Baseerat Online News Portal

سسکیوں کا تسلسل (فنا سے بقا کی طرف)

محمد حنیف ٹنکاروی
(استاذ دارالعلوم ہدایت الاسلام عالی پور)

اس عالمِ رنگ و بو میں جنم لینے والی ہر چیز کو فنا کے گھاٹ اُترنا ہے دیر سویر ہر ایک کی باری آنے والی ہے۔ انسان ہمیشہ رہنے کے لئے نہیں آیا ہے، دنیا پوری کی پوری فانی ہے۔ الغرض موت کا زور کس پر چلتا ہے۔ ہر ایک کو آنی ہے۔ چنانچہ قاری عبد الحئی صاحب گاجریا (عالی پور) بھی چل دیے۔ ان کے جانے کی ایک داستانِ دلخراش پیش خدمت ہے۔ اس داستان کو پڑھنے والا خود کو غائبانہ طور پر جنازے میں شریک سمجھےگا۔

٢٠ رمضان المبارک ١٤٤٢ کی شام پانچ بجے صدر مفتی حضرت مفتی انعام الحق صاحب کا فون آیا…..السلام علیکم….. وعلیکم السلام…. قاری صاحب گزر گئے ۔لرزتے لرزتے دبی دبی آواز میں راقم نے "انا للہ وانا الیہ راجعون” پڑھا ۔ حکم ہُوا کہ جلدی سے ایک اعلان کی ترتیب دیکر مجھے ارسال کرو ۔میں ابھی وہیں جا رہا ہوں ۔ حکم کی تعمیل میں جلدی جلدی موبائل اسکرین پر انگلی چلانا شروع کی ہاتھ کانپ رہے تھے ایک طرف رفیق محترم مفتی عرفان صاحب دا. ب. کا فون بھی آیا مختصر بات کی اور واپس اعلان کی تکمیل میں لگ گیا ۔جاری ہی تھا کہ واپس دوسرے رفیق مولانا سعید الرحمن صاحب نے کال کیا میں نے کاٹ دیا۔ جلد اعلان کی تکمیل کرکے مفتی صاحب کو ارسال کیا انہوں نے دیکھ کر کال کیا کہ برابر ہے صرف تاریخ لکھ دو اور آگے بھیج دو۔

ہر سکوں کی تہہ میں سو آتش فشاں رکھتا ہوں میں
ضبط کا اک رخ نمایاں، اک نہاں رکھتا ہوں میں

آنا فاناً ملک و بیرون ملک میں انتقال پُر ملال کی خبر پھیل گئی….. عصر کی جماعت کا وقت بالکل ہُوا چاہتا تھا۔ عصر کی نماز ادا کی اور مرحوم کے گھر کی راہ لی۔ آج تک اس راہ سے یا تو دکان یا ہاسٹیل یا قاری صاحب کے گھر دعوت میں شرکت کے لئے جانا ہوتا تھا؛ لیکن آج مغموم و محزون، دبے پاؤں، دکان نہیں قاری صاحب کے آخری دیدار کے لئے…… وہاں پہونچ کر ایک ہجوم دیکھا۔ لوگوں کے اُداس چہرے، سوالیہ نگاہیں ایک دوسرے کو ٹک ٹکی باندھے دیکھ رہی تھیں۔ دوران نماز ہی ہسپتال سے میت گھر پہونچ چکی تھی ۔ فوراً مرحوم کے برادر کبیر کے گھر مشورہ طلب کیا گیا۔ مشورہ میں برادر کبیر، مفتی انعام الحق صاحب، مفتی عرفان صاحب ، حاجی سلیم بھائی پٹیل، صاحبزادگان، راقم الحروف، مولانا آصف سیدات صاحب اور دیگر کچھ حضرات نے شرکت کی۔ مشورہ تھا کہ.. جنازہ کا وقت کیا رکھا جائے، اور کس طریقے اور کس انداز سے جنازہ قبرستان لے جانا چائیے؟ کیونکہ رات کا وقت، قانونی پابندی، اطراف و جوانب سے آنے والے لوگوں کا خیال ان سب چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے۔مختلف رائے کے بعد طے ہوا کہ تراویح بعد ١٠:٣٠ بجے گھر سے جنازہ اٹھایا جائےگا اور چل کر مدرسہ تک لے جایا جائے پھر مدرسہ سے ٹیمپو میں پاڈر والی مسجد کے پاس اُتار کر پھر واپس چل کر جائے نماز (قبرستان) تک لے جائیں گے۔

