تری رگوں میں وہی خوں ہے، قم باذن اللہ!!
قضیہ فلسطین؛ آج کی صورتِ حال

محمد صابر حسین ندوی
آج پھر دوپہر کے بعد اسرائیلی فوجوں نے قتل و غارتگری شروع کردی ہے، وہ یکا یک بادل کی طرح چھاگئے، اور پوری مسجد کو تاریک کردیا، پچھلے ہفتے سنگین صورتحال اور لگاتار رساکشی کے درمیان آج مسجد اقصی کے اندرونی حصے میں فلسطینیوں کو نشانہ بنایا گیا، طاقت کے نشے میں فوجیوں نے سب کچھ کیا، ایسا لگتا تھا کہ وہ آن کی آن میں مسجد کو ویران صحراء میں بدل دیں گے، فرش بچھی جاں نمازیں گردآلود بلکہ خون آلود تھیں، مسجد کے نقش و نگار گم تھے، انسان کو انسان نہیں دکھ رہا تھا، ہاتھ کو ہاتھ نہیں سوجھ رہا تھا، گولیاں براش کی طرح برس رہی تھیں، اور فلسطینی عشق الہی سے چور، محبت سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) سے سرشار پتھر، لوہے، ڈنڈے، نعرہ تکبیر اور سب سے بڑھ کر جوش جہاد سے یونہی نہتے گتھم گتھا ہو رہے ہیں، سنگ باری بھی بھاری تھی کہ فوجی پیچھے ہٹے جاتے تھے، مسجد کے در و دیوار اور ستون زرہ کا کام کر رہے تھے، ان سب پر الجزیرہ کی براہ راست اشاعت دیکھی، دل خون کے آنسو رونے لگا، آنکھیں اشکبار ہیں، جسم میں غم و غصہ اور عیرت کی ترنگیں اٹھ رہی ہیں، مگر کیا کیا جائے؟ یہ دیکھ کر سینہ فخر سے چوڑا ہوا جاتا ہے؛ لیکن ساتھ یہ فکر دامن گیر ہے کہ مٹھی بھر جماعت قبلہ اول کی حفاظت کرنے کیلئے ایسے کھڑی ہے کہ اگر اس جماعت کو شکست ہوجائے تو مسلمانوں کی آبرو چلی جائے، اسلام کا علم اٹھائے ان نوجوانوں کو اسرائیلی غندے نگل گیے تو ہم اللہ تعالی کو کیا منہ دکھائیں گے؟ وہ جانباز مرد و خواتین، بچے اور بوڑھے متاع بے بہا درد و سوز آرزو لیکر مقام بندگی پر فائز ہیں اور شان خداوندی کا نظارہ کر رہے ہیں، پوری مسجد دھوئیں سے بھر گئی ہے، فوجیوں کی جانب سے ربڑ گولیاں، گیس اور چھرے داغے جارہے ہیں، چہرہ چہرہ لہو لہان ہورہا ہے، بدن کے جون رِستا جارہا ہے، ہاتھوں میں ہتھکڑیاں بھی ڈال دی گئی ہیں، دونوں بازؤں کو پیٹھ سے لگا دیا گیا ہے، وہ سانس لینے پر بھی ادائیگی کر رہے ہیں؛ پھر بھی وہ مسکراتے ہوئے جام شہادت نوش کر رہے ہیں، بنت حوا کو اغوا کیا گیا، وہ چہرے پر مسکان لئے اللہ تعالی کی جانب دیکھتے ہوئے امید فزاں قدموں کے ساتھ فوجیوں کے درمیان چلی جارہی ہے، چند بچوں کو پکڑ لیا گیا ہے، وہ ابابیل کی طرح چونچ میں ایک ٹکڑا پتھر کا لئے ہوئے برس رہے ہیں اور اسرائیلیوں کے سینے زخمی کر رہے ہیں، کچھ شاہین ہیں جو جھپٹ رہے ہیں اور گنبد صفراء کی لاج رکھ رہے ہیں، اپنی جان تشتری میں سجائے قبلہ اول کی محبت میں ظالموں کے سامنے پیش کر رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ غیب سے ان کے کانوں میں قم بإذن اللہ کی صدائیں آرہی ہیں اور وہ اپنا سب کچھ چھوڑ کر اس پر لبیک کہتے ہوئے بڑھے جارہے ہیں، انہیں پرواہ نہیں کہ کس کروٹ ان کی صبح ہوگی؛ لیکن انہیں یقین ہے کہ جنت کی وادیاں ان کی منتظر ہیں، بہشت کے حسین مناظر باہیں پھیلائیں تیار ہیں، اور سب سے بڑھ کر جانم فدا نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں ان کا انتظار ہورہا ہے، آپ بھی اقبال کی آواز میں اس صدا کو سنیے!
