Baseerat Online News Portal

رمضان المبارک اور برادران وطن! قسط(٥)

محمد صابر حسین ندوی

٥- نفلی صدقات میں شامل کریں
مسلمانوں کا ایک امتیازی نشان یہ بھی ہے کہ وہ دولت و ثروت کا غلام نہیں بنتے، وہ مادیت کے جال میں پھنس کر اللہ تعالی کے حقوق کو نہیں بھولتے؛ بلکہ وہ محنت، مزدوری اور تمام توانائی لگا کر بھی جو کچھ دولت پاتے ہیں انہیں اللہ تعالی کی ہی دَین مانتے ہیں، اس کا عطیہ، تحفہ اور انعام مان کر اسے لوگوں تک پہنچانے، اس میں واجبی حقوق کی ادائیگی اور ساتھ ہی نفلی صدقات میں بھی پیش رفت کرتے ہیں، اسی لئے بلامبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ دنیا بھر میں صرف مسلمان ہی ایک ایسی امت ہے جو فی سبیل اللہ مال لٹاتے ہیں، ضرورت مندوں کی ضرورت اور حاجت مندوں کی حاجت روائی کرتے ہیں، لطف کی بات یہ ہے کہ دنیا کی خواہش، مفاد، غرض کے بغیر محض رضائے الٰہی کیلئے خون پسینے کی کمائی لٹادیتے ہیں، ان کے برعکس دنیا پسند اور حب جاہ میں چور منفعت کے غلام ہوتے ہیں، وہ خودغرضی کے علاوہ کچھ نہیں سوچتے؛ بلکہ اگر وہ رضاکارانہ بھی خرچ کرتے ہیں کہ تب بھی سیاست، مطلب اور غرض نہیں بھولتے، یہی وجہ ہے کہ ان کی امداد کے باوجود لوگوں کا بھلا کم انہیں کا فائدہ زیادہ ہوتا ہے، جبکہ مسلمانوں میں یہ جذبہ پیدا کیا جاتا ہے کہ اصل رضا اللہ تعالی کی ہے، اگر دولت خرچ کرنی ہے، نفلی عبادتیں انجام دینی ہیں تو صرف اور صرف اللہ رب العزت کی خوشنودی ہی پیش نظر رہنی چاہیے، اگر دنیاوی مفاد کو اہمیت دی گئی تو قیامت کے دن یہی خرچ کی گئی دولت منہ پر مار دی جائے گی اور انہیں ثواب کے بجائے عقاب کے مراحل سے بھی گزارا جاسکتا ہے، اسلام نے مسلمانوں پر زکات فرض کی ہے جو امراء سے لیکر فقراء کو دیا جاتا ہے، یہ ایک لازمی عبادت ہے جو بہت سے شرائط کے ساتھ کل مال کا چالیسواں حصہ نکالا جاتا ہے، مگر اس کے علاوہ نفلی عبادت کے طور پر صدقات و خیرات ادا کرنے کی بھی ترغیب دی جاتی ہے؛ بالخصوص رمضان المبارک کے موسم بہار میں اس صنف کے اندر بھی بڑھوتری دیکھی جاتی ہے، چنانچہ مسلمانوں کے اندر جسمانی، روحانی عبادت کے ساتھ ساتھ مالی عبادت میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے، غور کرنے کی بات ہے کہ اگر یہ نفلی عبادت برادران وطن تک بھی پہنچے تو کیا خوب اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا ذریعہ ہو! خاص طور پر کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے دور میں اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے، جب حکومت نے سیاست میں مصروف ہو کر عوام کو خوفناک مرحلہ میں تڑپتا اور سسکتا چھوڑ دیا ہے، الحمد للہ اس طرف مسلم قوم کی نگاہ ہے، وہ لگاتار نیک نامی اور نفلی مالی عبادت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں، اس میں مزید تیزی کی ضرورت ہے، اور اہل خیر کی توجہ مبذول کروانے کی حاجت ہے؛ تاکہ اسلامی اخلاق، ہمدردی و مواسات کی تبلیغ ہو اور نور الہی سے انسانیت منور ہوجائے –
استاد گرامی قدر، فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی حفظہ اللہ ایک جامع شخصیت کے مالک ہیں، آپ علمی و عملی میدان کے شہ سوار ہیں، موقع و ماحول کی نزاکت اور ان میں دینی فقاہت سے خوب واقف ہیں، یہی وجہ ہے کہ مولانا امت مسلمہ کو رمضان المبارک اور ملکی حالات کے پس منظر میں برادران وطن کی جانب مالی (نفلی) ہاتھ بڑھانے کی تلقین کی ہے، آپ رقمطراز ہیں: "رمضان المبارک اور عید الفطر کی مناسبت سے صدقۃ الفطر کا حکم دیا گیا ہے، جس کا مقصد غریبوں کی مدد کرنا ہے، اسلام میں زکاۃ کے مصارف تو محدود ہیں، زکاۃ کی رقم مسلمان ہی سے لی جاتی ہے ، یہاں تک کہ اگر مسلم حکومت ہو تو وہاں بھی صرف مسلمانوں ہی سے زکاۃ کی رقم لی جائے گی، غیر مسلموں سے نہیں؛ کیوں کہ غیر مسلموں سے زکاۃ لینا ان کو ایک اسلامی عبادت پر مجبور کرنا ہے اور اسلام اس کو روا نہیں رکھتا کہ ایک مذہب کے ماننے والے لوگ دوسرے مذہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہبی افعال انجام دینے پر مجبور کریں کہ یہ مذہبی آزادی کے مغایر ہے؛ اسی لئے زکاۃ کا مصرف بھی صرف مسلمان کو قرار دیا گیا ہے ، غیر مسلموں پر زکاۃ کی رقم خرچ کرنا جائز نہیں؛ لیکن صدقۃ الفطر کا مقصد نزولِ قرآن اور ماہِ رمضان کی نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا اور اپنی خوشی میں اپنے غریب بھائیوں کو شریک کرنا ہے۔ چنانچہ فقہاء حنفیہ کے نزدیک صدقۃ الفطر غیر مسلم بھائیوں کو بھی دیا جا سکتا ہے، اور ایک صدقۃ الفطر ہی پر موقوف نہیں بلکہ زکاۃ کے علاوہ تمام ہی صدقاتِ واجبہ غیر مسلموں پر بھی خرچ کئے جاسکتے ہیں اور صدقات نافلہ کے بارے میں تو فقہاء کا اتفاق ہے کہ غیر مسلم بھی اس کا مصرف ہیں اور ان کا تعاون کرنا بھی باعث ِاجر و ثواب ہے، ہمیں چاہئے کہ خوشی کے اس موقع پر اپنے غیر مسلم پڑوسیوں اور ضرورت مند لوگوں کو بھی اپنی خوشی میں شریک کریں اور صدقۃ الفطر کی مدد سے غیر مستطیع برادرانِ وطن کا بھی تعاون کریں؛ تاکہ اسلام کی فراخ دلی، مسلمانوں کی رواداری اور انسانی رشتہ کے تحت حسن سلوک اور بہترین برتاؤ کو وہ محسوس کریں، یہ ہمارے لئے باعث اجر و ثواب ہو گا اور اسلام کا بہتر تعارف اور خاموش دعوت ان کے سامنے آسکے گی۔” (شمع فروزاں: ٦١/٤/٢٠٢١)

7987972043
[email protected]

Comments are closed.