دارالعلوم ہدایت الاسلام، عالی پور نوساری( گجرات) کے ناظم اعلی حضرت قاری عبد الحئی صاحب گاجریاؒ کی وفات حسرت آیات پر منتشر کلمات

ممحمد حنیف ٹنکاروی
اے رونقہائے محفل ما۔۔۔!
الموت جسر یوصل الحبیب الی الحبيب
جھکایا سر نہ اپنا شہرت و انعام کی خاطر
جیے بھی کام کی خاطر، مرے بھی کام کی خاطر
حضرت ناظم صاحب رحمہ اللہ پر کچھ لکھنا اور وہ بھی چند الفاظ میں! ایک نگینہ، ایک متقی، ایک مدبر، ایک ناظم، ایک غمخوار ایسے موقعوں پر مشکل یہ پیش آتی ہے کہ کس پہلو کو اجاگر کیا جائے اور کس سے احتراز جائے بہر حال، چل مرے خامہ! بسم اللہ
کئی روز سے جس سانحہ کا کھٹکا لگا ہوا تھا وہ بالآخر پیش آکر رہا، دنیا ہی فانی ہے اور ایک دن جان سب کی جانی ہے حضرت قاری عبد الحئی صاحبؒ بھی وہاں چلے گئے جہاں ایک نہ ایک روز سب کو جانا ہے اور زمین اوڑھ کر سو جانا ہے۔ آج وہ کل ہماری باری ہے۔ لیکن قاری صاحب کی موت ایک فرد کی نہیں بلکہ فرد فرید کی موت ہے، ایک ناظم کی موت ہے، ایک مدبر کی موت ہے، قسام ازل نے جس کو صرف بیدار مغز ہی نہیں بخشا تھا بلکہ اس کے سینہ میں دل دردمند بھی رکھا تھا۔
زندگی، زندگی ہے، صرصر ہے اور صبا ہے، ساحل ہے اور طوفان ہے، یاس کا بھنور ہےاور آس کی شادمانی ہے… اسے شکایتوں اور شکوؤں کے دوش پر گزاریں یا صبر و شکر کے ساتھ طے کریں… خوشی اور غم کے ہجوم میں گزرنے والی زندگی نے گزرنا ہوتا ہے اور گزر جاتی ہے… زندگی کا اصول ہے وہ جس قدر بڑھتی ہے اسی قدر گھٹتی ہے، یہ زندگی کی خود فریبی ہے کہ وہ گھٹنے میں اور کم ہونے میں خوشی کے روزن تلاشتی ہے۔ زبان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی معجزاتی تعبیر…. مالي و للدنيا ما أنا والدنيا الا كراكب استظل تحت شجرة ثم راح وتركها (میری اور دنیا کی مثال اس مسافر کی طرح ہے جو کسی درخت کے نیچے چھاؤں میں بیٹھے، کچھ دیر سستائے اور پھر اسے چھوڑ کر چل پڑے) زندگی کا سب سے بڑا انمول تحفہ ایمان پر خاتمہ ہے….. ہمارے مرحوم قاری صاحب بھی شہادت کی موت پا گئے ۔
” کل نفس ذائقۃ الموت” ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے… یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا ایک عام شخص سے لے کر بڑے سے بڑا ملحد نام نہاد دانشوربھی انکارنہیں کر سکتا.. ایک طرف موت ایک اور حقیقت ہے جس سے کسی کو مفر نہیں ۔لیکن دوسری طرف یہ بھی کس قدر تلخ حقیقت ہے کہ انسان عملی سطح پر موت سے بڑی حد تک غافل رہنے کا ثبوت فراہم کرتا رہتا ہے ۔اسلام نے انسانوں کو اپنی موت کو یاد کرتے رہنے کی دعوت دی ہے اور سچی بات یہ ہے کہ اگر انسانی معاشرے کا اپنی موت کو یاد کرتے رہنے کا مزاج بن جائے تو دنیا سے فتنہ وفساد کا قلع قمع ہو جائے، انسان آخرت رخی زندگی گزارنے لگے اور دنیا جنت نظیر بن جائے…. اپنے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور رہنے سہنے والا کوئی انسان جب موت سے ہم کنار ہوتا ہے تو تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی انسان کو اپنی موت یاد ضرور آتی ہے، بزرگوں نے سچ کہا ہے کہ جب انسان کسی کا جنازہ دیکھے تو وہ یہ تصور کرے کہ یہ دوسرے کا نہیں بلکہ خود اس کا جنازہ ہے۔یہ تصور اس میں آخرت کی یاد کا اور اللہ کے خوف کا احساس پیدا کرتا ہے ۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ "انما الاعمال بالخواتيم” چنانچہ حسن خاتمہ ہی اصل ہے…. زیر نظر مضمون اسی خیال سے نذر قارئین ہے کہ حضرت قاری عبد الحئی صاحب کے سفر آخرت کا تذکرہ ہمارے اپنی موت کو یاد کرنے کا سبب بنے، ایمان پر خاتمہ کی فکراس کے لیے دعاؤں کی ہمیں توفیق ہو ۔اور ہمارے اندر اللہ کے حضور پیشی اور جوابدہی کا احساس پیدا ہو جائے ۔
