۔۔۔”مجرم کون”…

بقلم :تاج الدین محمد
اسے کئی گولیاں لگی تھی وہ مندر سے چند گز کے فاصلے پر برگد کے درخت کے پاس زمین پر گر پڑا تھا۔ خون سے پورا جسم تر تھا لیکن سانس چل رہی تھی۔ ہاتھ پیر اب تک حرکت کر رہے تھے۔ گولی کی آواز سنکر کئی لوگ گھروں سے اچانک ہی باہر آئے لیکن گولیوں کی ہے در پے آواز سے خوفزدہ ہو کر سب نے اپنا اپنا دروازہ بند کر لیا۔ پتہ نہیں کیا معاملہ ہے؟ ایک بوڑھے نے سرگوشی کرتے ہوئے دوسرے بوڑھے سے کہا۔ گولیوں کی آواز سے فضا میں عجیب سی خوف و وحشت طاری تھی۔
ایک پولیس والا ڈرا سہما سا اس کے قریب آیا۔ اسے گمان تھا شاید وہ ابتک زندہ ہے۔ اس کا نام سنبھو ایک خوف کی علامت بن چکا تھا۔ پولیس والا چلایا یہ دیکھو یہاں گرا پڑا ہے، مر گیا سالا۔ وہ اوندھے منھ پڑا تھا خون اس کے آس پاس پانی کی طرح بہہ رہا تھا۔ تبھی دوسرا پولیس والا اسکے پاس آکر کھڑا ہو گیا۔ اس کے بوٹ اس کے خون سے سن گئے تھے۔ ایک نے دوسرے سے چپکے سے کہا وہ تو لحیم شحیم جوان تھا داروغہ صاحب نے مجھے تصویر بھی دکھائی تھی ڈیل ڈول سے تو یہ کوئی اور ہی معلوم ہوتا ہے۔ تب تک اور بھی کئی پولیس والے آ گئے۔
ختم کر دو، بچ گیا تو جواب دینا بھاری پڑ جائیگا۔ انکاونٹر لکھ دیں گے۔ کیس چلیگا بار بار تاریخ پر جانا پڑیگا۔ نوکری بھی جا سکتی ہے۔ سزا بھی ہوگی۔ ایک بے ربط سا خیال برق رفتاری سے ایک لمحے میں ہی اس کے ذہن میں گونجے لگا۔ اس نے ریوالور تان لی دو چار گولی اس کے سینے میں اتار دو ٹھنڈا پڑ جائیگا۔ جلدی کرو، ایک نے دوسرے کو زرا کرخت لہجے میں کہا۔
پہلے اسے سیدھا تو کر لو، دیکھ تو لیں، وہی ہے یا کوئی اور؟ مخبر نے تو ہرے رنگ کی شرٹ اور سفید پینٹ ہی بتایا تھا۔ خون سے لت پت نیم مردہ جسم پر جوتے سے ایک زوردار ٹھوکر لگاتے ہی کراہنے کی آواز سے دونوں ایک لمحے کو سہم سے گئے۔ ابھی زندہ یے حرامزادہ۔ گولیوں سے چھلنی جسم آب سیدھا ہو چکا تھا۔
حولدار کی چیخ نکل گئی ارے یہ تو بھولو ہے۔ پولیس انسپیکٹر خوف کی ملی جلی کیفیت میں زور سے چلایا۔ کون بھولو صاحب؟ دوسرے پولیس والے نے انسپیکٹر سے گھبراتے ہوئے پوچھا۔ مکھیا جی کا بیٹا اور کون؟ یہ تو کل ہی اس غنڈے سنبھو کو پکڑوانے کے لیے تھانے آیا تھا۔ یہ تو غضب ہو گیا، بنا موت مارے گئے۔ اب کیا ہوگا؟ کچھ نہیں، جلدی سے ایمبولینس بلاو اسے ہسپتال لے جاتے ہیں، شاید بچ جائے، جو غلطی ہو گئی اسکی بھرپائی تو کرنی ہی ہوگی۔
ایمبولنس آ چکی تھی دھیرے دھیرے گاؤں کے لوگ بھی اکٹھا ہو گئے تھے مکھیا جی کو خبر ہوئی وہ بھی بھاگے بھاگے حاضر ہوئے۔ ان کا رو رو کر برا حال تھا۔ یہ کیا ہو گیا؟ کیسے ہو گیا؟ وہ پولیس انسپیکٹر کا گریبان پکڑ کر جھنجھوڑ رہے تھے۔ باقی سارے پولیس والے خوف سے تھر تھر کانپ رہے تھے۔ مکھیا جی کے بہت سے لٹھیت جمع ہو چکے تھے۔ گاؤں کے کچھ با اثر لوگوں نے سمجھا بجھا کر پولیس والوں کو بچایا اور تھانے تک لے آئے۔ بھولو کو جلدی جلدی ہسپتال پہنچایا گیا۔ آپریشن کر کے گولیاں نکال دی گئی۔ قسمت سے بھولو بچ گیا تھا۔ گولی سینے اور دماغ میں نہ لگ کر جسم کے دوسرے حصے کر ریزہ ریزہ کر چکی تھی۔ مخبر کو پکڑ لیا گیا تھا۔ دونوں پولیس والے اور مخبر پر کیس درج ہو گیا۔ پورے گاؤں کے لوگوں نے تھانے کو گھیر لیا تھا حالات کر دیکھتے ہوئے اضافی پولیس فورس بلا لی گئی تھی۔ حالات اب کنٹرول میں تھے۔ مکھیا جی نے چیخ چیخ کر سارا تھانہ سر پر اٹھا لیا سب کو سسپینڈ کرا دونگا، کسی کو نہیں چھوڑونگا۔ جب اے سی پی اور داروغہ نے وعدہ کیا کہ جو بھی قصوروار ہوگا اسے سخت سے سخت سزا دلائی جائیگی۔ تھوڑا وقت دیں تاکہ اصل معاملہ کیا ہے اسے سمجھا جا سکے، تب جاکر وہ خاموش ہوئے۔
آج کورٹ کی پہلی تاریخ تھی دونوں پولیس والے لائن حاضر کر دئے گئے تھے۔ جج نے مخبر سے پوچھا۔
تمہیں مخبری کرتے ہوئے کتنا وقت ہوا؟
یہی چار پانچ سال صاحب۔
تم نے کتنی تعلیم حاصل کی ہے؟
میں نے بی اے پاس کیا ہے۔
پھر تم مخبری کے اس غلیظ دھندے میں کیسے آ گئے؟ صاحب یہ لمبی کہانی ہے۔ اختصار میں بتاو؟
بیکاری اور کسی کی دشمنی نے ایسا کرنے پر مجبور کیا۔ یہ کہتے ہوئے اس نے جمائی لی اور دونوں ہاتھ کو اوپر اٹھا کر ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ میں پھنسا کر ٹخ ٹخ کی آواز پیدا کی۔ وہ کئی راتوں سے سویا نہیں تھا نیند اسکی آنکھوں میں تیر رہی تھی۔
سیدھے کھڑے رہو۔ جج نے غصے میں ڈانٹتے ہوئے کہا۔ جی صاحب پوچھئے میں تھکا ہوا ہوں کئی راتوں سے سویا نہیں بالکل سچ بتاونگا سب کچھ بتا دونگا۔
سوال و جواب کا سلسلہ آگے بڑھاتے ہوئے جج صاحب نے پوچھا۔ تم نے بدمعاش سنبھو کو بچانے کی کوشش کیوں کی؟ اور جان بوجھ کر تم نے غلط نشاندھی کیوں کیا؟ تمہاری بھولو سے کیا دشمنی تھی؟
پہلے سوال پھر جواب اور سوال پر سوال اور تسلی بخش جواب نہ دینے کی صورت میں سرزنش اور پھٹکار۔ عجیب و غریب کوٹھری ہے یہ؟ اور اس پر یہ کالے کالے کوؤں کی طرح کائیں کائیں کرتی ہوئی یہ عجیب الخلقت مخلوق؟ اس نے کورٹ کے چاروں جانب نگاہ دوڑائی درو دیوار سے مایوسی و نا امیدی ٹپک رہی تھی۔ وہ سوچنے لگا کوئی اس کالے کوٹ والے جج کے فیصلے سے باعزت بری ہو جاتا ہوگا تو کوئی کال کوٹھری تک پہنچ جاتا ہے، نہ جانے کب تک سزا بھگتنا پڑتا ہوگا۔ کیا گزرتی ہوگی اس کے بیوی بچوں اور ماں باپ پر؟ اگر بھولو مر گیا تو اسے لازمی پھانسی پر چڑھا دیا جائیگا۔ ایک لمحے کو پھانسی کا خیال آتے ہی اس کا پورا جسم لرز سا گیا۔
تبھی ایک گرجدار آواز نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا، وکیل استغاثہ نے غصے میں منھ بگاڑ تے ہوئے کہا، احمق انسان! عدالت کا وقت ضائع کرنے کے جرم میں تجھے جیل بھیج دیا جائیگا۔ آخر تو نے اس غنڈے سنبھو کی بجائے بھولو کی نشاندھی کیوں کی؟ عدالت کو صاف صاف اور سچ سچ بتاو، تمہیں اس کے عوض کتنے پیسے ملنے طے ہوئے تھے؟ جج نے بیچ میں وکیل کو ٹوکتے ہوئے کہا آپ زرا اطمینان رکھیں۔ میں پوچھ رہا ہوں۔ تم آرام سے پوری بات تفصیل سے بتاو۔
