ماں

حنا شہزادی سیالکوٹ
ماں کی محبت و چاہت کا اندازہ ایک واقعے سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ سمندر کِنارے ایک درخت تھا جس پہ چڑیا کا گھونسلا تھا ایک دن تیز ہوا چلی تو چڑیا کا بچہ سمندر میں گر گیا چڑیا بچے کو نکالنے لگی تو اُسکے اپنے پر گیلے ہوگئے اور وہ لڑکھڑا گئی…اُس نے سمندر سے کہا اپنی لہر سے میرا بچہ باہر پھنک دے مگر سمندر نہ مانا تو چڑیا بولی دیکھ میں تیرا سارا پانی پی جاؤں گی تجھے ریگستان بنا دونگی۔سمندر اپنے غرور میں گرجا کہ اے چڑیا میں چاہوں تو ساری دنیا کو غرق کر دوں تو تو میرا کیا بگاڑ سکتی ہے؟چڑیا نے اتنا سُنا تو بولی چل پھر خشک ہونے کو تیار ہوجا اسی کے ساتھ اُس نے ایک گھونٹ بھرا اُور اڑ کے درخت پہ بیٹھی پھر آئی گھونٹ بھرا پھر درخت پہ بیٹھی یہی عمل اُس نے 7-8 بار دُہرایا تو سمندر گھبرا کے بولا: پاگل ہوگئی ہے کیا؟ کیوں مجھے ختم کرنے لگی ہے؟ مگر چڑیا اپنی دھن میں یہ عمل دُہراتی رہی ابھی صرف 22-25 بار ہی ہوا کہ سمندر نے ایک زور کی لہر ماری اور چڑیا کے بچے کو باہر پھینک دیا۔
درخت جو کافی دیر سے یہ سب دیکھ رہا تھا سمندر سے بولا اے طاقت کے بادشاہ تو جو ساری دُنیا کو پل بھر میں غرق کر سکتا ہے اس کمزور سی چڑیا سیڈرگیا یہ سمجھ نہیں آئی؟سمندر بولا تو کیا سمجھا میں جو تجھے ایک پل میں اُکھاڑ سکتا ہوں اک پل میں دُنیا تباہ کرسکتا ہوں اس چڑیا سے ڈروں گا؟نہیں میں تواس ایک ماں سے ڈرا ہوں ماں کے جذبے سے ڈرا ہوں اک ماں کے سامنے تو عرش ہل جاتا ہے تو میری کیا مجال۔جس طرح وہ مجھے پی رہی تھی مجھے لگا کہ وہ مجھے ریگستان بنا ہی دیگی۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
ماں کی ممتا نہ پوچھ….!!
چڑیا سانپ سے بِپھر جاتی ہے
ماں ایسا وجود کہ جس کا نام زبان پہ آتے ہی منہ میں شیرینی گھلنے لگتی ہے۔ ماں کے بغیر گھر قبرستان کی مانند ہے۔ماں دنیا کی وہ واحد ہستی ہے جو اپنی خوشیاں تیاگ کر اولاد کی پرورش کرتی ہے۔ ماں کی شان بیان کرنا بالکل اس طرح ہے جیسے سمندر کو ایک کوزے میں بند کرنا، ماں شفقت، سراپا محبت کا پیکر ہے۔ ابر باراں میں باد نسیم کی مانند ہے۔ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک شخص نے دریافت کیا ’’یارسول اللہﷺ!میرے حُسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے‘‘؟۔فرمایا ’’تیری ماں‘‘ پوچھا ’’پھر کون‘‘ فرمایا۔۔’’تیری ماں‘‘ اُس نے عرض کیا۔۔’’پھر کون‘‘۔فرمایا۔۔’’تیری ماں‘‘ تین دفعہ آپ نے یہی جواب دیا۔چوتھی دفعہ پوچھنے پر ارشاد ہوا۔’’تیرا باپ‘‘۔ دینِ اسلام میں ماں کی نافرمانی کو بہت بڑا گناہ قرار دیاگیا ہے۔ماں کی قدرو قیمت کا اندازہ ان لوگوں کو بخوبی ہے جن کی مائیں اس دینا سے کوچ کر جاتی ہیں اس کے بغیر گھر کسی سوکھی ٹہنی سا رہ جاتا ہے اس دنیا کا عظیم سرمایہ ہے۔ اس کی شفقت اور وفا کسی تعارف کا محتاج نہیں۔دین اسلام نے ماں کی محبت کو منفرد اور بے مثال قرار دیا ہے۔
شاعرِ مشرق علامہ اقبال ؒ نے ماں کی تعریف کرتے ہوئے کچھ یوں کہا کہ
میری ماں کا چہرہ بھی اتنا حسین ہے
تسبیح کے دانوں کی طرح اقبال
میں پیار سے دیکھتا گیا اور عبادت ہوتی گئی۔
کائنات کی سب سے خوبصورت تخلیق ”ماں” ہے یہ کہنے میں تو تین حرفوں کا مجموعہ ہے؛لیکن ناقابل تسخیر محبت کا حسین شاہ کار ہے۔یہ محبت کی ابتدا ہے۔ دنیا میں کوئی ایسا پیمانہ نہیں جو اس کی شفقت و خلوص کو ماپ سکے۔ اپنی اولاد کی خاطر وہ ہر طرح کے مصائب اور آزمائشوں کا سامنا کرتی ہے لیکن ماتھے پہ شکن تک نہیں لاتی۔جہاں ماں کا ذکر آگیا سمجھ لینا چاہئے کہ ادب کا مقام آگیا۔ دور عصر میں ہم اپنی تہذیب بھولتے جا رہے ہیں۔ اپنے فرائض کو فراموش کرتے جا رہے ہیں مغرب کی اندھا دھند تقلید میں ہمارے ہاں بھی اولڈ ہاؤس بن گئے ہیں جدھر اولاد والدین کو اپنا معاشی بوجھ سمجھ کر چھوڑ آتی ہے۔
اولاد اتنی مصروف ہو گئی ہے ان کے پاس ماں باپ کے پاس بیٹھنے، باتیں کرنے کا وقت نہیں ہے۔ اس امر سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ماں خدا کی محبت کا دوسرا روپ ہے۔ اس کی چاہت ریاکاری اور بناوٹ سے پاک ہوتی ہے۔ماں اللہ رب العزت کا ایسا عطیہ ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ماں کا حق باپ کے حق سے زیادہ ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں، میں نے رسول اللہ سے عرض کیا: عورت پر سب سے بڑا حق کس کا ہے؟ فرمایا: شوہر کا: میں نے عرض کیا: اور مر د پر سب سے بڑا حق کس کا ہے؟ فرمایا: اس کی ماں کا(بسند حسن حاکم نے اسے روایت کیا ہے)
سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا: ’’اللہ نے تم پر ماں کی نافرمانی حرام کردی ہے”
زندگی کا ہر سال، سال کا پورا مہینہ، مہینہ کاہر دن اور دن کا ہر ہر لمحہ ماں کے نام ہونا چاہئے۔روئے زمین پر موسم بدلے،زمانے کی روش بدلی، معاشرے کا مزاج بدلا، حالات کے تیور میں سختیاں آئیں، اگر کمی نہیں آئی تو وہ فقط ماں کی ممتا میں نہیں آئی۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ جن کے مائیں زندہ ہیں انہیں اپنی ماؤں کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے میری ماں کا سایہ ہمشہ مرے سر پہ سلامت رکھے آمین اور جن کے مائیں اس دنیا سے چلی گئیں ہیں ان کی مغفرت فرما کر ان کے درجات بلند کریں…. آمین
Comments are closed.