بی جے پی حکومت والی ریاست میں حزب اختلاف آخر کیسے چناؤ جیت پائے گی؟

مشرف شمسی
مودی سرکار ایک کے بعد ایک
ریاستوں کو جیتنے کے لئے پوری طاقت جھونک دیتی ہے لیکِن اُن ریاستوں میں جیت کا فیصد زیادہ ہے جہاں اُنکی حکومت بر سر اقتدار ہوتی ہے۔جس جس ریاست میں حزب اختلاف کی جماعتوں کی حکومت ہوتی ہیں اُن ریاستوں میں بی جے پی کے لئے چناؤ جیتنا مشکل ہو رہا ہے۔خاصکر 2019 کے بعد مودی سرکار پہلے جیسا پاپولر نہیں رہی ہے۔2014 میں بی جے پی کی سرکار مرکز میں بننے کے بعد لوگوں کو وزیر اعظم مودی سے بہت سی امیدیں وابستہ تھیں۔اسلئے مودی اپنے پہلے دور میں ایک کے بعد ایک ریاستوں کا چناؤ جیتتی چلی گئی۔لیکِن 2019 کے بعد اصلاح کے نام پر عوام مخالف پالیسی سے لوگ بیزار ہوتے جا رہے ہیں تو ایسے میں مودی اور اسکی پوری سرکار ہر وہ جائز اور ناجائز ہتھکنڈہ استعمال کر رہی ہے جس سے کسی طرح چناؤ جیتا جا سکے۔
پانچ ریاستوں کے حالیہ چناؤ نتیجے سے مودی مخالف خوش ہیں کہ بی جے پی مغربی بنگال کا چناؤ ہار گئی۔لیکِن میرا ماننا ہے کہ اگر صاف ستھرا اور غیر جانب دار چناؤ الیکشن کمیشن سبھی ریاستوں میں کرا پاتی تو آسام اور پنڈوچری میں بھی بی جے پی سرکار نہیں بنا پاتی اور تامل ناڈو میں ڈی ایم کے یک طرفہ چناؤ جیتتی۔کیرل میں بی جے پی بہت کچھ کرنے کی حالت میں پہلے سے نہیں تھی۔
میری اس بات کو سمجھنے کے لئے الیکشن کمیشن کے فارمیٹ کو سمجھنا ضروری ہے اور الیکشن کمیشن کیسے کام کرتا ہے اُسے سمجھنا ہوگا۔بظاھر دیکھنے میں لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن ایک خود مختار ادارہ ہے اور وہ اپنے ماتحت ملازمین سے الیکشن کراتی ہے لیکِن ایسا نہیں ہے ۔الیکشن کمیشن جب ملک یا کسی ریاست میں جیسے ہی چناؤ کے لئے ضابطہ اخلاق نافذ کرتی ہے ویسے ہی ریاست اور ملک کی کمان الیکشن کمیشن کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے۔ہر ایک ضلع کا کلکٹر اپنے ضلع کا الیکشن کمشنر ہو جاتا ہے۔ریاست کے سرکاری ملازمین الیکشن کمیشن کے ماتحت کام کرنے لگتے ہیں۔
2019 کے پہلے تک الیکشن کمیشن پوری طرح مرکزی سرکار کے اشارے پر کام نہیں کر تی تھیں ۔الیکشن کمیشن میں تھوڑی بہت جمہوریت کا لحاظ باقی تھا۔لیکِن 2019 اور2019 کے بعد الیکشن کمیشن یک طرفہ کام کرتی نظر آ رہی ہے۔ اب
الیکشن کمیشن کو کنارے کر دیں ۔بی جے پی کی جہاں حکومت ہوتی ہے اور اس ریاست میں الیکشن ہوتے ہیں تو وہاں ضابطہ اخلاق نافذ ہونے سے پہلے بی جے پی حکومت اپنے پسندیدہ آئی اے ایس آفیسروں کو ضلع ضلع میں تعینات کر دیتی ہے۔صرف آئی اے ایس آفیسر ہی نہیں کون بوتھ پر کون پریذائیڈنگ آفیسرز ہونگے وے پوری لسٹ بنا کر ضلع کے کلکٹر کو دے دیا جاتا ہے۔امیت شاہ یوں ہی نہیں کہتے ہیں کہ وہ بوتھ لیول کی تیاری کرتے ہیں دراصل اُنکی بوتھ لیول کی تیاری یہی ہوتی ہے۔