تو بندہ آفاق ہے، وہ صاحب آفاق

قضیہ فلسطین کے تناظر میں

 

 

محمد صابر حسین ندوی

 

فلسطینیوں کے چہرے دیکھئے! ان کے ہاؤ بھاؤ اور خدوخال کا جائزہ لیجیے! نشست و برخواست اور گفتار و کردار پر نظر ڈالئے! جوش ایمانی، شوق شہادت اور توکل علی اللہ کا مشاہدہ کیجئے! تو لگتا ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے لذت موت کی بو پالی ہے، شہادت کی خوشبو سے آشنا ہیں، متاع غرور سے اوب چکے ہیں یا اس کی سرمستیوں، چالبازیوں سے واقف ہیں، وہ سر خودی سے سرشار ہیں، ضمیر بیدار اور زندہ ہے، ماتھے پر چمک طمانیت کی گواہ ہے، دل کی بستی بسائے دنیا کی بے ثباتی، بے بضاعتی اور فنائیت کا سبق ازبر یاد کر چکے ہیں، ان کا جینا مرنا صرف اللہ کےلئے ہے، شب و روز کی تمام کد و کاوشیں اسی راہ میں مٹ جانے کی ہیں، ان کے سامنے تیغ و تفنگ، توپ و خنجر، بکتر بند گاڑیاں، جدید ٹیکنالوجی کے اسلحے اور خود میں غرق فوجی کارروائیاں ہوتی ہیں، کمانڈرز ڈنڈے لہراتے، پتھر برساتے، آنسو گیس چھوڑتے، دھماکہ خیز مواد پھوڑتے ہوئے انہیں ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں، مزاحمت ہوتی اور زوردار ہوتی ہے، سب کچھ زیر و زبر ہوجاتا ہے؛ لیکن ان کے لب پر مسکراہٹ ہے، وہ نہتے ہی بنا شمشیر و تلوار کے میدان کارزار میں داد دے رہے ہیں، بَس کچھ پتھر کے ٹکڑے، کبھی غلیل لیکر باز کی طرح جھپٹتے ہیں، چیتے سے زیادہ پھرتی دکھاتے ہیں، گویا وہ کہہ رہے کہ جب کہیں نوجوانوں میں خودی صورت فولاد پیدا ہوجاتی ہے، انہیں شمشیر کی حاجت نہیں رہتی، پوری دنیا کی نیرنگی، مہ و پریں ناچیز ہوجاتے ہیں، وہ سب عالم مجبور لگتے ہیں؛ لیکن یہ اسرار پیدا نوجوان عالم آزاد کے باشندے ہوتے ہیں، انہیں موجوں کی لہر، طوفان کی شدت نے پالا ہوا ہوتا ہے، ہواؤں کی تیزی اور گردش ایام کی گود میں پلے بڑھے ہوتے ہیں، ان میں فقط ذوق طلب ہوتی ہے، وہ خداداد صدف کے مالک ہیں، صدق، جذبہ جہاد، للہیت اور موت کی جناب لپکنے کا ہنر بھی من وجہ اللہ ہے، وہ شاہین ہیں، ان کے پرواز میں کوئی تھکاوٹ نہیں، ان کے سامنے افتاد کی کوئی جگہ نہیں ہوتی ہے، ناہموار کو ہموار کرنا جاتے ہیں، وہ بیدار مغز، حق بین ہوتے ہیں، انہیں ہتھیار کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ہے، ان کی نگہ شوق سے ہر پتھر ریزہ ریزہ ہوتا ہے، وہ آزاد فکر، اسلام کی بلندی اور انسانیت کے علمبردار ہوتے ہیں، ایسے ہی مسلمان شوق کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ وہ موجودہ زمانے میں پچھلوں کی یاد، ان کے حوصلوں اور جذبوں کی داستان اور زندہ تصاویر ہیں، ایک دو دن نہیں، ایک دو سال نہیں؛ بلکہ نصف صدی سے زائد عرصے سے اپنی اسی جولانی، صلابت، بلند ہمتی کی وجہ سے پوری صلیبی و صہیونی فوج سے برسر پیکار ہیں، اپنے بچوں کی شہادت پیش کرنے والی مائیں، آنسوؤں کے چند قطروں کے ساتھ بیت المقدس کے سامنے کھڑی ہو کر باطل کو للکار رہی ہیں، اور جن کے وجود سے کائنات میں رنگ ہے، جن کے ساز سے زندگی کا سوز دروں ہے، جس کا شرف ثریا سے بڑھ کر ہے، وہ صنف نازک بھی میدان شجاعت کا حسین نظارہ پیش کر رہی ہیں-

اس مرد خدا سے کوئی نسبت نہیں تجھ کو

تو بندہ آفاق ہے، وہ صاحب آفاق

 

