علماء کرام کے کرنے کے کام

 

 

از: آفتاب اظہر صدیقی

 

چند روز قبل میرے ایک عزیز مولانا محمد مظاہر صاحب مظاہری سہارنپوری نے مولانا طارق جمیل صاحب کو مخاطب کرکے ایک ویڈیو بنائی جس میں انہوں نے مولانا سے درخواست کی وہ اپنے بیانات میں اتنی وضاحت ضرور کردیا کریں جس سے سامعین کے اندر کسی طرح کی غلط فہمی پیدا نہ ہو۔ اس ویڈیو کے سوشل میڈیا پر وائرل ہوتے ہی کئی نو فارغین کو بھی ویڈیوز بناکر شائع کرنے کا داعیہ پیدا ہوا؛ لہذا اس سے پہلے کہ پاکستان کے مولانا طارق جمیل صاحب یا ان کا کوئی ہم نوا اس ویڈیو کا جواب دیتا، خود ہمارے ملک ہندوستان سے کئی خالی بیٹھے ہوئے مولویوں نے اس کے جواب میں ویڈیوز بناکر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کردیے۔

اس سے قطع نظر کہ مولانا مظاہر نے مولانا طارق جمیل صاحب پر درست اعتراض کیا یا غلط، میں مولانا مظاہر اور ان کی ویڈیو کا جواب دینے والے یکے بعد دیگرے سبھی علماء کرام کے سامنے اپنی چند معروضات پیش کر رہا ہوں :

 

کیا آپ حضرات اپنے ملک ہندوستان کی تاریخ سے واقف ہیں؟ اگر نہیں تو اس کا مطالعہ کیجیے، آپ ہندوستان کی جنگ آزادی میں اپنے اسلاف علمائے کرام کی شاندار کارکردگی کو تو ضرور جانتے ہوں گے، ملک کو آزادی ملنے کے ساتھ ہی ہمارا ملک دو حصوں پاکستان اور ہندوستان میں تقسیم ہوگیا، پھر بعد میں چل کر خود پاکستان کے دو ٹکڑے ہوگئے۔