دل مانتا نہیں ہےمنانے کے بعد بھی
کرتا ہے ان کویاد بھُلانے کے بعد بھی

مشورہ ختم ہوا اور شرکائے مشورہ اٹھ کھڑے ہوئے باہر نکلتے ہی کسی نے آواز دی کہ غسلِ میت کے لئے چلو بندہ کو بھی مولوی سلمان سلمہ نے الگ سے دعوت دی کہ آپ بھی غسل میت میں شریک ہوں میں سعادت سمجھ کر شریک ہوا سچ کہوں تو میں نے بہت کم غسل میت میں شرکت کی ہے جو کہ یہ ایک کمزوری ہے ۔اندر داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ گاؤں کے احباب نے پہلے سے ہی تیاری کرکے مرحوم کو تختہ پر لِٹا دیا تھا دنیوی کپڑے اتار چکے تھے اور ایک چادر سے ڈھانک دئے تھے بندہ کو سرہانے کھڑے رہنے کی جگہ ملی ۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ قاری صاحب ایک لمبے اور دیرینہ سفر سے لوٹے ہیں اور آرام کر رہے ہیں ہم اساتذہ ملاقات کے لئے پہونچے ہیں اور خندہ پیشانی سے ہر ایک سے ملاقات کر رہے ہیں ۔ ملاقاتیوں (غسل دینے والوں) میں دونوں صاحب زادے، مولانا سعید الرحمن ص دا. ب.، مفتی عرفان ص دا، ب، مولانا آصف سیدات ص دا. ب، بندہ محمد حنیف اور دیگر رشتہ دار اور اہل قریہ موجود تھے ۔ یقین نہیں ہو رہا تھا کہ اب قاری صاحب کا یہ آخری دیدار ہے اور وہ دنیا چھوڑ چکے ہیں میں نے ہمارے رفیق مولانا سعید الرحمن ص سے کہا کہ یہ کیسے اچانک ہوگیا؟ ہنستا چہرہ اب ہمیشہ کے لئے مرجھا گیا ۔ کانپتے ہاتھوں بیڑی کے پتوں والا پانی ڈالنے کی خدمت از خود شروع کر دی۔ میں دل دل میں کہہ رہا تھا کہ آج تک قاری صاحب اپنے ہاتھوں خود غسل کیا کرتے تھے لیکن آج دوسرے لوگ آخری غسل دینے آئے ہیں۔ مرحوم بالکل مجبور ہوکر تختہ پر سوئے ہوئے تھے ۔ اور میت زبان حال سے کہہ رہی تھی۔

سونی پڑی ہے یا رب! اب انجمن ہماری
باقی رہا نہ کوئی ، ہم داستان ہمارا

سنت طریقہ پر غسل کے امور کو انجام دے کر ایک بڑی نئی چادر لپیٹ دی گئی اور دوسرے کمرہ میں جہاں کفن خوشبوؤں سے معطر رکھا ہوا تھا وہاں جسد خاکی اٹھا کر لایا گیا اس موقع پر بھی مرحوم کے سر پکڑنے کی باری بندہ کے پاس آئی بڑی نرمی و ادب کے ساتھ کفن پر لِٹا دیا گیا ۔ گویا میت کہہ رہی تھی کہ عجّل عجّل! (جلدی کرو جلدی کرو) خُلدی کپڑا (کفن) پہنا دو جلدی کرو، افطار کا وقت ہو رہا ہے، فرشتوں کے آنے جانے کا وقت قریب آ رہا ہے۔ بائیں کروٹ پر بندہ بیٹھا ہوا تھا اچھے طریقے سےکفن لپیٹ دیا گیا اور بالکل پیک کر دیا گیا کسی نے آواز دی کہ چلو افطار میں صرف ١٠…١٥ منٹ باقی ہے اور یہ کمرہ بھی جلد خالی کرو مستورات زیارت کو آنے والی ہیں۔ ہم حکم کی تعمیل میں باہر نکل گئے ۔ اور گھر کی راہ لی ۔

