Baseerat Online News Portal

آہ— مولانا حمزہ حسنی ندوی مرحوم۔!

کیسی بے فیض سی رہ جاتی ہے دل کی بستی کیسے چپ چاپ چلے جاتے ہیں جانے والے

محمد صابر حسین ندوی

کیسی بے فیض سی رہ جاتی ہے دل کی بستی
کیسے چپ چاپ چلے جاتے ہیں جانے والے
دل پر پتھر رکھ لوں! جگر چھلنی کردوں! قلم توڑ دوں! یا پھر یہ کیسے کہہ دوں کہ مادر علمی دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے قہر میں اپنے لعل و گہر سے بچھڑتا جارہا ہے، اس کے سیارے، شہ پارے بکھر رہے ہیں، نگاہ بلند، سخن دلنواز اور فکر ارجمند کے حاملین جدا ہورہے ہیں، فکری تنگنائیوں میں وسعتوں کا چشمہ صافی کے شفاف قلوب کَٹ کَٹ کر گر رہے ہیں، آہ ثم آہ – – – ملک الموت چٗن چُن کر ان نگینوں کو لئے جارہا ہے جن سے ندوہ کی شان ہے، جو ندوے کی امید اور مستقبل ہیں، جن کے سروں اور کاندھوں پر ندوہ کا حسن انتظام، علمی سرکردگی اور روحانی سلسلہ ہے، موجودہ وقت کی تنگ حالی، وقت کی ستم طرفی، انتظامی ڈھانچے کی چرمراہٹ، دشمنوں کی تیکھی نگاہیں، منافقین کی ترشی اور حکومت کی ظالمانہ کارروائیوں کے درمیان مشعل اور چراغ ہیں، وقت کے تھپیڑوں اور موج حوادث میں کشتی کو ساحل سے لگانے اور اسے معنادین سے بچا کر محفوظ مقام تک پہنچانے کے ذمہ دار ہیں، بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ انہیں میں سے ایک سید و حسنی گھرانے کے چشم و چراغ سید مولانا حمزہ حسنی قدس سرہ (١٩٥٠-٢٠٢١) بھی وفات پاگئے – انا للہ وانا الیہ راجعون اللهم اغفر له وارحمه واسكنه فسيح جناته ويلهم أهله وذويه الصبر والسلوان – مولانا کی وفات پوری ندوی برادری بالخصوص مرشدی حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی مدظلہ جو خود ایک خاص عمر کے پڑاؤ میں ہیں؛ لیکن ندوہ کی روح، جان بلکہ امت مسلمہ کے مرشد اور راہنما ہیں، ان کیلئے جانکاہ حادثہ ہے، حضرت مولانا سید محمد واضح رشید حسنی ندوی رحمہ اللہ کی وفات کے بعد مولانا آپ کیلئے دوست، بھائی، غم خوار اور معاون و مددگار تھے، اللہ تعالی آپ کو صبر و ضبط کی توفیق عنایت فرمائے اور آپ کا سایہ دراز کرے – مولانا حمزہ حسنی صاحب راقم کی زمانہ طالب علمی (٢٠١٣ء) میں ندوہ کے ناظر عام تھے، پھر مفتی ظہور عالم ندوی سابق مفتی اعظم و نائب ناظم ندوہ العلماء لکھنؤ (١٩٢٧-٢٠١٦) کے انتقال کے بعد نائب ناظم کے طور پر کام کر رہے تھے، آپ اکثر مہمان خانے کے باہر کرسی پر تشریف فرما رہتے، متانت و سنجیدگی کا مظاہرہ ہوتا، آپ بحیثیت ناظر عام عمدہ منتظم اور فطین ثابت ہوئے، ندوہ میں جس وقت رواق مولانا ابوالحسن علی ندوی کا افتتاح ہو رہا تھا، اس وقت مولانا رابع صاحب ندوی نے آپ کی خوب تعریف کی تھی، اور یہاں تک کہا تھا کہ ہم میں سے کسی کو یقین نہیں تھا کہ اس جگہ دارالاقامہ کی تعمیر ہوسکتی ہے؛ لیکن مولانا حمزہ صاحب کی ذکاوت اور مہارت کی بدولت ہی یہ ممکن ہوسکا ہے، ندوہ سے فراغت کے بعد ادھر کئی دارالاقامے، مسجد کی توسیع وغیرہ ہوئی ہیں جو یقیناً مولانا کی زندگی کا کارنامہ ہے، ندوہ فکر کے اعتبار سے جتنا وسیع ہے، جگہ کے اعتبار سے اتنا ہی تنگ ہے، اس کے باوجود حسین ترین اور دلکش مسجد اور دارالاقامے کے تعمیر لائق تحسین ہے، مولانا ندوے کے مخلص، خموش کام کرنے والے اور شور شرابہ کے درمیان اپنا دامن بچا کر ترقی و تعمیر کی فکر کرنے والے تھے، اللہ تعالی مولانا کی بال بال مغفرت فرمائے –
