سرائیکی وسیب کے آثار قدیمہ کو بچایا جائے

محمد احمد چشتی
سرائیکی وسیب پاکستان بلکہ دنیا کے قدیم ترین آباد علاقوں میں سے ہے۔ پاکستان میں سرائیکی اور سندھی وہ قومیں ہیں جو اس دھرتی پر شروع سے آباد ہیں۔ سرائیکیوں نے برصغیر کی تقسیم کے بعد آنے والے مہاجرین کیساتھ عمدہ سلوک کیا اور انکو مہمان سمجھتے ہوئے احسن طریقے سے حق میزبانی ادا کیا۔ سرائیکی وسیب کے بڑے و چھوٹے زمینداروں نے ہجرت کر کے آنے والوں کو رہنے کیلئے زمینیں دیں اور جب تک انکا کوئی سلسلہ روزگار کا انتظام نہ ہوا تو انکی کفالت کا بندوست بھی کیا۔مگر سرائیکی وسیب پر کسی حکومت نے کوئی توجہ نہ دی اور خوبصورت وسیب کوہمیشہ ترقیاتی منصوبوں سے محروم رکھا گیا۔سرائیکی وسیب میں موجود آثار قدیمہ پر کسی حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی اور نہ ہی یہاں کے صوبائی و قومی اسمبلیوں کے نمائندوں نے ان آثار قدیمہ کی بقاء کیلئے کوئی جدوجہد کی۔
ریاست بہاولپور میں سب سے زیادہ آثار قدیمہ موجود ہیں۔کہا جاتا ہے کہ صدیوں پہلے چولستان میں دریائے ھاکڑا بہا کرتا تھا اور یہ دنیا کی قدیم ترین تہذیب ہوا کرتی تھی۔ جب دریا نے اپنا رخ موڑا تو یہ علاقہ صحراء میں تبدیل ہو کر رہ گیا۔ مگر برصغیر کی تقسیم سے پہلے سب سے امیر ریاست بہاولپور اب شاید سب سے زیادہ غریب اور زبوں حالی کا شکار ہے۔پاکستان کے مایہ ناز ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر رفیق مغل نے صحرائے چولستان کی کافی جگہوں کا معائنہ کیا اور بتایا کہ یہ جگہیں 3000سے 4000 سال قبل مسیح پرانی ہیں۔
چولستان میں اس وقت29چھوٹے و بڑے قلعے ہیں مگر سب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور اپنے اندر پراسرار کہانیاں و روز سموئے ہوئے ہیں۔چولستان میں واقع قلعوں کے نام1قلعہ پھلڑافورٹ عباس،2 قلعہ مروٹ،3قلعہ جام گڑھ مروٹ،4 قلعہ موج گڑھ مروٹ،5 قلعہ مبارک پور چشتیاں،6قلعہ فتح گڑھ امروکہ بہاولنگر،7قلعہ میر گڑھ مروٹ،8قلعہ خیرگڑھ،9قلعہ بہاول گڑھ،10قلعہ سردار گڑھ ولہر،11قلعہ مچھلی،12قلعہ قائم پور،13قلعہ مرید والا،14قلعہ دراوڑ،15قلعہ چانڈہ کھانڈہ،16قلعہ خانگڑھ،17قلعہ رکن پور،18قلعہ لیاراصادق آباد،19قلعہ کنڈیر اصادق آباد،20قلعہ سیوراہی صادق آباد،21قلعہ صاحب گڑھ رحیم یارخان،22قلعہ ونجھروٹ،23قلعہ دھویں،24قلعہ دین گڑھ،25قلعہ اوچ،26قلعہ تاج گڑھ رحیم یارخان،27قلعہ اسلام گڑھ رحیم یار خان،28قلعہ مؤمبارک رحیم یار خان(29)قلعہ ٹبہ جیجل حاصل ساڑھو بہاولنگرمیں ہیں۔اس کے علاوہ بے شمار تاریخی عمارتیں، محلات، اور خانقاہیں بھی چولستان سمیت ریاست بہاولپور میں موجود ہیں۔ قلعہ دراوڑ کے مقام پر 4 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مزارات بھی موجود ہیں۔