بجھتی نہیں ہے تشنگی دیدار یار کی
نظروں سے ان کے لاکھ پلانے کے بعد بھی

آج کی افطاری ایک ہنگامی افطاری تھی۔ کیا کھایا، کیا پیا، کچھ یاد نہ رہا کیوں کہ….. رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی……
لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ ..کی چھاؤں میں داغ مفارقت کا تازہ غم ستائے جا رہا تھا، کہ مغرب کی جماعت کھڑی ہوئی ۔ نماز ادا کی سنن و نوافل کے بعد دعائے مغفرت کی ۔ مغرب بعد اوروں کی جو کیفیت ہوئی وہ وہ جانیں لیکن اپنا حال یہ تھا کہ زبان گنگ، قلم خاموش، ہوس و حواس پِراں، دل و دماغ ماؤف اور عقل وخرد سر بگریباں رہ گئے ہر کوئی مغموم و محزون تھا کہ گوئما کا قافلہ آ پہونچا۔قافلہ سالار صدر شعبۂ حفظ مولانا عبد الوحید صاحب قاری جنید صاحب اور دیگر علماء کرام بعدہ بلساڑ سے رفیق محترم قاری ہدایت اللہ صاحب بھی آ پہونچے ادھر بھروچ سے مولانا شعیب صاحب اور مولانا صادق صاحب بھی مع رفقا رونما ہوئے۔ عشاء کی اذان ہوئی لوگوں نے مسجد کا رُخ کیا اتنے میں دارالعلوم کے شیخ الحدیث مولانا مجتبی صاحب دامت برکاتہم کا قافلہ بھی سیدھا مسجد پہونچا نماز و تراويح ادا کی معمولات پورے کئے اتنے میں جنازہ کا وقت بالکل قریب آگیا جنازہ گھر سے باہر لاکر چہرہ زائرین کے لئے کھول دیا گیا، زائرین نم آنکھوں کے ساتھ دیدار کر رہے ہیں۔ اتنے میں کسی نے ندا دی کی بس چلو اُٹھاؤ جنازہ! اچھے سے منھ بند کیا اوپر ہرے رنگ کا غلاف ڈال دیا گیا۔ بقول شاعر:

پلٹ کے کہتی ہیں یہ آنکھوں کی پتُلیاں دمِ مرگ
چلو یہاں سے کہ اب دنیا کا اعتبار نہیں

بسم اللہ وعلی ملة رسول الله…….. اللهم اغفر له……… کی صداؤں کے ساتھ جنازہ اٹھا علماء، صلحاء، متعلقین، واریدین کے ہاتھوں پر گزرتا ہوا راستہ طے کیا آج تک مرحوم آنکھیں کھول کر لکڑی کے سہارے یہ راستہ طے کیا کرتے تھے لیکن آج ایک شان سے سوئے ہوئے یوں گویا تھے اب آج میرا لمبا اور آخری سفر ہے مجھے لے چلو! لوگ تو آئے ہی تھے رخصت کرنے، خلاف قیاس بڑے سکون سے چل رہے تھے ورنہ ماحول یہاں کا یہ ہے کہ قطار لگا کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور بولتے رہتے ہیں چالتا ریجو…. چالتا ریجو…. لیکن آج تو کوئی چوں چرا کئے بغیر قطار اندر قطار میانہ چال کے ساتھ مدرسہ کے قریب جنازہ پہونچا ہاں اب یہاں مدرسہ کے درو دیوار لپک کر اپنے خادم کا آخری دیدار کر رہے تھے ابھی دیدار کی تشنگی ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ ٹیمپو ڈرائیور نے درودیوار کی ایک نہ سنیں اور ٹیمپو بھگانا شروع کیا۔ مدرسہ کی بلڈنگ رو کر کہہ رہی تھی کہ سنو!
عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

