Baseerat Online News Portal

اے پِیرِ حرم! رسم و رہِ خانقہی چھوڑ

[حالیہ قضیہ فلسطین کے تناظر میں]

محمد صابر حسین ندوی

عالمی نقشہ پر ٥٧ ممالک، اربوں کی تعداد، دنیاوی معدنیات کی اکثریت پر قبضہ، دولت کی ریل پیل اور دادو دہش کے باوجود اگر ان کے فلسطینی بھائیوں، بہنوں کو قتل کیا جائے، ان کے ناموس کے پرخچے اڑائے جائیں، بیت المقدس کی پامالی کی جائے، صہیونی اور صلیبی متحدہ محاذ بنا کر صنف نازک، بچے اور بوڑھے، لاغر، کمزور اور عمر رسیدہ افراد کو ذبح کریں، انہیں بیت اللہ میں آمد ورفت سے محروم کریں، سلیمان علیہ السلام کی یاد، معراج نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا پڑاؤ، امیرالمومنین ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی امید و مرکز محبت اور فتح، صلاح الدین ایوبی کی بزور شمشیرزنی، بہادری اور شجاعت کی علامت سے دور کریں، عبادت، انابت، للہیت کی پکار، نعرہ تکبیر اور وحدانیت کی للکار سے روکیں، رمضان المبارک کے عین موقع پر افطار کے وقت انہیں مضطر کردیا جائے، خواتین کے حجاب، نقاب اور دوپٹے چھینے جائیں، نوجوانوں کو گولیوں کی نوک پر کھدیڑا جائے، جسموں میں چھرے ڈال دئے جائیں، گھٹنوں تلے دبا کر سانس مشکل کردی جائے، سر پھوڑ دیا جائے، ہاتھ پیر توڑ دیے جائیں، گولیاں مار کر پر شہید کردیا جائے، پوری اسرائیلی فوج ملکر، مسلح ہو کر اور پوری طاقت کے ساتھ دھاوا بول دیں، نہتے، معصوم اور اپنی سرزمین پر اپنا حق استعمال کرتے ہوئے لاٹھیاں کھائیں، قید کئے جائیں، بکتر بند گاڑیوں سے کچلے جائیں، تو پھر ایسے ٥٧ ممالک کے مسلمانوں اور دنیا پر اپنا رعب وداب کی بات کرنے والوں کا کیا فائدہ؟ اگر یہ کہا جائے تو کیا غلط ہے کہ وہ سب کے سب مردہ دل، بے مروت، عیش وعشرت کے دلدادہ، اللہ تعالی کی نعمتوں میں غرانے والے، بھائی کو بھائی نہ سمجھنے والے، اسلام کی بنیاد پر اخوت، مساوات، ہمدردی اور عزت و غیرت کا سودا کرنے والے ہیں، امارات، بحرین ،سعودیہ جیسے ممالک جو اسرائیل کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں، امن و آشتی کے نام پر سمجھوتہ کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ وہ اسلام کی خدمت کر رہے ہیں، فلسطینیوں کی حفاظت کا بندوبست کر رہے ہیں، اس سے بیت المقدس میں سکون نصیب ہوگا، شب و روز فوجی آپریشنز پر روک لگے گی، اور بہ آسانی ان محصورین کی مدد کی جاسکے گی، – – – – قسم بخدا! اس سے زیادہ فریب اور غداری سے بڑھ کر کیا بات ہوگی، بزدلی، دہشت اور ناکارہ پن سے نہیں تو اسے اور کیا کہیں گے، مصلحتاً اپنے بھائیوں کو مذبح کی. جانب بھیجنے والے قاتل نہ کہلائیں تو اور کیا کہیں؟ غزہ پر ناکہ بندی ہے، اکبر و بیشتر وہاں سے دل دہلادینے والی خبریں آتی رہتی ہیں، فلسطینی اپنے بچوں کی شہادت پیش کر رہے ہیں، جواں مردی، پامردی، حوصلہ، عزیمت، ہمت اور طاقت کے ساتھ توکل علی اللہ، اعتماد باللہ اور شوق شہادت، لقائے الہی کا جذبہ دکھارہے ہیں، کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی میدان جنگ بپا کر رکھی ہے، تنہا، بے دست وپا مسلح افراد سے بھڑے ہوئے ہیں، وہ ایمانی قوت، اللہ پر بھروسہ اور قرآن و سنت کی برتری کا جھنڈا تھامے آگے بڑھ رہے ہیں-