صاحب میں سنبھو اور بھولو ایک ساتھ ایک ہی اسکول میں پڑھتے تھے اسکول پاس کرنے کے بعد پاس کے ہی ایک کالج میں ہم تینوں نے نام لکھوا لیا۔ بھولو مجھ سے اور سنبھو سے اکثر جھگڑتا اور بات بات پر کہتا تم دونوں کو اسی چوراہے پر گولیوں سے بھون ڈالونگا۔ وہ بڑا سنکی قسم کا لڑکا تھا اکثر اوقات نشے میں رہتا تھا۔ میرا باپ اس گاؤں کا مکھیا ہے تم سب میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ بھولو کا یہی تکیہ کلام ہم دونوں کی دشمنی کا سبب بن گیا۔ سنبھو پڑھنے میں بہت تیز تھا لیکن گولیوں کی تڑتڑاہٹ اس کے دماغ میں گونجنے لگی اور وہ بدلے کی آگ میں جلنے لگا۔ سچ پوچھئے صاحب تو سنبھو کو غنڈہ بنانے میں بھولو کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اس نے پڑھائی چھوڑ دی اور بھولو کو سبق سکھانے کے غرض نے اسے ایک نمبر کا غنڈہ اور بدمعاش بنا دیا۔
پھر تو جیسے بھولو کی عادت سی بن گئی وہ بغیر بات کے مزاح کے طور پر انگلیوں کو بندوق بنا کر میرے اور سنبھو کی کھوپڑی پر رکھ دیتا اور تڑاخ تڑاخ کی آواز سے میرے سر میں گولیاں داغتا۔ ایسا کر کے اسے بڑا مزہ آتا اور پھر ایک زوردار قہقہہ کیساتھ ہی محفل ختم ہو جاتی۔ میرا سر چکرانے لگتا معنوں اصلی گولیاں میرے سر کو چھید کر باہر نکل گئی ہوں۔ معمولی سی بات پر ہنسی مذاق میں بھی وہ گولیوں سے بھون ڈالنے کی بات کرنا کبھی نہ بھولتا، یہاں تک کہ گولیوں کی گڑگڑاہٹ میرے وجدان میں ثبت ہو گئی اور میں نیم پاگل ہو گیا۔
مجھے بھولو نے ذہنی مریض بنا دیا تھا ایک ایسا مریض جو گولیوں کی گڑگڑاہٹ سے خوف کھاتا تھا۔ میرا پڑھنے لکھنے سے دل اُچاٹ ہو چکا تھا۔ میں نے بی آئے پاس کرنے کے بعد پڑھائی چھوڑ دی۔ میں بیکار تھا ادھر ادھر آوارہ گھومنا اوباش لڑکوں کیساتھ وقت گزارنا میرا مشغلہ بن گیا۔ دن رات یونہی گزر رہے تھے کہ ایک دن میری ملاقات ایک پولیس والے سے ہو گئی۔ کسی چور غنڈے موالی بدمعاش کو پکڑوانے کے عوض پیسے دینے کی بات پر مخبر گیری کے اس گندے کام کی شروعات ہوگئی۔ جب یہ کام چل پڑا اور میرے پاس اس کام سے اچھے پیسے أنے لگے تب ایک دن پولیس والے جس غنڈے کو میرے ذریعہ پکڑوانا چاہتے تھے وہ میرا جگری دوست سنبھو تھا میں نے بڑی منت سماجت کی کہ میں یہ کام نہیں کر پاونگا۔ میں اپنے دوست کو دھوکہ نہیں دے سکتا لیکن انہیں نہیں ماننا تھا، نہیں مانے۔
