Baseerat Online News Portal

کورونا کی دوسری لہر سے مدارس کے وجود پر منڈلاتے خطرات کے بادل

مفتی خلیل الرحمن قاسمی برنی صدر ادارہ علمی مرکز و
امام و خطیب مسجد الفاروق ولیمس ٹاؤن بنگلور

برصغیر ہندوپاک میں مدارس کی اہمیت سے کون ناواقف ہے۔یہ مدارس ہی ہیں جن کے ذریعہ مسلم سماج میں،اسلامی تعلیم،تربیت اوراعلیٰ اخلاقی اقدار کو فروغ ہورہاہے۔مسلمانوں میں اسلامی حمیت وغیرت اوردینی تعلیم و تربیت کا جو خون گردش کررہاہے وہ سب انہیں مدارس کی دین ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہردورمیں امت کے علماء اوربزرگان دین نے ”مدارس کی ضرورت و اہمیت“کوبڑے واضح انداز میں بیان کیا ہے۔
حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی صاحب تھانوی قدس سرہٗ فرماتے ہیں:”اس میں ذرا شبہ نہیں کہ اس وقت مدارس علوم دینیہ کا وجود مسلمانوں کے لئے ایسی بڑی نعمت ہے کہ اس سے بڑھ کر متصور نہیں۔دنیا میں اگر اسلام کی بقا کی کوئی صورت ہے تو یہ مدارس ہیں (حقوق العلم ۵۱)
بحرالعلوم حضرت علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:یہ مدارس جہاں بھی ہوں،جیسے بھی ہوں،ان کا سنبھالنا اورچلانامسلمانوں کا سب سے بڑا فریضہ ہے۔اگر ان عربی مدرسوں کا کوئی فائدہ نہیں تو یہی کیا کم ہے کہ یہ غریب طبقوں میں مفت تعلیم کا ذریعہ ہیں،اوران سے فائدہ اٹھاکر ہمارا غریب طبقہ کچھ اوراونچا ہوتاہے اوراس کی اگلی نسل کچھ اوراونچی ہوتی ہے اوریہی سلسلہ جاری رہتاہے۔غورکی نظر اس نکتہ کو پوری طرح کھول دے گی۔
سلطان القلم حضرت مولاناسید مناظر احسن گیلانی کے بقول مدارس ہی کی بنیاد پر اس امت کو ہمیشہ اعتقادی اوراخلاقی گندگیوں سے پاک رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔
مفکر اسلام حضرت مولاناسید ابوالحسن علی میاں ندوی رحمہ اللہ نے مدارس کو آدم گری اورمردم سازی کی سب سے بڑی کارگاہ قراردیا ہے (پاجاسراغ زندگی)
حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ مدارس ملت اسلامیہ کے دھڑکتے ہوئے دل ہیں یہ دین وایمان کے ٹھکانے ہیں، اورمسلمانوں کی دنیا و آخرت ہیں، اس لئے ان کی تقویت و تائید برصغیر میں اسلامی تہذیب واقداراورعلوم اسلامیہ کو زندہ رکھنے کا ذریعہ ہے۔آج کے حالات میں ان کی امدادواعانت پہلے سے زیادہ ضروری ہوگئی ہے۔
مدارس اسلامیہ میں چوں کہ غریب اورمتوسط درجہ کے طلبہ ہی رخ کرتے ہیں اوریہ ان کی تعلیم کا واحد ذریعہ ہیں جہاں ان سے لیا کچھ نہیں جاتابلکہ صرف دیا ہی جاتاہے،تعلیم،قیام و طعام اوران کی دیگر تمام ضرورتیں مدارس ہی کی طرف سے پوری کی جاتی ہیں۔ایک پائی ان سے نہیں لی جاتی ہے۔مدارس کے اخراجات معمولی تنخواہوں پر کام کرنے والے حضرات مدرسین و عاملین کے ذمہ ہوتے ہیں یہ حضرات سال بھر مدارس میں روکھی سوکھی کھاکر اورپوری محنت سے تعلیم و تعلم میں مشغول رہ کر شعبان کے آخر اوررمضان میں (جو کہ ان کی چھٹیوں کے ایام ہوتے ہیں)اہل خیر حضرات کی خدمت میں پہنچتے ہیں اوربڑی منتوں ،دقتوں اورپریشانیوں کے ساتھ فراہمی اموال کرتے ہیں۔
دراصل یہی وہ لوگ ہیں جو اپنی صلاحیتیں فروخت نہیں کرتے، دنیوی اجرت کا تصور نہیں رکھتے بلکہ ثواب و احتساب کی بنیاد پر کا م کرتے ہیں اورپھر انہیں نیتوں اورمحنتوں کی بنیاد پر مدارس کا نظام چلاکرتاہے۔
گذشتہ سال کی طرح اس سال بھی کرونانے اپنا اثر اس طرح دکھایا کہ ملک میں پھر ایک بار لاک ڈاؤن نافذ کردیاگیا ہے جس سے آمد و رفت کے وسائل ممکنہ طورپر مسدود ہوگئے ہیں۔اس بنیادپر مدارس اسلامیہ کے ذمہ داران اورمحصلین کا رابطہ بھی اہل خیر حضرات سے منقطع ہوچکاہے۔اب مدارس پر حالات پہلے سے کہیں زیادہ آچکے ہیں۔اس لیے تمام مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان تمام اداروں اورمدارس اسلامیہ کی فکر کریں اورموجود ہ فاقہ کش اورپریشان کن حالات سے نکالنے میں ان کی مدد کریں _
اس موقع پر اہل خیر حضرات کو صرف زکوٰۃ کی مد پر ہی منحصر نہیں رہنا چاہیے بلکہ عطیات اورامدادی رقومات سے بھی قومی اداروں،علماء،مؤذنین اوردیگر سفید پوشوں کی مدد کرنی چاہیے۔
آج کئی علماء،بہترین صلاحیتوں کے مالک مدارس کے موجودہ حالات کے باعث نان ِ شبینہ کے بھی محتاج ہوچکے ہیں،کئی ایسے حضرات نے تعلیم و تعلم کا پیشہ چھوڑکر دوسری راہوں کو اختیارکرلیاہے اورچوں کہ پہلے سے تجربہ نہیں تھا اس لئے وہاں بھی وہ حالات کی زد میں ہے۔اللہ رحم فرمائے۔آمین
خلیل الرحمن قاسمی برنی 9611021347

Comments are closed.