تعلیم و تربیت
مرحوم نے عالی پور مکتب میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد مدرسہ مفتاح العلوم تراج میں حفط مکمل کرکے گجرات کا عبقری ادارہ دارالعلوم فلاح دارین ترکیسر کی راہ لی وہاں عالمیت کے ساتھ ساتھ خصوصی طور پر تجوید کو اپنا ہمیشہ کا مشغلہ بنایا ۔ چنانچہ آپ نے بڑی محنت سے تجوید کو ماہرین ِفن سے حاصل کیا آپ کے اساتذہ میں حضرت مرحوم قاری عباس دھرمپوری رحمہ اللہ، حضرت قاری صالح صاحب جوگواڑی ادام اللہ فیوضہم حال مقیم کناڈا اور حضرت مرحوم قاری رمضان صاحب میواتی رحمہ اللہ ہیں ۔
اُس وقت کے مدبر، وقت کے عظیم مفکر ملت حضرت مرحوم مولانا عبد اللہ کاپودروی رحمہ اللہ سے خوب تعلق رہا ۔ فراغت کے ضلع بلساڑ، سورت کے پسماندہ علاقوں میں مکتب اور امامت کے فرائض انجام دئیے ۔آج بھی ان علاقوں کے پرانے لوگ اساتدجی، استادجی سے یاد کرتے ہیں ۔بلساڑ میں نائی (خلیفہ) برادری کے چند لوگوں نے بھی آپ سے قرآن سیکھا دوران تعلیم ان سے نیت کروائی تھی بولو! ہم اگر بڑے ہوکر نائی بنے تو زندگی بھر کسی کی ڈاڑھی نہیں کاٹیں گے ۔اور جیسا کہ سنا ہے کہ ٹھوس نیت پر وہ حضرات آج بھی قائم دائم ہیں ۔بعدہ اپنے وطن عالی پور میں مکتب بڑی محنت سے پڑھایا ۔پھر ایک مدت کے بعد دارالعلوم کے مہتمم صاحب کے دوسری جگہ منتقل ہونے کی بناء پر منتظمین مدرسہ نے طے کیا کہ اب بجائے مہتمم کے شوریٰ بنائی جائے چنانچہ دفتر کی ذمہ داری آپ کو دی گئی جو آج تک بحسن و خوبی پوری کی۔
ع۔ ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے
مدرسہ کی فعّالیت
روزانہ صبح و شام وقت سے کافی پہلے پہونچ کر دفتر ہی میں إشراق کی نماز پڑھتے تھے ۔ اور اساتذہ و طلبہ بھی وقت سے پہلے درسگاہ پہونچے اس کی فکر فرماتے رہتے ۔مکتب اور دارالعلوم دونوں کے نظام کے ساتھ ساتھ دارالعلوم ڈابھیل کے رکن شوری بھی تھے ۔ساتھ ساتھ گاؤں کی مساجد، قبرستان اور دیگر تنظیموں کی سرپرستی بھی شامل ہے۔ اتنا بڑا نطام سنبھالنے کے باوجود کبھی کسی سے دل برداشتہ نہیں ہوئے اور نہ کسی کو شکایت کا موقع دیا۔ طلبہ کی راحت اور اساتذہ کی نجی ضروریات کی بہت فکر فرمائی ۔ ضرورت پڑنے پر مخیر حضرات کی ڈاڑھی میں ہاتھ ڈال کر اساتذہ اور طلبہ کی ضرورت کو پورا فرماتے جو مدرسہ کے اخراجات کے علاوہ ہوتا۔ تعطیلات کے موقع پر طلبہ کو ٹرین تک پہونچا نے اور سفر کو توشہ کی بھی فکر کرکے دعاؤں کے ساتھ رخصت کرکے ہی اپنے گھر تشریف لے جانا آپ کی عادت شریفہ تھی۔ سالانہ جلسہ کے موقع پر پورا دن اور رات مدرسہ کے لئے قربان کر دیتے اور رات دفتر میں ہی آرام فرماتے ۔ تعطیلات کے ایام میں اساتذہ و طلبہ کی عدم موجودگی میں بھی دفتر میں پابندی سے حاضر ہوتے ۔ کیا لکھا جائے اور کیا چھوڑا جائے۔ یہ بولتا ہوا چمن ہمیشہ کے لئے خاموش ہو چکا، اب صرف یادیں ہی باقی ہیں ۔
"باتیں ہماری یاد رہیں، پھر باتیں ایسی نہ سنئے گا”
اب ایسے سچے مربی کو دیکھنے کے لئے آنکھیں ترس جائیں گی ۔
"ڈھونڈوگے ہمیں ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم”
سنہرے پہلو