اور یہ تیاری تب ہوگی جب ریاست میں سرکار ہوگی۔حزب اختلاف کی نظر اب بھی ان باریکی پر نہیں جا رہی ہے۔بی جے پی جب اپنے پسندیدہ آفیسروں کو بوتھ بوتھ پر فٹ کر دیتے ہیں ۔تو وے ظاہر سی بات ہے کہ اُنکے اشارے پر کام کریں گے۔پہلے اُن بوتھ آفیسروں کا کام ہوتا ہے جس بوتھ پر بی جے پی کے ووٹ زیادہ ہیں وہاں زیادہ سے زیادہ پول کرائیں اور جہاں بی جے پی کے ووٹ کم ہیں یا نہیں ہیں اُن بوتھوں پر پولنگ سلو کروا کے رکھا جائے یا پھر اُن بوتھ پر ہنگامہ کرا دیا جائے۔اس کام سے بی جے پی کو دو سے تین فیصدی ووٹ کا فائدہ ہو جاتا ہے۔ہاں جہاں بی جے پی امیدوار کے خلاف پورے حلقہ میں یک طرفہ ووٹنگ ہوتی ہے اُن حلقوں کے نتیجے میں بہت فرق نہیں پڑتا ہے لیکِن جن انتخابی حلقوں میں مقابلہ نزدیکی ہوتا ہے وہاں بی جے پی کو ہی جیت ملتی ہے۔معاملہ صرف چناؤ کرانے تک ہی محدود نہیں ہوتا ہے۔پھر وہی کلکٹر اور دوسرے آفیسر ووٹوں کی گنتی میں بھی موجود ہوتے ہیں۔پوسٹل بیلٹ میں ہیرا پھیری اور جب کچھ نہیں چلے تو ووٹوں کی دوبارہ گنتی کر بی جے پی کے امیدوار کے حق میں فیصلہ سنا دینا ہوتا ہے۔جیسا کہ بہار میں یہ کھیل پوری طرح کھیلا گیا۔ایکسپرٹ کا کہنا ہے کہ آسام میں اگر بی جے پی کی سرکار نہیں ہوتی تو پھر سے بی جے پی کا سرکار میں واپس آنا ممکن نہیں تھا۔جبکہ تامل ناڈو میں اگر غیر جانب دارانہ چناؤ ہوتا تو اے ڈی ایم کے اور اُسکے اتحادی کو 25 سے 30 سیٹیں ہی مل پاتی۔جبکہ بنگال میں ممتا بنرجی کی سرکار ہونے کے باوجود سی آر پی ایف کے سہارے ٹی ایم سی ووٹنگ والے بوتھ پر رخنہ ڈالا گیا۔الیکشن کمیشن ٹی ایم سی کی شکایتوں کو سننے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتا تھا تبھی تو پرشانت کشور کو کہنا پڑا کہ میں نے اپنی زندگی میں اتنا جانب دار الیکشن کمیشن نہیں دیکھا ہے اور چناؤ غیر جانب دار ہوتا تو بی جے پی 50 سیٹ سے زیادہ جیت نہیں پاتی۔
بی جے پی کو ہرانے کے لئے ہر سطح پر مقابلہ کرنا ہوگا ۔بی جے پی کا مقابلہ حزب اختلاف پیسے کی طاقت سے تو کر نہیں سکتی ہے لیکِن جہاں بی جے پی کی حکومت نہیں ہے وہاں حزب اختلاف بھی بوتھ لیول پر بی جے پی کے طرح تیاری کر سکتی ہے۔لیکِن الیکشن کمیشن کا جھکاؤ بی جے پی کی جانب رہتا ہے اسلئے بی جے پی الیکشن کمیشن کے ذریعے حزب اختلاف کے بوتھ لیول تیاری میں خلل ڈال سکتا ہے لیکِن بی جے پی حکومت والی ریاست میں حزب اختلاف کی شکایت پر الیکشن کمیشن خاموشی اختیار کر لیتی ہے یا شکایت کو رد کر دیتی ہے۔
بی جے پی ہر ایک ریاست میں اپنی حکومت اسلئے چاہتی ہے کہ وہاں کی قدرتی وسائل پر اُنکا قبضہ ہو ۔ساتھ ہی حزب اختلاف کو پیسہ جمع کرنے کا موقع نہیں مل سکے۔لیکِن اس کی ایک اہم وجہ ہے کہ لوک سبھا یا ریاستی اسمبلی چناؤ جیتنے میں کوئی پریشانی نہ ہو بھلے ہی عوام میں پارٹی غیر مقبول ہو چکی ہو۔
Comments are closed.