تجھ میں ابھی پیدا نہیں ساحل کی طلب بھی

وہ پاکی فطرت سے ہوا محرم اعماق

*ذرا دیکھئے! یہ کیسے ڈرپوک، بزدل، ناہنجار اور جگر کے کچے ہیں جو ایک معصوم لڑکی سے بھی ڈرتے ہیں، اس کے اقدام سے خوف میں مبتلا ہوجاتے ہیں، اور اسے فوجیوں کی ٹولی ملکر پکڑتی ہے، اس کے باوجود اس پر قابو نہیں پاتے، فلسطینیوں کی جواں مردی انہیں تک محدود نہیں ہے؛ بلکہ یہ لامحدود ہے، حتی کہ وہ بچے جو پھول ہیں، کانٹوں میں امید ہیں، مرتی انسانیت اور لٹتی دنیا کا مستقبل ہیں، جو اپنی قوت، اعصاب اور فکر کے اعتبار سے کمزور ترین ہیں، بعضوں نے ابھی ماں کا دودھ بھی نہیں چھوڑا، ابھی ابھی چلنا پھرنا سیکھا ہے، بہت سے یہ بھی نہیں جانتے ہوں گے کہ دنیا کیا چیز ہے اور آخرت کی حقیقت کیا ہے؟ لیکن ان سے بھی انہیں دہشت ہے، جب ایک بچہ ہاتھوں میں پتھر لئے، عقابی نگاہ اور حوصلہ افزا انداز میں چلتا ہوا ان کی طرف بڑھتا ہے تو ان کے قدم لرز جاتے ہیں، فوج ان پر بھی بندوق تان دیتی ہے، اسے کئی فوجی ایک ساتھ پکڑتے ہیں اور گَن کے سایہ میں بٹھاتے ہیں، یہ سب صرف اور صرف بیت المقدس کی حفاظت، قبلہ اول کی بازیابی اور اسلامی علم کی بلندی کیلئے سینہ سپر ہیں، مگر افسوس اپنے آپ کو مسلما کہنے والے اربوں لوگ اس درد کو دیکھتے ہیں، شاید کچھ محسوس بھی کرتے ہیں؛ لیکن عموماً سبھی لب سی چکے ہیں، زبانیں گنگ ہوچکی ہیں، دل پر پتھر پڑ گیا ہے، آنکھیں چوندھیا گئی ہیں، ہمیں دنیا کے دوسرے خطوں سے کیوں شکایت ہو؟ ان کا روز اول ہی سے اسلام اور مسلمانوں کو زیر زمین کردینے، انہیں دفن کردینے اور جڑ سے مٹادینے کا منصوبہ ہے، وہ اگر اپنے ایک بھائی کے قتل پر دنیا میں کھلبلی مچادیں اور اقوام متحدہ سے لیکر پوری دنیا کی اعلی تنظیمیں حرکت میں آجائیں تو کیا غلط ہے؟ یہ ان کا بنایا ہوا نظام ہے جس میں یقیناً انہیں کی سربلندی رہے گی؛ مگر اسلام اور قرآن کے نام پر ممالک کے راجا مہاراجا بننے والے اور ایمان کا دعویٰ کرنے والے مسلمان بادشاہ، افراد اور گروہ کہاں ہیں؟ کہاں ہیں خادم الحرمين الشريفين کہلانے والے؟ امن و آشتی کیلئے معاہدے کر کے فلسطین اور بیت المقدس کا سودا کرنے والے؟ اگر انہیں لگتا ہے کہ وہ آج خموش رہ کر اپنے گھروندے بچا لیں گے، بادشاہت کی عیش و عشرت کو دائمی کرلیں گے، اسلام کا لبادہ اوڑھ کر مغربی زندگی جی کر سب کچھ کر جائیں گے تو غلط ہے- وہ وقت دور نہیں جب اس آگ کی لپٹ ان کے گھروں تک پہنچے گی اور انہیں رسوا کر دے گی، ان کے شاہی خاندان قتل کردیئے جائیں گے، یا جلاوطن ہوکر رہیں گے، عالیشان محلیں ویران ہوجائیں گے اور ان کا جمع کیا ہوا مال و دولت لوٹ کھسوٹ کا شکار ہوجائے گا، جس طرح معمر قذافی، حسنی مبارک جیسے عیاشیوں کو ذلیل کر کے گولیوں سے بھون دیا گیا، ویسے ہی یہ بھی کسی گلی کی نالی میں مرے پڑے ملیں گے؛ کیونکہ شاعر مشرق علامہ اقبال نے ان سے کہہ دیا تھا:

کرے یہ کافرِ ہندی بھی جرأت گفتار

اگر نہ ہو امرائے عرب کی بے ادبی!

 

یہ نکتہ پہلے سکھایا گیا کس اُمّت کو؟

وصال مصطفوی، افتراق بُولہَبی!

 

نہیں وجود حدود و ثغور سے اس کا

محمد عربی سے ہے عالم عربی!

 

 

[email protected]

7987972043

09/05/2021

Comments are closed.