”مگر محفل تو پروانوں سے خالی ہوتی جاتی ہے“

حضرت مولانا سیدمحمدحمزہ حسنی ندوی صاحب جوار رحمت میں (۱) 

 

 

از قلم: مفتی محمد قمرالزماں ندوی

(مدرسہ نورالعلوم، کنڈہ پرتاپگڑھ)

 

 

گزشتہ کل( ۲۴ رمضان ۴۲ھج مطابق ۷/ مئی ۲۰۲۱ء) جیسے ہی افطار اور مغرب کی نماز سے فارغ ہوکر خال معظم حافظ حامد الغازی صاحب سے ملاقات کے لیے مسجد سے ان کے گھر پہنچا اور کچھ دیر بعد موبائل کی اسکرین و فیس بک کو کھولا تو سب سے پہلے اس حادثہ فاجعہ پر نظر پڑی کہ حضرت مولانا سید محمد حمزہ حسنی ندوی صاحب مدظلہ العالی نائب ناظم ندوۃ العلماء لکھنؤ بھی اللہ کے جوار میں منتقل ہوگئے، دل دھک سے ہوگیا اور کیفیت عجیب سی ہوگئی،دعاء ماثورہ پڑھنے کے بعد کچھ دیر کے لیے بستر پر خاموش پڑا رہا۔ اموات کے اس لا متناہی سلسلہ نے ذہن و دماغ کو بہت متاثر کردیا ہے،درجنوں قریبی رشتہ دار اور متعلقین بھی لقمہ اجل ہوچکے ہیں۔ ایک بڑی تعداد علماء ، اہل علم اور دانشوران و سیاست دانوں کی بھی اس فانی دنیا کو چھوڑ کر باقی دنیا کی طرف جاچکی ہے۔۔ کل تراویح کے بعد کوشش کی کہ حضرت مولانا سید محمد حمزہ حسنی ندویؒ پر لکھوں گا، لیکن بہت کوشش کے بعد بھی ذہن و دماغ کو اس کے لیے یکسو نہ کرسکا۔۔ یہ صدمہ کتنا گہرا ہے مرشد الامہ حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی مدظلہ العالی، کے لیے، ان کے خاندان اور ارباب ندوہ کے لیے تصور نہیں کیا جاسکتا۔ بہر مولانا مرحوم کی وفات سے پورا خاندان، پورا ندوہ اور سارے اہل تعلق افسردہ اور غمزدہ ہیں، ایک بہت بڑا نقصان ہے اور خسارہ ہے ، ندوہ کا اور خاندان سادات حسنی کا، نیز ساری ملت اسلامیہ کا۔۔۔ کیونکہ وہ ملت کے لیے ایک قیمتی سرمایہ تھے۔۔۔

 

ایسا کہاں سے لاوں کہ تجھ سا کہوں جسے

جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں

کہیں سے آب بقائے دوام لا ساقی

 

ایک مومن کا عقیدہ ہے کہ موت اور زندگی کو اللہ نے پیدا کیا ہے، اور اس کو ہماری آزمائش کے لیے پیدا کیا ہے۔ اس میں انسان کی مرضی اور خواہش کا کوئی دخل نہیں ہے ، اللہ کی طرف سے زندگی اور موت کا وقت متعین ہے۔۔ "لکل امة اجل” یہ قدرت کا اٹل فیصلہ ہے اور کل نفس ذائقة الموت۔ یہ قانون خدا وندی ہے۔

شاعر نے کہا ہے۔

 

لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے

اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے

 

خلاق ازل نے اس دنیا کا نظام کچھ اس طرح بنایا ہے کہ کل نفس ذایقة الموت ( ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے) کی حقیقت ہر ایک پر صادق آکر رہے گی، اس سے کوئی بھی فرد بشر حتی کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی ذات بھی مستثنٰی اور علحدہ نہیں ہے ۔

