’’یہ انداز گفتگو کیا ہے ‘‘؟

سمیہ شیخ
قربان جاؤں زمین کے باسیوں کو سکھانے والے ربِ کائنات کے اس نے پیدا کر کے ہمیں تنہا نہیں چھوڑا، ہمیں صرف زبانی کلامی اپنا نہیں کہا مکمل اپنایا۔ ارض و سما کے رب کی منظم اصول پسندی تو دیکھیے کہ ہمیں زندگی کے ڈھنگ اور طور طریقے بتانے کے لئے اس نے زمین پہ اپنے محبوب کو بھیجا اور وہ علم بخشا جس نے انسانوں کو اسلام جیسا خوبصورت مذہب دے کے مسلمان ہونے کا شرف بخشا۔اسلام میرا اور آپ کا مبارک اور پاک مذہب! اسلام کی مقدس خوشبو جو پوری دنیا میں جا کر اس کا دائرہ کار وسیع کرتی گئی، کیا ہے؟ اس کے پاس ایسا کون سا ہتھیار ہے کہ بنا تکلیف پہنچائے بنا خون بہائے اسلام پھیلتا چلا جا رہا ہے؟صر ف اور صرف اسکے اخلاقِ حسنہ! جو انسان کو حیوان سے علیحدہ کرتے ہیں۔ دھیرے دھیرے سکھاتے اک اک سبق پڑھاتے اک مقام پہ خود اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کے متعلق فرماتے ہیں کہ
”بیشک آپ بہت بلند اخلاق والے ہیں ” (سورہ قلم) کیوں؟ صرف اس لئے کہ اللہ کے نبی بہت اچھے سے بولتے کھاتے اور معمولات زندگی گزارتے تھے؟نہیں! بلکہ اس لئے کہ میرے نبی اپنے امتیوں کی غلطیوں کو درگزر کرکے معاف کردیتے تھے۔اللہ کے بندوں سے محبت اور نرمی سے پیش آتے تھے۔ اور ہم انہی کی امت ہیں۔ افسوس!ہمارے چھوٹے محلے سے لے کے بڑے بڑے ایوانوں تک پھیلی اخلاقی گندگی پہ اخلاقِ مسلم کی تابناک تاریخ شرمندہ ہے۔ سنجیدہ گفتگو سے لے کر غصے، اور غصے سے لے کر مذاق میں،گالی بک دینا بہت عام ہوگیا ہے۔جب کہ رسولُاللہ ؐ فرماتے ہیں کہ
”جب میری امت دنیا کو بڑی چیز سمجھنے لگے گی تو اسلام کی ہیبت اور وقعت اس کے قلوب سے نکل جائے گی اور جب امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو چھوڑ بیٹھے گی تو وحی کی بر کات سے محروم ہوجائے گی اور جب ”آپس میں گالم گلوچ اختیار کرے گی تو اللہ جل شانہ کی نگاہ سے گر جائے گی۔ ” (فضائل اعمال)جو اللہ کی نگاہ سے گر گئے بتائیے کیا کوئی عزت انکے پاس باقی رہ گئی؟
اس کے باوجوداگر وہ چل،پھر رہے کھا، پی،سو رہے ہیں تو صرف اس لئے اللہ کے محبوب سے بڑا گہرا تعلق رکھتے اور مسلمان کہلاتے ہیں۔ کیا مسلمانوں کو یہ زیب دیتا ہے وہ گالی بک کر خود کو اللہ کی نگاہ سے گرا لیں؟درگزر سے دور رہیں اور بدلے کو افضل جانیں؟جان بوجھ کر طنز کو اپنا شعار بنالیں؟ شرمندہ کرنے کو تو یہاں لوگ اپنا پسندیدہ عمل ہی بنالیتے ہیں۔ ذرا امت مسلمہ کی گفتگو پر ایک نظر ڈالیں!