احمد پور شرقیہ میں ڈیرہ نواب صاحب کے مقام پر صادق گڑھ پیلیس جس میں وقت کے راجے مہاراجے،نواب اور انگریز سرکار کے لارڈ وغیرہ نواب صاحب کے پاس سرنگوں ہو کر آتے تھے ایسا عظیم الشان محل بھی اب کھنڈرات میں تبدیل ہونے کے قریب ہے۔
رحیم یار خان میں واقع پتن منارہ، خانپور کے علاقے فتح پور میں قادر پور کے مقام پر 1000 سال پرانی مسجد، اچ شریف میں محمد بن قاسم کے دور کی عمارتیں اپنے اندر عجیب و غریب کہانیاں سموئے ہوئے ہیں۔
احمد پور شرقیہ سے پینتالیس کلومیٹر کے فاصلے پر قلعہ دراوڑ تاریخ کا عجیب و غریب شاہکارہے جو سیاحت پر آنے والوں کو تاریخ میں گم کر دیتا ہے اور انسان حیران رہ جاتا ہے کہ ایسا شاہکار قلعہ کیسے تعمیر کیا گیا ہو گا۔کہتے ہیں کہ یہ قلعہ دن میں کئی رنگ بدلتاہے۔
ریاست بہاولپور کے نوابوں نے پھر قلعے کے پاس ایک مسجد تعمیر کرائی جو لاہور کی بادشاھی مسجد کی طرز پر ہے۔مگر یہ تاریخی قلعہ دراوڑ اور یہ مسجد تقریبا ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر انسانی بے حسی کا رونا رو رہے ہیں۔
چولستان کی زندگی چولستان میں سیاحت پر آنے والوں کو ایک عجیب سحر میں مبتلا کر دیتی ہے۔ یہاں پر موجود ٹوبے، گوپے یہاں کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں۔آثار قدیمہ کی کافی اہمیت ہے۔ آثار قدیمہ سے کافی معلومات فراہم ہوتی ہیں اور علم کے متلاشی انسان کو ایسے کئی نقطے ملتے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کیسے جاہ و جلال کے لوگ تھے جن کی ہیبت سے دھرتی کانپتی تھی مگر ان کا اب نام و نشان تک معلوم نہیں۔
ٍٍ آثار قدیمہ سے سیاحت کو فروغ حاصل ہوتاہے اور سیاحت کی غرض سے آنے والے لوگوں کی وجہ سے مقامی لوگوں کی معیشت بہتر ہوتی جاتی ہے۔آثار قدیمہ کیساتھ منسلک کافی کہانیاں اور لوک داستانیں پائی جاتی ہیں جو دیکھنے اور سننے والوں کی دلچسپی میں مزید اضافہ کرتی ہیں۔ سرائیکی وسیب میں ویسے تو کافی محرومیاں ہیں مگر جو ظلم آثار قدیمہ کیساتھ کیا گیا اسکی کہانی دردناک ہے۔سرائیکی وسیب میں موجود آثار قدیمہ کسی طرح سے لاہور اور دیگر علاقوں میں پائے جانے والے آثار قدیمہ سے کسی صورت کم نہیں۔ لیکن محکمہ آثار قدیمہ نے اپنی تمام توجہ صرف اور صرف لاہور کے آثار قدیمہ پر مرکوز کر کے پورے پاکستان کے آثار قدیمہ سمیت سرائیکی وسیب کے قدیم قلعوں،محلات اور پرانی عمارات کو کھنڈر زدہ کر دیاہے۔
حکومت پاکستان اور بالخصوص پنجاب حکومت کو سرائیکی وسیب کے مٹتے اور تباہ ہوتے آثار قدیمہ پر توجہ دینی ہو گی تا کہ ان تاریخی ورثوں کو بچایا جا سکے کیونکہ آثار قدیمہ میں ڈھونڈنے والوں کیلئے بہت اسباق اور کہانیاں چھپی ہوتی ہیں اور یہ یقین ہونے لگتا ہے کہ واقعی صرف ذات باری تعالیٰ کوہی بقاء ہے۔ باقی سب فناہی فناہے۔ غفلت زدہ انسان کو ان آثار قدیمہ سے سبق ضرور سیکھنا چاہیے۔

Comments are closed.