کرونا وائرس کے قہر میں جہاں دنیا اپنے اپنے گھروں، دربوں، عیش کدوں اور محلوں میں دُبک گئی ہے وہاں پر فلسطینی جام شہادت کے نشے سے چور ہو کر بیت المقدس کے گنبد صفراء پر فلسطینی عَلم لہرا رہے ہیں، ہرمضان المبارک کے مقدس مہینے میں قدس کے اندر روزہ افطار کرنے جارہے ہیں، اور دسترخوان لگا کر دنیا کو اپنی ہمت اور توکل کا نمونہ دکھا رہے ہیں؛ لیکن اسرائیلی فوجیں انہیں روک رہی ہیں، ادھر کئی دنوں سے لگاتار فوجی ظلم و زیادتی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، جوں جوں بھیڑ بڑھتی جاتی ہے، پروانوں کا ہجوم جمع ہوا جاتا ہے ان کے دل کی دھڑکنیں بند ہوئی جاتی اور عامیانہ کارروائی کئے جارہے ہیں، صاف پتہ چلتا ہے کہ ان کے شوق وعزم کے سامنے ان کے دل بیٹھے جارہے ہیں، وہ خوف کھارہے ہیں اور زبردستی اپنا ڈر چھپانے کیلئے ظالمانہ ہتھکنڈے آزما رہے ہیں، ویڈیوز، تصاویر اور عالمی خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق فلسطینی جانکاہ کی حالت میں ہیں، اس وقت تشویشناک صورتحال ہے، برکت، سعادت اور رحمت کے مہینہ میں بنی اسرائیلی غنڈے، فرعون کے پجاری، سامری کی نسلیں اور ایمان و شداد کے پیروکار دندناتے پھر رہے ہیں، اعلی قسم کے ہتھیار اور خود میں ڈھکے خالی ہاتھ فلسطینیوں کو اغوا کر رہے ہیں، یہ سختی اور شدت بتاتی ہے کہ یقیناً اسرائیل امن کے نام پر عرب کو خموش کرچکا ہے، ویسے بھی ان میں دم نہیں کہ انہیں شکست دے سکیں، وہ دولت کو عیاشی کیلئے استعمال کرتے ہیں، دور دراز ممالک کو مدد پہنچاتے ہیں لیکن اپنے ہی پڑوس میں غزہ و فلسطین کو بھوکو مرتا چھوڑ دیتے ہیں، جبکہ اسرائیل کا بچہ بچہ فوجی ہے، اللہ تعالی نے ایک جنگ کی صورت میں انہیں آئینہ دکھایا تھا تب بھی وہ عذاب الہی کا انتظار کر رہے ہیں اور شاید وہ سمجھ رہے ہیں کہ اس دن اسرائیل کا امن معاہدہ انہیں بچا لے گا، جس طرح نوح علیہ السلام کا بیٹا طوفانی بارش میں خود کو بچالینے اور پہاڑ کا سہارا لے لینے کا گمان رکھتا تھا، لیکن وہ ڈوب گیا، عصیاں، گنہگار ہو کر غرق ہوگیا، اسی طرح یہ بھی ڈوبیں گے، رسوا ہوں گے، ان کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا، ممکن ہے کہ کہیں اس دن سمجھ آیے کہ اسرائیلی جو اللہ کے نہ ہوسکے وہ بھلا تمہارا کیا ہوں گے– لیکن ایسا نہ ہو کہ تب تک دیر ہوجائے اور فلسطینیوں کی معصوم، مظلوم آہیں انہیں تہہ و تیغ کردیں –
اے پِیرِ حرم! رسم و رہِ خانقہی چھوڑ
مقصود سمجھ میری نوائے سَحری کا
اللہ رکھے تیرے جوانوں کو سلامت!
دے ان کو سبق خود شکَنی، خود نگَری کا
تُو ان کو سِکھا خارا شگافی کے طریقے
مغرب نے سِکھایا انھیں فن شیشہ گری کا
دِل توڑ گئی ان کا دو صدیوں کی غلامی
دارُو کوئی سوچ ان کی پریشاں نظَری کا
کہہ جاتا ہوں مَیں زورِ جُنوں میں ترے اَسرار
مجھ کو بھی صِلہ دے مری آشُفتہ سری کا!

[email protected]
7987972043

Comments are closed.