موت سے کس کو رستگاری ہے

آج وہ کل ہماری باری ہے

مشہور ادیب اور شاعر ماہر القادری صاحب مرحوم نے اپنی کتاب یاد رفتگاں جلد اول میں ایک جگہ موت اور زندگی کے حوالے سے لکھا ہے :

 

فروغ شمع تو باقی رہے گا صبح محشر تک

مگر محفل تو پروانوں سے خالی ہوتی جاتی ہے

 

اس عالم کون و فساد میں موت ہر جان کے ساتھ لگی ہوئی ہے ۔ اللہ تعالٰی کی ذات کے سوا ہر شئی فانی اور آنی جانی ہے ،احتیاج اور فنا مخلوق کی صفت ہے، آدمی کوئی شک نہیں خلاصئہ کائنات اور اشرف المخلوقات ہے مگر وہ ۔۔ ضعیف البیان۔۔ بھی تو ہے ۔

 

کریں کیا اپنی ہستی کا یقیں ہم

ابھی سب کچھ ابھی کچھ بھی نہیں ہم

 

جس جان کے لئے کاتب تقدیر نے جو کچھ لکھ دیا ہے اس میں کمی بیشی ممکن نہیں ،ایک لمحہ کے لئے آگے پیچھے نہیں ہوسکتا ۔۔۔۔۔مگر

آدمی نشئہ غفلت میں بھلا دیتا ہے

ورنہ جو سانس ہے پیغام فنا دیتا ہے

 

اور

موت میں اور حیات میں وقفئہ درمیاں کہاں

 

حافظ شیرازی نے بڑی سچی بات کہی ہے ۔۔۔

زمانہ جام بدست و جنازہ بردوش است

(یاد رفتگاں از ماہر القادری مرحوم)

 

یاد رفتگاں کے نام سے وفیات کا ایک دوسرا بہترین،شاہکار اور قیمتی مجموعہ *علامہ سید سلیمان ندوی رح* کا ہے اس کے مقدمہ میں جناب سید ابو عاصم ایڈوکیٹ (کراچی) نے موت اور زندگی کی جو تصویر کشی کی ہے وہ بہت ہی پر مغز اور مبنی بر حقیقت ہے ۔ سید ابو عاصم مرحوم صاحب لکھتے ہیں :

 

"حکایت ہستی کے دو ہی اہم واقعات ہیں، پیدائش اور موت ،موت و حیات کا فلسفہ کائنات کے دوسرے اسرار کی طرح اب تک لا ینحل ہے ۔

 

فلسفی سر حقیقت نہ توانست کشود

گشت راز دیگرآں راز کہ افشا می کرد

 

کچھ لوگ متحیر ہیں اور کہہ اتھتے ہیں،

سنی حکایت ہستی تو درمیان سے سنی

نہ ابتداء کی خبر ہے نہ انتہا معلوم

 

حالانکہ انہیں دونوں کے تصور پر عمرانیات کی بنیاد کھڑی ہے ،موت کی حقیقت کچھ بھی ہو لیکن یہ زندوں اور مردوں کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دیتی ہے، اور اسی وجہ سے موت پر غم ایک فطری جذبہ ہے، مگر مسلمان کا غم دنیا کی تمام دوسری قوموں کے غم سے مختلف ہے،اس لئے کہ مسلمان اس کائنات اور کائنات سے ماوراء کے متعلق ایک خاص نظریہ اور تصور رکھتا ہے ،وہ موت کو زندگی کا خاتمہ نہیں سمجھتا ،بلکہ ایک نئ زندگی کا آغاز سمجھتا ہے ۔ اس لئے اس کو غم عارضی فراق کا ہوتا ہے ،اس کے برخلاف دوسری قومیں موت پر غم اس لئے کرتی ہیں کہ ان کے نزدیک محبوب کی ہستی فنا ہوگئ، ان اوراق میں موت پر فطری غم تو ضرور ہے لیکن ایک مسلمان کا غم ہے”

(مقدمہ یاد رفتگاں از سید سلیمان ندوی رح)