آزادی کے بعد ہندوستان میں رہ رہے مسلمان احساس کمتری کے شکار ہوتے چلے گئے، ان کی سیاسی طاقت ختم ہوچکی تھی، اس وقت سیاسی قیادت کرنے والی کوئی اپنی جماعت نہیں بنی جو ملک کے مسلمانوں کی سیاسی رہنمائی کرتی، پھر یوں ہوا کہ اس ملک میں رہ رہے برہمنوں نے اپنے آپس کی گفتگو میں کہنا شروع کردیا کہ مسلمانوں نے پاکستان لے لیا؛ لہذا ہندوستان پر مکمل ہندوؤں کا حق ہے، اب یہاں مسلمانوں کا کچھ نہیں رہا، اگر وہ اس ملک میں رہیں گے تو ہمارے مطابق رہیں گے، آر ایس ایس نے اس موضوع پر زمینی محنت شروع کردی؛ چونکہ کانگریس کے ساتھ مسلمانوں کا آزادی سے پہلے کا گہرا رشتہ تھا، اس لیے ہندو راشٹر کی ذہنیت والوں نے بظاہر کانگریس کے ساتھ مل کر مسلم مخالف پالیسیوں پر کام کیا اور اندرون خانہ کانگریس کی جڑیں کمزور کرنے کی محنت جاری رکھی۔ اور پھر آزادی کا زمانہ جوں جوں گزرتا گیا کانگریس کو بھی اس بات کا احساس ہوتا چلا گیا کہ اب اس ملک میں مسلمان کو حقدار بنا کر نہیں رکھا جاسکتا، وہ بھی بظاہر مسلمانوں کو خوش کرتی رہی اور پیٹھ پیچھے مسلمانوں کے تحفظ، تشخص اور وقار کو مجروح کرتی رہی۔ لیکن اب دور بالکل بدل چکا ہے، اب حکومت ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جن کی ذہنیت شروع سے مسلمانوں کے خلاف بنی ہوئی ہے، اب سڑک سے لے کر سدن تک کہیں بھی مسلمانوں کے اسلامی وقار اور مسلمانی تشخص کے تحفظ کی کوئی مضبوط دیوار نظر نہیں آتی۔ یہ قدرتی بلائیں (کورونا_وائرس وغیرہ) درمیان میں حائل نہ ہوتیں تو اب تک مزید منصوبے بن چکے ہوتے، ہماری نظروں کے سامنے کشمیر سے اس کا معیاری وقار چھین لیا گیا، ٹرپل طلاق پر پابندی عائد کردی گئی، سی اے اے کو آئین کا حصہ بنا دیا گیا، ہم کچھ نہیں کرسکے، لوو جہاد کے نام پر سیکڑوں مسلمانوں کا خون ہوا، ماب لنچنگ کے ذریعے سیکڑوں جانیں ضائع کی گئیں اور عام مسلمانوں کو خوف و ہراس میں رہنے کا سبق دیا گیا، سی اے اے مخالف مظاہروں کے نتیجے میں ہزاروں بے قصور مسلم نوجوانوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے۔ آج کا نوے فیصد میڈیا ہمارے خلاف، ننیانوے فیصد غیر مسلم سیاسی پارٹیاں ہمارے خلاف، ستر فیصد انتظامیہ ہمارے خلاف، سرکاری محکموں میں کام کرنے والوں کی ذہنیت ہمارے خلاف، ملک کی شدت پسند ہندو تنظیموں کی ہر تیاری ہمارے خلاف؛ اور خود ہم کس کے خلاف کھڑے ہیں؟ دیوبندی بریلوی کے خلاف، بریلوی اہل حدیث کے خلاف، ایک مدرسہ دوسرے مدرسے کے خلاف، ایک مولوی دوسرے مولوی کے خلاف۔ کیا آپ کو تھوڑا بھی اندازہ ہے کہ اغیار اس ملک میں مسلمانوں کا مستقبل کیسا دیکھنا چاہتے ہیں، ٹھیک اسپین (اندلس) کی طرح۔ اندلس کی تاریخ کا مطالعہ کیجیے، وہی حربے، وہی طریقے، مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کے وہی واقعات نئے ڈھنگ سے دوہرائے جارہے ہیں۔ اب آپ کے پاس اتنا فضول وقت نہیں رہا کہ آپ اشکال و اعتراض اور جواب اشکال اور جواب اعتراض میں لگے رہیں، اپنے مستقبل کی فکر کیجیے، حال پر نظر ڈالیے، ماضی سے سبق لیجیے۔

مسلمانوں کی بستیوں میں تعلیم کی کمی ہے، مسلمان بچے دینی و عصری دونوں تعلیمات میں پیچھے ہیں، نوے فیصد مسلمانوں کے اقتصادی حالات بہتر نہیں ہیں، اپنی کوئی سیاسی جماعت مضبوط نہیں ہے، اپنا کوئی میڈیا نیٹورک نہیں ہے۔

ذرا سوچیے کہ آزادی کے بعد سے اب تک ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا۔

آج جو یہ کروڑوں کی آبادی مندروں میں جاکر اپنے بنائے ہوئے مصنوعی خداؤں کے آگے سر جھکا رہی ہے، کیا ہماری ذمہ داری نہیں تھی کہ ہم ان تک اسلام کا سچا پیغام پہنچائیں؟ کیا ہم نے آزادی کے بعد اپنے اس فرض عملی کو سمجھا؟ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ناپائیدار کاموں کو چھوڑ کر صرف کرنے کے کاموں پر توجہ مبذول کریں۔

 

علماء کرام کے لیے کرنے کے چند کام درج ذیل ہیں :

 

1. اپنے محلے میں مکتب قائم کیجیے اور اس کو مستقل آباد رکھیے۔

2. اپنی بستی اور محلے کا جائزہ لیجیے، ایک ایک گھر میں دستک دے کر فہرست بنائیے کہ بستی کے کتنے بچے اور بچیاں تعلیم سے دور ہیں، ان کے لیے حصول تعلیم کو یقینی بنائیے۔