خراماں خراماں ٹیمپو پاڈر والی مسجد کے پاس پہونچا اور وہاں جنازہ اتار کر پھر قبرستان تک چل کر لے جایا گیا پھر واپس کاندھا دینے کا موقع ملا… صلوٰۃ جنازہ پڑھنے کی جگہ آ گئی، اور جنازہ….. جائے نماز پر رکھ دیا، یکا یک صفیں سج گئیں۔

ناظرین گرامی!
زندگی کس قدر با معنی ہے، مگر اس کا انجام کس قدر اس کو بے معنی بنا دیتا ہے ۔آدمی بظاہر کتنا آزاد ہے، مگر موت کے سامنے کتنا مجبور نظر آتا ہے۔انسان اپنی خواہشوں اور تمناؤں کو کتنا زیادہ عزیز رکھتا ہے، مگر قدرت کا فیصلہ اس کی خواہشوں اور تمناؤں کو کتنی بے رحمی کے ساتھ کچل دیتا ہے۔ موت ایک قسم کی گرفتاری ہے ۔گرفتاری کا یہ دن ہر شخص کی طرف تیزی سے دوڑا چلا آ رہا ہے مگر لوگوں کا حال یہ ہے کہ دوسروں کی گرفتاری کو تو خوب جانتے ہیں مگر اپنی گرفتاری کی انھیں فکر نہیں ۔ وہ دوسرے کے پکڑے جانے کا بہت چرچا کرتے ہیں مگر اپنے لئے آنے والے اس دن کو یاد نہیں کرتے جب کہ خدا کے فرشتے بے رحمی کے ساتھ انھیں پکڑ کر مالک کائنات کی عدالت میں پہونچا دیں گے ۔ زندگی نہ سمجھنے والی پہیلی ہے۔ اسی لئے کسی نے کہا ۔

اِک عجب سی پہیلی ہے زندگی
سب کے ہوتے ہوئے بھی اکیلی ہے زندگی
کبھی تو اِک پیارا سا آرام ہے زندگی
تو کبھی درد سے بھرا طوفان ہے زندگی
کبھی پھولوں جیسی معصوم ہو جاتی ہے زندگی
تو کبھی گناہوں کا بوجھ بن جاتی ہے زندگی
کوئی تو بتا دے مجھے کہ کیا ہے زندگی
سُنا ہے کہ چند روز کی مہمان ہے زندگی
زندگی کو چھوڑ کر جانا پڑے گا اِک دن
موت کو اُس پل گلے لگانا پڑے گا
زندگی سے چاہے جتنا پیار کر لو
ہوتی تو آخر فنا ہے زندگی

