ایسی کسی ہنگامی صورتِ حال میں شفافیت اور درستگی کو کیسے یقینی بنایا جائے۔
(قومی آواز پورٹل)
Comments are closed.