ماں کا مقام   

نام: ام احمد (سرگودھا)

ایک لفظ ہوتا ہے ”مان“ جس میں بے انتہا وسعت ہے۔ یہ جب کسی دوسری ذات یا ہستی پہ ہوتا ہے تو اس میں اس چاہنے والے پہ حق،پیار،محبت،دکھ سکھ ،ناراضگی ،غم و غصہ،اپناٸیت،اور تابعداری جیسے اور کٸی جذبات جتاٸے جاتے ہیں۔ اور آفرین ہے اس شخص پہ جس نے اس لفظ پہ موجود نقطے کو مٹا کر ایک نیا لفظ ایک نیا نام اور ایسے معنی دے دیے، جس کے آگے دنیا کی کسی ہستی کی کوٸی اوقات نہیں رہ جاتی جی ہاں!آپ ٹھیک سمجھے وہ لفظ ”ماں“ ہی بنتا ہے۔ (عربی میں اُم، ہندی میں اماں ،انگریزی میں ممی یا ماما، فارسی میں مادر اور اردو میں اَمّی ان سب کا ماخذ لفظ ”ماں“ ہی ہے )جس میں سے نقطہ مٹ جانے کے بعد اس میں کسی کمی کی بجاٸے اور کہیں زیادہ وسعت پیدا ہو جاتی ہے جس کی آج تک کوٸی اور لفظ مکمل طور پہ وضاحت نہیں کر پایا۔ یہ لفظ سمندروں سے گہرا،پربتوں سے بلند اور کاٸنات سے زیادہ وسیع ہے۔ اور اس کی وجہ اس کو بنانے والی پاک اور عظیم ذات ہے۔ جس نے اس کے وجود کو انسان کی تخلیق کازریعہ بنا کر اس سہہ حرفی لفظ کے ہر حرف میں ہی دنیا کے اتنےقیمتی اور انمول جذبات سمو دیے ہیں کہ اس کا ایک ایک جذبہ ایک ایک خوبی اپنے اندر ایک کامل وجود رکھتے ہیں۔

جیسا کہ ”م“ سے محبت، مترنم مسکراہٹ، معصومیت، مسحور کن، مُشفق، مشرف، مُشک، مضبوط، مطیع اور معتبر جیسی اور بے شمار صفات اسی ایک حرف میں ہوتی ہیں۔

اس کے بعد ”ا“ سے ابدا(پیدا کرنے والی)، ابرِ رحمت ایثار،اجمل،احد(ایک ہی)،احساس، ارفع، اشرف، اشفاق، اطاعت گزار،اعتبار ،اعتماد،اعزاز،افضل

،افصح ،اقدار،امید،انیس اور ایسی ہی بہت خوبیاں شامل ہیں۔

اس کے بعد حرف تھا ”ن “ جس کی اداٸیگی میں سختی کا گمان ہوتا ہے۔ اس سختی کو نرمی میں نقطے کی کمی نے بدل دیا۔ جیسے ہی لفظ ”ماں“زبان سے ادا ہوتا ہے ،لب یوں ملتے ہیں گویا یہ برسوں سے بچھڑے تھے۔ اس لفظ کو ادا کرتے اور سنتے ہی ریشم سی نرمی کا احساس ہوتا ہے۔ اب انہی اوصاف کی کچھ تفصیل ایسے ہے کہ انسان جب اس دنیا میں پہلی سانس لیتا ہے تو اس وجود کو پانے کے لیے بے چین ہونے لگتا ہے جس کی دھڑکنوں کے گیت اس کے کانوں نے نو ماہ تک سنے ہوتے ہیں اور جیسے ہی اس کے کان اس آواز سے دور ہوتے ہیں تو اس کو کھونے کے خوف اور پانے کی چاہ میں اس کی قوتِ گویاٸی وجود میں آ جاتی ہے۔ اور جو صرف سننے کی طاقت رکھتا ہوتا ہے اس لمحے اپنے منہ سے پہلی آواز شدت سے ام ام مم مم اور آخر کار ”ماں“ لفظ بول کے ہی نکالتا ہے۔ ”اُم“ عربی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ماں یہ لفظ قرآن میں 84 مرتبہ آیا ہے۔ اس کی جمع اٰمَّہَات ہے جو قرآن میں گیارہ مرتبہ آیا ہے۔

بچہ شروع میں جب اُم کہتا ہے تو اس کا مطلب ”ماں“ ہی سمجھا جاتا ہے”اُم“ دراصل یہ تین حروف ہیں۔ ا+م+ م اور اس کا مطلب حقیقی ماں اور ماں جیسی مطلب نانی،دادی کو بھی بولا جاتا ہے۔ خلیل نحوی کا قول ہے ” کہ ہر وہ چیز جس کے اندر اس کے جملہ متعلقات سما جاٸیں اُم کہلاتی ہے ۔