صاحب میں نے کئی بار منع کیا ہاتھ جوڑے پیر پکڑا لیکن وہ اپنی ضد پر قائم رہے اور مجھے مسلسل ڈراتے دھمکاتے رہے۔ انہوں نے میرے سر پر اصلی ریوالور رکھ کر کہا اگر تو نے یہ کام نہیں کیا تو چھہ کی چھہ گولیاں تیرے بھیجے میں اتار دونگا۔ صاحب میں تو نقلی گولیوں سے ڈرنے والا بندہ اصلی گولیوں سے خائف ہو گیا اور بحالت مجبوری چند مہینوں میں سنبھو کو پکڑوانے کا وعدہ کر لیا گو کہ میرا دل اس کے لیے بالکل تیار نہیں تھا۔ میں نے کئی بار سوچا میں یہ بات سنبھو کو بتا دوں تاکہ وہ علاقہ چھوڑ کر کہیں اور چلا جائے لیکن پولیس والوں کے خوف سے میں ایسا نہیں کر سکا۔
سنبھو ابتک بہت بڑا کریمنل بن چکا تھا اسکے کئی گینگ تھے۔ پولیس والوں کا سنبھو کو بغیر مخبر کے پکڑنا ناممکن میں سے تھا۔ وہ بہت شاطر دماغ دلیر اور بہادر بدمعاش تھا۔ وہ کبھی ہم سے ملنے چپکے چوری گاؤں کے عقب میں شیو مندر پر آ جایا کرتا تھا۔ چند دنوں بعد اسے پکڑوانے کے لیے پولیس والوں کا زور مجھ پر بڑھتا گیا۔ پھر وعدے کے مطابق اور ایک بڑی رقم کے عوض نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے اپنے آپ کو اس کام کے لیے تیار کر لیا۔ پھر ایک دن اچانک دوپہر کیوقت میرے پاس سنبھو کا فون آیا حالانکہ وہ اکثر شام ڈھلے فون کرتا تھا۔ جلدی مجھ سے شیو مندر پر آکر ملو اور اس نے فون کاٹ دیا۔ وہ اکثر و بیشتر دیر تک باتیں کیا کرتا تھا۔ میں بہت خوفزدہ ہو گیا موت کے سائے میرے ارد گرد منڈلانے لگے میں کئی طرح کے اندیشوں میں گرفتار ہو چکا تھا کہیں کسی پولیس والے نے سنبھو کو میرے ارادے سے آگاہ تو نہیں کر دیا؟ میں ڈرا سہما سا مندر کی جانب چل پڑا۔ جانے سے پہلے میں نے پولیس والوں کو پروگرام سے آگاہ کر دیا اور ساری تفصیل بتا دی۔ وہ سب تیار ہوکر اپنی جگہ پہنچ چکے تھے۔ میں سنبھو کو پکڑوانے کی فکر لیے ہوئے ڈرا سہما سا اس سے ملنے شیو مندر جا رہا تھا۔ ایسا کرتے ہوئے میرے اوپر بڑی ندامت و شرمندگی چھائی ہوئی تھی صاحب! جسے یکلخت ہی بھولو کی ضدی اور غصیل طبیعت نے بدل ڈالا۔ دوستوں کے ساتھ دغا فریب کرنے والوں کی یہی سزا ہونی چاہیے جو میں بھگت رہا ہوں۔
مندر کے احاطہ کے گیٹ پر مجھے بھولو مل گیا۔ میرے بہت منع کرنے پر بھی وہ میرے ساتھ چلنے پر بضد رہا اور پھر اپنی ناپاک اور گندی عادت کے مطابق باتوں باتوں میں چلتے ہی چلتے انگلیوں کی بندوق بنا کر تڑاخ تڑاخ کی چھہ راؤنڈ گولیاں اس نے میرے بھیجے میں اتار دی۔ میرا دماغ اچانک ہی پھر گیا اور میں نے اسی وقت طے کر لیا کہ آج اس کا کام تمام کر دینا چاہیے۔ ایسا سوچتے ہوئے مجھے ایک عجیب و غریب سی خوشی کا احساس ہوا جو بیان سے باہر ہے یکلخت ہی گھور پاپ کرنے کا سارا بوجھ میرے سینے سے اترتا ہوا محسوس ہوا کیوں کہ میں کسی بھی حالت میں اپنے دوست سنبھو کو مروانا نہیں چاہتا تھا۔ میں پیشاب کرنے کے بہانے بھولو سے تھوڑی دوری بنا کر پولیس کے آنے کی خبر دیتے ہوئے سنبھو کو وہاں سے بھگا دیا اور پولیس کو خبر کر دی کہ سنبھو میرے ساتھ ہے اس نے سفید پینٹ اور ہرے رنگ کی شرٹ پہن رکھی ہے اور پھر یہ سب ہو گیا۔