چوڑیاں میں نے بھی نہیں پہنی ہوئیں۔دکھادی نہ اوقات! کم نسل نیچ اکھاڑلے جو اکھاڑسکتا ہے!خود کو سمجھتا کیا ہے؟تو یہ ہے اندازِ گفتگو اور طرزِ تخاطب جو بات بات پہ اپنے اندر ابلتے لاوے کی موجودگی کا پتہ دیتا اور خود سے دور رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ارے!! اگر ”مسلمانوں” سے ہی لوگ دور ہو جائیں گے تو ”اللہ ”کے قریب کیسے ہوں گے؟کیا ہدایت کی کھوج میں تڑپتے یوں ہی اس دنیا سے چلے جائیں گے؟
مسلمان پر اس کے اخلاق کی ذمہ داری صرف اسکی شخصیت کی خوبصورتی کے لئے ہی نہیں،بلکہ امت کے فروغ اور اسلام کی تشہیر کے لئے بھی ڈالی گئی ہے۔اللہ نے مسلمانوں کی تربیت اپنے محبوب کے بہترین اخلاق سے ہی کی ہے۔اور مسلمانوں کو محمدمصطفی ؐ کے بعد اس دنیا کے لوگوں کے لئے مسیحا اور ذریعہ ہدایت بنایا ہے۔اپنے آس پاس ضرور نگاہ کیجئے شاید آپ کے میٹھے اور دھیمے الفاظ،ِ اللہ کی طرف بلاتے کلمات،کسی دل کی ضرورت ہوںم ذرا نرم اور محبت سے بولئے تو سہی !
یہ بات تو پتھر پر لکیر ہے کہ فقیر سے لے کے بادشاہ تک سب کے سب لوگ ایک ہی صف میں اللہ کے حضور حاضر ہوں گے اور زبان گواہی دے گی کہ ہاں مجھ سے گالی بکی گئی،فحش اور بھڑکادینے والی گفتگو کی گئی،اس صاحب کے بس میں تھاکہ بات دبا کر فساد کو مٹادے لیکن اس نے جلتے شعلوں کو ہوا دی،اور جتا جتا کے صبر کا تقدس پامال کیا، ذرا سے غصے میں گالی بک کر ماحول خراب کیا وہاں تو کوئی اللہ کے سوابچانیوا لا بھی نہیں ہوگا۔ کوئی رشوت،سفارش کام نہیں آئے گی۔لہٰذا جس مقام پہ مشکل پیش آئے کہ کیسے چھوڑوں،وہاں ویسے ہی چھوڑدیں۔ یقین مانئے مشکل لگے گا،لیکن چھوڑکے،درگزر کرکے،خاموش ہو کے،صبر کر کے، آپ ذلیل نہیں ہوں گے۔ بلکہ اللہ آپکو اس طرح عزت سے نوازیں گے کہ دیکھنے والی ہر آنکھ،سننے والے تمام کان،اور بولنے والی ہر زبان،حیران رہ جائے گی۔ آپ کے ذرا سے جھکنے پر رب کی رحمت بہت زیادہ مہربان ہو جائے گی۔
اگرہم اپنے رسولُاللہ ؐ سے محبت کرتے ہیں،خود کو عاشقِ رسولﷺ کہتے ہیں تو ان کی عزت بڑھائیں نہ کیامت کا نام بدنام کریں۔ جس سے محبت ہو،اس کا تو اک اک عمل محبوب ہوتا ہے۔ ویسے ہی عمل کرنے کو دل کرتا ہے۔ مگرآج ہم صرف محبت کی لفاظی کرتے ہیں اعمال سے کوسوں دور ہیں۔ہمارے رسولُ اللہ ؐعاجزی و درگزر کو پسند کرتے تھے۔اللہ کے بندوں سے لگاؤ رکھتے تھے۔
تو ان کی محبت کے دعویدارچھوڑدیں نا گفتگو کا بے ڈھنگا پن! درگزر کردیں،عاجزی کواپنائیں۔ یہ اخلاق ِ حسنہ ہیں۔ ان کو اپنانے پر خود اللہ تعالیٰ آپ سے ہاتھ ملا کر محبت اور عزت کا وعدہ کریں گے۔
ان شاء اللہ
Comments are closed.