جیسے لوحِ محفوظ کو ام الکتاب ،خطہء عرب کا مرکز مکہ مکرمہ ام القری اور ستاروں کی کہکشاں کو ام النجوم کہا جاتا ہے۔ مقصد کلام یہ کہ ماں ایسی ہستی ہے جس میں اولاد کے تمام متعلقات موجود ہوتے ہیں چاہے اس کی ماں دنیا کی کوٸی بھی زبان بولتی ہو۔ جیسے ہی اس کو ماں اپنے سینے سے لگاتی ہے وہ پرسکون ہو کر نیند کی وادیوں میں اتر جاتا ہے۔ اس کو تحفظ کا یہ احساس پوری زندگی اسی وجود سے ملتا ہے۔ اس سے ماں کی عظمت اور اس کے وجود کی اہمیت کا اندازہ کریں کہ اللّٰہﷻ نے کیا رتبہ دیا اس ہستی کو کہ اس میں اپنی ہی بہت سی صفات شامل کر دیں۔ ماں کے وجود کو ایک بے بس وجود کی بھوک مٹانے کا زریعہ بنا دیا۔ اس ننھے وجودکی حفاظت کی رات دن کی زمہ داری کا احساس ماں کے دل میں پیدا کر دیا۔ اس کے بتاٸے بغیر اس کی ہر ضرورت کی خبر ماں کے دل میں ودیعت کر دی جاتی ہے کسی علمِ غیب کی طرح کہ خود ماں بھی نہیں جانتی کہ اس کو کیسے خبر ہو جاتی ہے۔ ایک ذرا سی تکلیف کا احساس بھی ماں کے دل کو اولاد سے زیادہ بےچین کر دیتا ہے یہ راز اس باری تعٰا لٰی نے کسی پہ نہیں کھولا۔ بچے کو ہر حاجت کے لیے ماں کو پکارنا ایسا ہی ہے جیسے کسی تکلیف میں انسان رب کو پکارتا ہے۔ پورے یقین اور مان کے ساتھ کہ وہ اس کی مشکل آسان کر دے گا اور اس کے علاوہ کوٸی اس کی مدد نہیں کرسکتا۔ ایسا ہی اعتماد اور بھروسہ بچے کے دل میں ماں پہ ہوتا ہے کہ اگر وہ اس کو ہوا میں اچھال دے تو اس کو گرنےکا خوف نہیں ہوتا کہ اس کی ماں ہے اس کی حفاظت کرے گی۔ اتنا ہی نہیں اللّٰہﷻ نے تو جنت ہی اس کے قدموں میں لا کہ رکھ دی ۔یہ رتبہ عورت کے نصیب میں لکھ کر اس کی بلندی اور معراج کو ثابت کر دیا۔

یہ بے لوث محبت کا وہ انمول رشتہ ہے جس کے خلوص پہ کوٸی شک کرنے کا گناہ کرے تواپنے وجود کی ہی وقعت کھو بیٹھے گا۔ جس کے پاس ماں جیسی دولت ہوتی ہے وہ اس دنیا کا خوش نصیب انسان ہوتا ہے۔ انسان کو دنیا اس کی خوبیوں اور خامیوں کی بنا پہ پرکھتی ہے۔ بس یہ وہ واحد ہستی ہے اس دنیا میں جو اس سے خوبیوں اور خامیوں سمیت محبت کرتی ہے۔ چاہے اولاد اس کی فرمانبردار ہو یا پھر نا فرمان اور یہ وصف بھی خدا کی ذات سے عطا ہوا ہے کہ وہ صرف عبادت گزار اور اپنے ماننے والے کو ہی نہیں نافرمان کو بھی رزق دیتا ہے اور اس کی ہر حاجت پوری کرتا رہتا ہے۔ ماں کو اپنی اولاد دنیا کے ہر خوبصورت اور حسین سے بھی زیادہ حسین لگتی ہے کیونکہ وہ اس کو اس محبت سے دیکھتی ہے جو اس کے دل میں اس کے لے موجود ہوتی ہے۔ قرآن میں ارشادِ باری تعالٰی ہے

” اَنِ اشْکُرْلِی وٙلِوٙالِدٙیْکَـ ’’حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا۔‘‘

والدین کے حقوق کی بات جس جگہ پہ ہوئی ” ماں ”

کا نام پہلے اسی لیے آتا ہے کہ ماں کا حق دوگنا ہے۔ ماں ہونا ہی ایسا عظیم حق ہے جس سے کبھی کوئی بری الذمہ نہیں ہو سکتا ۔

بو علی سینا نے کہا: اپنی زندگی میں محبت کی اعلٰی مثال ”میں نے تب دیکھی، ”جب سیب چار تھے اور ہم پانچ۔ تب میری ماں نے کہا، مجھے سیب پسند ہی نہیں۔“

ماں کی تعریف میں عالم کا ایک دن تو کیا ایک عمر بھی کم پڑ جاتی ہے۔ اللّٰہﷻ ہم سب کو اس انمول ہستی کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرماٸے۔

Comments are closed.