یہ تمہید طولانی صرف اس لیے بیان کیا ، تاکہ تمام اہل تعلق وارثین و پسماندگان کے لیے یہ تحریر وجہ تسلی ہو۔۔۔

حضرت مولانا سید محمد حمزہ حسنی ندوی رح کو اللہ نے جو حیات مستعار دی تھی وہ گزار کر ہمارے درمیان سے چلے گئے، لیکن اپنی خدمات اور قربانیوں کے گہرے نقوش چھوڑ کر گئے جس میں آنے والی نسلوں کے لیے پیغام ہے ، سبق ہے ، یقینا وہ ہم سب کے لئے نمونہ اور آڈیل تھے ۔مولانا سید محمد حمزہ حسنی ندوی رح سادات حسنی کے روشن چشم و چراغ تھے آپ کے والد محترم سید محمد ثانی حسنی ندوی رح خلیفہ شیخ الحدیث مولانا زکریا رح اپنے زمانے کے ولی صفت اور باکمال عالم تھے وہ انتہائی شریف اور بے ضرر انسان تھے، حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب رح اور حضرت شیخ الحدیث رح کے تربیت یافتہ اور حضرت مولانا علی میاں ندوی رح انتہائی قریبی عزیز اور نور نظر تھے ۔ مولانا محمد ثانی حسنی ندوی رح حضرت مولانا قاری صدیق صاحب رح ہتورا باندہ اور مولانا محمد مرتضیٰ صاحب رح سابق ناظر کتب خانہ ندوہ العلماء لکھنؤ کے ہم سبق اور ساتھی تھے اور ان تینوں میں خوب مناسبت تھی۔ مولانا محمد سید محمد حمزہ حسنی ندوی رح کی پیدائش ۱۹۵۰ء میں دائرہ شاہ علم اللہ تکیہ کلاں رائے بریلی میں ہوئی آپ کی ابتدائی تعلیم کے علاوہ پوری تعلیم دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں ہوئی۔ آپ دوران طالب علمی ندوہ کے نمایاں لڑکوں میں تھے اور اپنے ساتھیوں میں ممتاز تھے۔ مولانا محمد ناصر صاحب ندوی رح سے آپ کو بڑی مناسبت تھی۔ غالبا ۱۹۶۸ ء یا ۱۹۶۹ء میں آپ نے ندوہ سے سند فراغت حاصل کی اور علم حدیث میں تخصص کیا۔۔ پھر مختلف علمی ملی اور سماجی کاموں میں مشغول ہوگئے، مکتبہ اسلام کی سرپرستی اور ماہنامہ رضوان لکھنؤ کی ادارتی ذمہ داری بھی آپ نبھاتے رہے۔ مولانا ثانی حسنی ندوی میموریل سوسائٹی کے پلیٹ فارم سے آپ نے بہت کچھ کیا اور اس کے ماتحت بہت سے اداے کی ذمہ داری نبھاتے رہے۔۔

آپ حضرت مولانا علی میاں ندوی رح کے ساتھ سفر وحضر میں بھی رہے اور ان سے خوب استفادہ کیا، مولانا رح آپ کو بہت ہی عزیز رکھتے تھے۔ ایک بار حج کے سفر میں مولانا حمزہ حسنی ندوی صاحب آپ کے ساتھ تھے، ایک جگہ میں نے پڑھا کہ ایک موقع پر مولانا محمد حمزہ حسنی ندوی صاحب مکہ مکرمہ میں کہیں راستہ بھٹک گئے اور گھنٹوں مولانا رح کی نظر سے غائب رہے مولانا رح بے قرار ہوگئے اور بار بار یہی سوال کرتے تھے کہ حمزہ میاں کہاں ہیں۔؟ حمزہ میاں کہاں ہیں؟ اور جب تک آ نہیں گئے بے قرار رہے۔

نوٹ باقی تفصیلات کل کے مضمون میں ملاحظہ کریں۔۔

Comments are closed.