شخصیتیں قیامت تک زندہ نہیں رہتیں بلکہ ان کی زندگیوں کا نمونہ بنا کر انھیں وجود بخشا جاتا ہے۔آنے والی نسلوں کو تدبر کرنا ہوتا ہے کہ فلاں وقت درپیش مسائل کی سنگلاخی کو ہمارے فلاں لیڈر نے کس طرح دور کیا؟
مرحوم سادہ مزاج، رقت قلب، تقوی طہارت کے پیکر ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین منتظم مدرسہ تھے۔ ہر سال تبلیغ جماعت کا سالانہ چلّے کے پابند تھے پورا سال تہجد اور پنج وقتہ نمازوں میں اذان سے پہلے مسجد پہونچنا اور تلاوت ِقرآن پاک نیز باہر سے آنے والی جماعتوں کے ساتھ مسجد میں وقت گزارنا وغیرہ عادت ثانیہ تھیں ۔ ماضی قریب کے چند سالوں سے رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف نیز رمضان المبارک میں بیماریوں کا مجموعہ ہونے باوجود یومیہ ١٥ پاروں کی تلاوت کا معمول وفات سے پہلے تک جاری تھا۔ رمضان کے علاوہ عام دنوں میں تقریباً ١٠ پاروں کی تلاوت کرتے نظر آتے تھے حتی کہ اساتذہ کو بھی اس کی ترغیب دلاتے تھے۔
سفر (موت) کی تیاری
موت کی تیاری کے لئے حقوق العباد کا پاس و لحاظ رکھنا بہت ضروری ہے کیونکہ اللہ نے حقوق اللہ سے متعلق شرک کے علاوہ تمام گناہوں کی معافی کا دروازہ توبہ کرنے والوں کے لئے کھلا رکھا ہے لیکن حقوق العباد کی پامالی میں کوئی معافی نہیں ہوگی بلکہ ظالم سے مظلوم کا حق لوٹایا جائے گا ۔ لہٰذا موت سے پہلے وصیت لکھنا اور ناحق وصیت سے پرہیز کرنا بہت ضروری ہے۔ چنانچہ مرحوم علیہ الرحمہ نے تقریباً ١٢ سال پہلے اولاد، دارالعلوم کے ٹرسٹیان، شوریٰ اور اساتذہ کے نام الگ الگ خط لکھ کر کلپ لگا کر اپنی خاص جگہ پر رکھا تھا جو انتقال کے بعد آج بتاریخ ٢١ رمضان ١٤٤٢ کو اہل خانہ نے نکالا اور اب نام بنام پہونچا دیا جاءیگا ۔ ان شاء اللہ
آزمائش
٦٥ سال کی عمر پائی مگر کئی سالوں سے شکر کے مریض تھے ۔بلڈ پریشر بھی کافی رہتا تھا ۔وہ قلب کے بھی مریض تھے غذا میں زیادہ پرہیز کے قائل نہ تھے ۔کمزوری کی وجہ سے لکڑی کے سہارے چلتے تھے ۔ تقریباً آخری دو سال سے کڈنی فیل ہو جانے کی وجہ سے ہفتہ میں دو دن ڈایالیسس ہوتا تھا اور بھی کئی طرح کی تکالیف میں مبتلا رہے ۔ تکالیف کو ہنستے ہنستے برداشت کرتے تھے کبھی بھی زبان سے شکایت کا لفظ نہیں سنا گیا ۔ بس تقريباً آٹھ دس دن وبائی مرض میں مبتلا ہو کر جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔
کڑے سفر کا تھکا مسافر
تھکا ہےایسا کےسوگیا ہے
خود اپنی آنکھیں توبند کرلِیں
ہر آنکھ لیکن ، بِھگو گیا ہے
تعزیت کس کی کریں؟
عالی پور کا علاقہ آج یتیم ہوگیا ۔ہر کس و ناکس کی زبان پر یہ الفاظ ہیں ۔قاری صاحب کیسے چلے گئے، کیسے اچانک ہمیں چھوڑ گئے، مدرسہ کی درودیوار بھی روتی نظر آتی ہیں۔ کون کس کو تعزیت پیش کرے ۔راقم الحروف بھی خوب غمگین ہے۔صرف مدرسہ نہیں پورے علاقہ کے لئے زبردست خلاء ہے جس کا پُر ہونا نایاب نہیں تو کم یاب ضرور ہے۔ ایسے موقع پر گھر والوں کو تعزیت مسنونہ پیش کرتا ہوں ۔
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
الغرض مرحوم ٢٠ رمضان المبارک ١٤٤٢ مطابق ٣ مئی ٢٠٢١ بوقت شان داغ مفارقت دے گئے اور پورے علاقے کو سوگوار چھوڑ گئے۔
اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور اپنی خصوصی رحمتیں نازل فرمائے ۔
حیات جس کی امامت تھی اس کو لوٹا دی
میں آج چین سے سوتا ہوں پاؤں پھیلا کر
Comments are closed.