آج جرح کا دوسرا اور آخری دن ہے صبح صبح کورٹ کے احاطے میں کافی چہل پہل ہے۔ ہوا کے تیز جھونکے کمزور درختوں کی ٹہنیوں کو جھنجھوڑ رہے ہیں۔ ہوا کی سرسراہٹ سے سوکھے پتے دیواروں سے ٹکرا ٹکرا کر نالے کے پاس کافی مقدار میں جمع ہو گئے ہیں۔ آسمان بالکل صاف ہے سورج کی کرنیں کورٹ کے گنبد پر پڑتی ہوئی چھن چھن کر کورٹ کے اندر داخل ہو رہی ہیں جو آج کسی کی آزادی تو کسی کی گرفتاری لکھنے میں جج صاحبان کو اپنے حصے کی روشنی مہیا کریں گی۔ پولیس والے مخبر کو ہتھکڑی پہنائے عدالت کی چہار دیواری کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ اسے پیاس لگ رہی ہے گاڑی سے اترتے ہی اس نے ہتھکڑی کو جھٹکا دیتے ہوئے کہا مجھے پیاس لگی ہے اور بھوک بھی۔ راستے میں کتنی بار کہہ چکا ہوں۔
ابھی کورٹ میں تمہیں پانی پلائیں گے جیل سے نکلتے ہوئے کیوں نہیں بتایا؟ ایک پولیس والا غصے میں اسے تیزی سے گھسیٹنے لگا دوسرے نے رسی کی گرفت زرا اور مضبوط کی۔ گیٹ کے پاس دو فقیر قریب بیٹھے بوسیدہ اخبار کے ٹکڑے میں ناشتہ کرتے ہوئے خوش گپیوں میں مشغول ہیں پاس میں ایک کتا نالے میں ایک پتھر پر پیر جمائے سر نیچے کئے ہوئے زبان سے چٹاخ چٹاخ کی صدا کیساتھ پانی پی رہا ہے۔
ناشتہ ختم ہوتے ہی ایک فقیر نے دوسرے کے کاندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے قہقہہ لگایا شاید کوئی بات رہی ہوگی۔ اس دل لگی اور تفریح سے دوسرے فقیر کے ہاتھ سے ایک دو ریزگاری نالے میں گر گئی وہ سر جھکا کر نالے میں جھانکنے لگا۔ نالا کافی گہرا تھا پہلے فقیر نے اسے جھنجھوڑتے ہوئے کہا چھوڑ دے نہیں ملیگا کافی اندر چلا گیا ہوگا۔ اور مانگ لیں گے کہتے ہی دونوں یکبارگی پھر ہنس پڑے۔ دونوں نے پاس میں ریڑی پٹری والے کو دو کپ چائے کا آرڈر دیا۔ وہ سوچنے لگا کاش میں ایک فقیر ہوتا جسے کسی پولیس کا خوف نہیں جسے کل کی فکر نہیں، زندگی کو اور کیا چاہیے دو چار عدد کپڑے دو وقت کا کھانا اور سر چھپانے کے لیے ایک چھت جو ہر کس و ناکس کو کیسے بھی مل ہی جاتی یے۔ کاش میں آزاد ہوتا۔ کاش میں نے جرم نہ کیا ہوتا، کاش میں مجرم نہ ہوتا۔
پولیس والے گیٹ کے باہر کورٹ کے نکڑ پر چائے پینے کے لیے تھوڑی دیر کو رکے ہیں۔ ایک پولیس والے نے چائے والے کو آواز لگائی تین کپ چائے اور پہلے ایک گلاس پانی۔ پانی پی کر چائے کی چسکی لیتے ہوئے مخبر کی نگاہ اب بھورے رنگ کے اس کتے پر مرکوز ہو گئی ہے جو کافی دیر سے نالے سے پانی پی رہا ہے شاید کئی دنوں سے پیاسا رہا ہوگا۔ اس نے سوچا کاش میں مجرم کی بجائے ایک آزاد کتا ہی ہوتا جو گندے نالے میں اپنی مرضی سے منھ ڈال کر پانی پی لیتا۔ کاش میرے ہاتھوں میں یہ ہتھکڑی نہ ہوتی؟ آنسو کے چند قطرے اسکے رخسار کو بھگوتے ہوئے اسکی آہنی زنجیر پر گرے، چائے ختم ہو چکی تھی اور جینے کی امیدیں بھی شاید موہوم ہو چکی تھیں۔
۔۔۔ ختم شد ۔۔۔
بقلم: تاج الدین محمد، نئی دہلی۲۵
Comments are closed.