"صنفِ نازک”

 

زنیرہ ارشد(سیالکوٹ)

بیٹیوں کو صنفِ نازک کہا جاتا ہے اور صرف کہا نہیں جاتا بلکہ اپنے رویے سے باتوں سے انھیں اس بات کا احساس دلایا جاتا ہے کہ تم نازک ہو، کومل ہو، نادان ہو، کمزور ہو اُن کی پرورش اُس حساس جل پری کی مانند کی جاتی ہے جِسے ہاتھ لگائیں گے تو ڈر جائے گی، باہر نکالیں گے تو مر جائے گی۔بیٹی سب بہن بھائیوں میں بڑی ہو، چھوٹی ہو یا اکلوتی ہو، ہر صورت میں اس کو اپنی بھر پور توجہ کا مرکز بنایا جاتا ہے اور اُس پر اپنی تمام تر محبتیں وار دی جاتی ہیں۔ گھر میں کھانے پینے سے لے کر پہننے اوڑھنے تک صرف اُس کی پسند کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ اس کے اوپر کوئی پابندی نہیں عائد کی جاتی اور دیکھتے ہی دیکھتے بیٹی جوان ہو جاتی ہے اور اُس کی نسبت کسی کے ساتھ طے کر دی جاتی ہے اور اِس کے ساتھ ہی ماں کی فکر کا مرحلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ماں گھریلو کاموں میں بیٹی کا حصہ ڈالنا شروع کرتی ہے جس میں گھر کی ترتیب سے لے کر کھانا بنانا ہر کام شامل ہوتا ہے۔

جس بیٹی کو رویوں کی سختی کا علم نہیں ہوتا ماں اُس کی بھلائی کے لیے اُس کے ساتھ کبھی کبھار سخت رویہ استعمال کرنے لگتی ہے تا کہ بیٹی میں برداشت کی قوت پیدا ہو، وہ بیٹی جس کی پسند نا پسند ہی گھر والوں کا پہلا انتخاب ہوا کرتی تھی آج اس میں کمی بیشی کی جانے لگتی ہے۔ وہ بیٹی جس کی ٹیڑھی روٹی بھی پیار سے کھا لی جاتی تھی آج وہ "اگلے گھر میں گزارا کیسے کرو گی” جیسی بات بن جاتی ہے۔ وہ بیٹی جس کے پہننے اوڑھنے پر کبھی روک ٹوک نہیں تھی آج اُس پر سوال کیا جانے لگتا ہے۔

وہ بیٹی جگر کا ٹکڑا آج بھی تھی، وہ بیٹی آنکھ کا تارا آج بھی تھی محض اُس کے فکر و پیار کے پیمانے تبدیل کر دیئے گئے تھے۔ بیٹی کو اب والدین کی آنکھوں میں اُس کی رخصتی کا غم اور اگلے گھر میں بَس جانے کی فکر اور بھائی کے کندھوں پر جہیز کا بوجھ نظر آنے لگتا ہے۔ بیٹی کی حساسیت میں پہلے سے کمی آ جاتی ہے اور گھر والوں کی نظر میں وہ پہلے سے سمجھ دار ہو رہی ہوتی ہے۔ بیٹی کے ہنسی مذاق میں کمی کو ماں اُس کے شرم و حیا میں اضافہ سمجھ رہی ہوتی ہے۔ بھائی کے ساتھ اب بات بات پر بضد نہ ہونے اور باپ کو بے جا فرمائشات نا کیے جانے کو باپ اور بھائی اُس میں ہونے والی مثبت تبدیلی سمجھتے ہیں۔ سب کی نظر میں اب وہ پہلے سے باوقار، باحیا، سمجھدار، فکر مند اور اچھی بیٹی بن جاتی ہے لیکن کوئی بھی یہ نہیں سمجھ پاتا کے اِس سب میں اُس کا اپنا آپ کہیں بہت پیچھے چھوٹ رہا ہے، اُس کی معصومیت کم ہو رہی ہے۔ اُس کے اوپر گھر والوں کی اس کے لیے کی جانے والی مثبت تبدیلیاں ہی اُس پر منفی بن کر اثر انداز ہو رہی ہیں۔ اُس کے ذہن پر پختگی کے ٹھپے لگ رہے ہوتے ہیں وہ سمجھ دار نہیں ہو رہی ہوتی بلکہ یہ سمجھتی ہے کہ اِس دنیا میں صرف گول روٹی بنانے والی لڑکی ہی کامیاب ہے اور اگر غلطی سے بھی روٹی ٹیڑھی ہو گئی تو اُسے اُس کے درجے سے نیچے گِرا دیا جائے گا۔

بیٹیوں کی صفت ہے صنفِ نازک، اِسے صرف اُن کی صفت ہی رہنے دیں، اِس چیز کو اُن کے کردار میں شامل نہ کریں۔ انھیں اپنے رویے سے، اپنے عمل سے سمجھائیں کہ تم نازک نہیں ہو، کمزور نہیں ہو، تمھیں اپنا کوئی بھی کام کرنے کے لیے دوسروں کے سہارے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہیں خود مختار بنائیں۔ انھیں ہر گز اِس بات کا احساس مت دلائیں کہ تم نادان ہو اور تمہاری کسی غلطی کو نادانی سمجھ کر درگزر کر دیا جائے گا بلکہ انہیں یہ سمجھائیں کہ تم کم سِن نہیں ہو، تم نے والدین کی عزت کو برقرار رکھتے ہوئے سمجھداری کا ثبوت پیش کرنا ہے تم نے کسی خاندان کی نسل کو آگے بڑھانا ہے جس کے لیے تمہارا پاک دامن ہونا بہت ضروری ہے اور تم نے حساسیت جیسی خصوصیات سے باہر نکل کر اپنی منزل کو پانا ہے۔ بیٹی کی پرورش کبھی بھی بیٹے کی طرح مت کریں، انھیں ہرگز احساس نہ دلائیں کہ تم میرا بیٹا ہو، اگر ایک لڑکی کو آپ لڑکوں جیسے کپڑے بھی پہنا لیں تو پھر بھی وہ لڑکی ہی رہے گی مگر اِس کا نقصان یہ ہو گا کہ وہ اپنی شخصیت میں بھی پوری طرح نہیں ڈھل سکے گی، ضرورت اِس امر کی ہے کہ بیٹی کو بیٹی کی طرح ہی پالیں اُسے اُسکی شخصیت میں ہی ایک مکمل اور مضبوط انسان بنائیں۔ہم مشرقی لڑکیاں ہیں ہمارا گزارا گھر کے کاموں کو سمجھے اور کیے بغیر نہیں ہو سکتا اِس لیے بیٹیوں کو شروع سے ہی گھر کے کاموں میں ملوث کریں، ایسا نہیں کے ان پر سارا بوجھ ڈال دیں محض ان کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس کرواتے رہیں تا کہ وقت آنے پر وہ اِن چیزوں کو خود پر بوجھ نہیں بلکہ اپنی زندگی کا حصہ سمجھیں۔

الله تعالیٰ ہر بیٹی کو اپنے والدین کے لیے باعثِ فخر بنائے اور ہر ماں باپ کو اپنے بچوں کی اچھی پرورش کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین!

Comments are closed.