شیخ الحدیث حضرت مولانا مجتبی صاحب مظاہری رویدروی شکریہ صد شکریہ آپ اپنے آبائی وطن سے خبر سنتے ہی ساتھی کو رخصت کرنے آ گئے ۔ آئیے آپ کا ہی انتظار تھا آگے تشریف لاکر یہ صفوں میں کھڑے مجمع کو نصیحت کرکے جلسہ کا اختتام فرما دیجئے ۔ شیخ صاحب آگے تشریف لائے اور مختصر مگر جامع باتیں ارشاد فرمائی… کہا کہ دیکھو جانے والا چلا گیا ہمیں اس کی خوبیاں تلاش کرنی چاہیے۔ یہ تو شہادت کا مرتبہ پا گئے دوسری بات کہی کہ آج کل جو وبائی مرض پھیلا ہے اس سلسلہ میں احتیاطی تدابیر ہمیں ضرور اختیار کرنا ہے ساتھ ساتھ رجوع الی اللہ، گناہوں سے توبہ، مرحومین کے ساتھ حسن ظن ضروری ہے ۔ اور ساتھ ساتھ ہمارے اکابر جو آج کل وظائف بتلاتے ہیں یا سلام، یا سلام اس کا ورد چلتے پھرتے کرتے رہیں اور سیرت کو کسی حد تک پڑھ کر عمل میں لائیں، نیز روزانہ سورہ کہف اور صبح و شام تین تین مرتبہ بسم اللہ الذی لا یضر.. …. پڑھا جائے ۔ہاں ایک بات بہت خاص، بہت اہم وہ یہ کہ دیکھو جو آدمی بیماری میں مبتلاء ہے اس سے نفرت ہرگز ہرگز نہ کریں آج کل وبائی مرض میں یہی ہو رہا ہے کہ دوسرے تو دوسرے اپنے بھی دور بھاگتے ہیں۔ اور یوم یفر المرء…… کا منظر پیش کرتے ہیں ۔ نصیحت کے بعد اپنے والد کی آخری خدمت نماز جنازہ پڑھانے کے لیے مفتی سفیان صاحب کو حکم ہوا کہ نماز شروع کرو……. یہاں بات روک کر کہہ دوں کہ آجکل ایک غلط رواج چل پڑا ہے کہ نماز جنازہ پڑھانے کے لئے کوئی عالم صاحب یا کوئی امام صاحب کو تلاشتے ہیں حالانکہ اگر خاندان میں اگر دینی حمیت رکھنے والا، مسائل سے واقفیت رکھنے والے حافظ صاحب یا عالم صاحب ہوں تو انہیں کو نماز پڑھانا چاہیے تاکہ اپنے رشتہ دار کی آخری خدمت کر سکیں ۔ خیر مفتی صاحب نے لرزتے، کانپتے آواز کے ساتھ نماز مکمل کی پھر جنازہ اٹھا لیا گیا اب آخری خواب گاہ (قبر) پر براجمان ہونا ہے ۔ قبر میں مرحوم کے دونوں صاحب زادے اورکوئی رشتہ دار اترے ہوئے تھے نم آنکھوں سے اپنے والد گرامی کو قبلہ رخ لِٹا کر یہ کہہ دیا "نم کنومة العروس” اور پھر منھاخلقنکم….وفیھا……..ومنھا……. .کی صدا کے ساتھ مٹی ڈال دی گئی ۔

مٹھیوں میں خاک لے کر دوست آئے وقتِ دفن
زندگی بھر کی محبت کا صلہ دینے لگے

شیخ الحدیث صاحب دامت برکاتہم نے سورہ بقرہ کے ابتدائی اور اواخر کی آیتیں تلاوت کی اور دعا کروائی۔
دعا عبادت و بندگی کا نچوڑ ہے، دل دردمند کا درماں اور قلب مضطر کا سہارا ہے ۔جب انسان حالات کے بھنور میں پھنستا ہے تو دل ٹوٹ جاتا ہے۔ اور حدیث قدسی ہے، اللہ کہتا ہے ”میں ٹوٹے ہوئے دلوں کے ساتھ ہوں“ شیخ الحدیث دامت برکاتہم نے بڑی رقت آمیز دعا کروائی جس سے ہر کوئی آنکھ بھیگ گئی ۔
دعا کے بعد رشتہ داروں کو تسلی دیتے ہوئے گھر کی راہ لی، زبان خاموش اپنے محسن کو زیر زمیں دفن کرکے فرشتوں کے حوالے کر دیا۔
اے اللہ! اس مرحوم کے ساتھ آسانی کا معاملہ فرما کرقبر میں جنت کی ہوائیں چلادے ۔ آمین
رات بستر پر پہونچتے ڈیڑھ… دو… بج چکے تھے، نیند کیا آتی کروٹیں بدلنے میں سحری کا اعلان ہو گیا ۔ رات گئی بات گئی۔
وما توفیقی الا باللہ

بیمار عشق تیرا نام لے کے سو گیا
مدت سے دل بے قبرار کو آرام آگیا

Comments are closed.