جہاں اگرچہ دگر گوں ہے ، قم باذن اللہ
وہي زميں ، وہی گردوں ہے ، قم باذن اللہ
کيا نوائے ‘اناالحق’ کو آتشيں جس نے
تري رگوں ميں وہی خوں ہے ، قم باذن اللہ
غميں نہ ہو کہ پراگندہ ہے شعور ترا
فرنگيوں کا يہ افسوں ہے ، قم باذن اللہ
بعضوں کے ہاتھ شل ہوگئے، چہرے خون سے شرابور ہوگئے، مائیں چیج رہی ہیں، عشق رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) میں قدم ڈگمگاتے نہیں لیکن امت مسلمہ کی بے حسی، بے التافتی اور عیش پرستی پر نالاں ہیں، وہ آزادانہ، سینہ ٹھونک کر کھڑی ہیں، فوجی تشدد کر رہے ہیں، زد وکوب کر رہے ہیں، صنف نازک پھر بھی پہاڑ بنی ہوئی ہیں، انہوں نے گویا زندہ دل ناصبور ہیں، وہ مے خودی کا ابدی سرور پاچکی ہیں، فرشتہ موت بھی بھلا ان کے بدن کیا چھوئے گا، گو بدن ان کا ان کے وجود سے کے مرکز سے دور رہتا ہے، ایسے میں وہ پکار رہی ہیں اے عرب اور اے امت مسلمہ کے جیالوں! تم کہاں کھو گئے ہو، دنیا کی چکا چوندھ میں تم نے قبلہ اول کو اسرائیل کے حوالے کردیا، وہ دیکھو ہم پر ظلم کر رہے ہیں، ہمارے دوپٹے چھین رہے ہیں، ہمیں ہماری مقدس مقام سے بھگایا جارہا ہے، شیطانوں کا ٹولہ "أسس للتقوی” کے مقابل غرا رہا ہے، وہ دندناتے پھر رہے ہیں، اور ناپاک قدموں سے تمہاری ناموس کو روند رہے ہیں- اسی طرح ایک مسجد سے نعرہ لگایا جارہا ہے کہ اے صلاح الدین تم کہاں ہو؟ تمہارا انتظار ہے! تم نے جس بیت المقدس کو صہیونیوں کے چُنگل سے آزاد کروایا تھا اسے پھر سے ظالموں نے اپنے پنجوں میں دبوچ لیا ہے، اے صلاح الدین! دیکھو تمہاری عزت اچھالی جارہی ہے، امت مسلمہ کا وقار مجروح کیا جارہا ہے، قبلہ اول کو لوٹا جا رہا ہے، آہ— سینکڑوں نظارے آنکھوں کے سامنے ہیں کس کس کا تذکرہ کروں، وہ دیکھو! اب مسجد اقصی کے صحن میں فوجی منڈلا رہے ہیں، وسیع و عریض جگہ کو گھیر لیا گیا ہے، اور خونی کھیل کھیلا جارہا ہے، اے میرے مولا! دل دکھ رہا ہے، سینک پھٹا جارہا ہے، آخر ہم کتنے مجبور ہیں، ہمارے ہاتھ پیر کس کام کے ہیں؟ اگر ہم معراج نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) کا پڑاؤ اور عمر (رضی اللہ عنہ) کے عشق کی حفاظت نہ کرسکیں، دنیا دار فلسطین میں جاری خون آشام صورتحال پر خموش ہیں، اقوام متحدہ کہتا ہے کہ اسرائیل نوٹس لے! ترکی کے صدر جناب رجب طیب أردوغان مدظلہ نے اسرائیل کو دہشت گرد ملک قرار دیا ہے، اور مذاہب ثلاثہ (یہودی، عیسائی اور مسلمان) کے مشترکہ مقام مقدسہ کی حفاظت اور فلسطینیوں کے تحفظ کی بات کی ہے- پاکستان بھی آواز بلند کر رہا ہے؛ لیکن کہاں ہیں وہ لوگ جو امن و آشتی کے نام پر بیت المقدس کا سودا کرنے چلے تھے، آج ایک خاتون نے عرب کو للکارا، انہیں مردانگی کا واسطہ دیا؛ جنہیں دیکھ کر لگا کہ اُفف – – یہ کیسے عرب ہیں؟ جن کی داستان دیوان حماسہ میں پڑھتے ہیں کم از کم وہ جاہلیت کی حمیت بھی نہ بچی، اسلام کی غیرت کا سودا تو کر ہی چکے تھے کاش انسانیت ہی کی بنیاد پر لب کشائی کر لیتے! مگر کہتے ہیں:
اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں
فیضان محبت عام سہی، عرفان محبت عام نہیں
[email protected]
7987972043
Comments are closed.