3. محلے کے کتنے بچے اسکول کی تعلیم پاتے ہیں اور کتنے مکتب اور مدرسے جارہے ہیں ان کی فہرست بناکر ان کی نگرانی اور ان کے مستقبل کا تعلیمی رخ طے کیجیے۔

4. محلے کی مسجد میں بیت المال کا قیام عمل میں لائیے اور اس کے ذریعے مکاتب، مدارس کا تعاون نیز محلے کی بیواؤں اور یتیم بچوں کا وظیفہ جاری کیجیے۔

5. محلے کے سبھی پڑھے لکھے نوجوانوں کی ایک "لیگل کمیٹی” بناکر رکھیے تاکہ جب بھی بستی کے کسی ایک فرد کے ساتھ بھی کوئی ناانصافی ہو تو فوراً اس کا رد عمل کیا جائے۔

 

درج بالا باتوں پر تو تمام حفاظ، قراء اور مدرسے کے وہ فارغین کام کرسکتے ہی‍ں جو اپنے گھر یا آس پاس کے علاقوں میں خدمت انجام دیتے ہیں۔

 

اب کچھ وہ کام جو ملک میں ہمارے تحفظ اور بقا کے لیے ضروری ہیں:

 

1. علماء کرام غیر مسلموں میں تبلیغ کا طریقہ سیکھیں اور اس کے لیے عملی میدان میں اتریں؛ آج کل سوشل میڈیا کے ذریعے بھی غیر مسلموں کو دعوت دینا آسان ہے؛ لیکن اس کام کے لیے مکمل تیاری ہونی چاہیے تاکہ ہم ان کے سوالوں کے جواب بھی دے سکیں۔ غیرمسلموں میں تبلیغ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ کام بہت سہل اور آسان ہے، بس میدان میں نکلنے کی ضرورت ہے اور حق تو حق ہے جو ہمیشہ غالب ہی رہتا ہے۔

 

2. علمائے کرام کو چاہیے کہ ملک میں مسلمانوں کی سیاسی مضبوطی کے لیے کوشش کریں، علاقائی طور پر اگر ہر صوبے میں علمائے کرام مل جل کر اپنی اپنی سیاسی جماعت تشکیل دیں تو زیادہ بہتر رہے گا، جب ہم لوگوں نے مدارس پر محنت کی تو ملک کے چپے چپے میں مدرسے کھل گئے، ملی تنظیموں پر توجہ مرکوز کی تو سیکڑوں تنظیمیں بناڈالیں، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی سیاسی پارٹیاں بنائیں اور سپا، بسپا، راجد، جدیو وغیرہ کی غلامی سے آزاد ہوں۔

 

3. اپنا مضبوط میڈیا ہاؤس کیسے قائم ہو اس پر عملی طور پر قدم بڑھانے کی ضرورت ہے، جب تک ہر ادارے اور شخصیت کی طرف سے انفرادی طور پر سوشل میڈیا سائٹس پر اپنے دین کی اشاعت اور صداقت پر مبنی خبروں کی تشہیر کی جائے۔

 

4. جگہ جگہ اسلامک اسکولوں کا قیام عمل میں آئے؛ جہاں عصری تعلیم کے ساتھ دین کی بنیادی تعلیمات پر مشتمل کتابیں داخل نصاب ہوں۔ لہذا علماء کو چاہیے کہ موجودہ حالات کے پیش نظر اسلامک اسکولز بنائیں۔

 

5. مسلم بچوں کو سسٹم کا حصہ بنانے کی خاطر اعلیٰ امتحانات کی تیاری کے لیے خصوصی ادارے قائم کیے جائیں جہاں اسلامی ماحول اور اسلام کی محبت کو ان کے دلوں میں پیوست کرتے ہوئے انہیں آئی اے ایس، وکیل، جج، سائنس داں بننے کا موقع فراہم کیا جائے۔

_______________

Comments are closed.