برادرم عبدالملک بلند شہری سلمہ اللہ نے مولانا کا تعارف نقل کیا ہے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قارئین کیلئے اسے بھی شامل کرلیا جائے، آپ رقمطراز ہیں: "مولانا حمزہ ندوی خانوادہ حسنی کے عظیم فرد تھے. ان کے والد ماجد مولانا سید محمد ثانی حسنی ندوی (١٩٢٥-١٩٨٢) اپنے عہد کے ممتاز قلم کار اور شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی قدس سرہ (١٨٩٨-١٩٨٢) کے خلیفہ اجل و مجاز بیعت تھے….انھیں کے گہوارہ علم و عمل میں حمزہ حسنی صاحب کی ولادت ١٩٥٠ء مطابق١٣٧٠ ھ میں ہوئی…مکمل تعلیم دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں پائی اور وہیں سے سند فراغت حاصل کی.. آپ کے اساتذہ میں مولانا عبدالستار اعظمی قدس سرہ، مولانا سید رابع حسنی ندوی ،ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی مدظلہ سمیت کئی باکمال شخصیات شامل ہیں – ندوہ کے دوران قیام آپ نے مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی نور اللہ مرقدہ کی سفر و حضر میں خدمت کی اور ان کی خصوصیات اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش کی.. وہ اپنے والد ماجد کی وفات کے بعد سے لے کر اپنے انتقال تک اردو رسالہ ماہنامہ رضوان کے مدیر بھی رہے تھے جس میں ان کی اصلاحی نگارشات تسلسل سے شائع ہوتیں اور لوگوں کو ان مضامین سے فائدہ ہوتا… ان کی طبیعت بنیادی طور پر تصوف و سلوک کی طرف مائل تھی. اس سلسلہ میں وہ مولانا زکریا کاندھلوی قدس سرہ کے میکدہ روحانی کے بادہ خوار تھے…ان کو اپنے دور کے بزرگوں سے بھی بڑی محبت و عقیدت تھی.. مولانا احمد پرتابگڑھی قدس سرہ، مولانا قاری صدیق باندوی قدس سرہ اور مولانا ابرار الحق ہردوئی سمیت متعدد بزرگوں سے بھی ربط تھا.. حمزہ حسنی ص کے اندر پچپن سے ہی اپنے بڑوں کی عظمت کا احساس پنہاں تھا.. اسی وجہ سے وہ ہمہ وقت ان کی خدمت کرنے اور انھیں راحت پہنچانے کے مواقع تلاش کرتے تھے… تبلیغی جماعت کے اہم ذار صوفی انعام اللہ لکھنوی کے مرض وفات میں انھوں نے ان کی بہت ہی مخلصانہ خدمت کی تھی.. صوفی ص آپ کی خاندانی خصوصیات اور روحانی کمالات سے خوب آگاہ تھے. اسی لیے انھوں نے انھیں اپنی جانب سے سلاسل اربعہ میں اجازت و خلافت سے نوازا تھا..مولانا حمزہ نے ان کے وصال کے بعد خود کو اپنے سسر اور خاندان کے بڑے و سرپرست مولانا سید رابع حسنی ندوی کے تابع رکھا اور ان کی رہبری و رہنمائی میں دینی و انتظامی خدمات انجام دیں…. مولانا رابع حسنی نے بھی ان کو اپنی طرف سے مجاز بیعت بنایا تھا…. حمزہ حسنی ص نے بھی مولانا نثار الحق ندوی کو اپنی طرف سے مجاز بناکر سلسلہ کی اشاعت کا کام کیا تھا..”

[email protected]
7987972043

Comments are closed.