مظلوم اہل فلسطین کامسلم حکمرانوں کے نام مکتوب

عبدالرافع رسول
مسلمان ممالک کے حکمرانو!
اہل فلسطین اورقبلہ اول مسجداقصیٰ کے محافظین کی طرف سے تمہارے نام اس مکتوب کامقصود ہرگزیہ نہیں کہ ہم تمہارے سامنے اپنا رونا روئیں اورنہ اس سے مطلوب یہ ہے کہ ہم تمہیںاپنابپتاسنائیں کیوں کہ قبلہ اول مسجداقصیٰ کے اندراوراسکے صحن سے لیکرغزہ کی پٹی تک جوکچھ ہمارے ساتھ ہورہاہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ تم توٹی وی سکرینوں پراس کاخوب نظارہ کررہے ہواورہمارے رقص بسمل سے خوب لطف اندوزہورہے ہو۔البتہ اس مکتوب کے ذریعے خواہش ہے کہ تمہاری بے شرمی پر تمہیں یہ بتادیں اورآپ تک اپنایہ بلیغ پیغام پہچائیں کہ ہم اس امراورتمہارے عمل سے خوب واقف ہیں کہ تم نے ہمیں چیرپھاڑ کے لئے یقینا اسرائیلی کتوں کے سامنے چھوڑ دیا۔لیکن ہم اس کے باوجود بے سہاراہرگزنہیں ۔ہمارا سہارا،ہمارا اللہ ہے ۔اگرتمہیں اس میں کوئی شک تھا توتم ان دنوں میں ایک بارپھراسرائیلی کتوں کے سامنے بے تیغ ہوکراوربے سروسامانی کے عالم میں ہمارے جھپٹ کر پلٹنے اورپلٹ کرجھپٹنے اورہماری جونمردی ،جرات اورہمت کودیکھ رہے ہو۔
مسلمان ممالک کے حکمرنو!
کہنے کو تم57 مسلمان ممالک کے سربرہان ہو۔لیکن تم میں غیرت مسلمانی اور حمیت اسلامی مکمل طورپر مفقودہے ۔کہنے کو تم مسلم امہ کے ترجمان ہو لیکن تم عملی طورپر امہ کے دشمنوں کے آلہ کارہو۔ تم ہماری لاشوں،لہوسے شرابورہمارے وجود،ہماری مظلومیت ،ہمارے کراہنے ،ہماری آہ بکا،ہماری چیخ وپکار ،ہماری آہوں اورسسکیوں،ہماری خست حالی ،ہماری لا چارگی اوربے چارگی سے جس طرح نظریں چراتے ہوہم اسے بخوبی باخبراوراچھی طرح واقف ہیں البتہ ہمیں تم سے اس حوالے سے کوئی گلہ نہیں کیونکہ تم ہمارے نہیں غیروں کے ہو، امہ مسلمہ کے بجائے تم اغیارکے وفادار اورتابع فرمان ہو۔تمہاری بزدلی کی وجہ سے آج امت مسلمہ کا وجود عدم وجود میں بدل گیاہے، تمہاری وجہ سے اس نے اپنے عظیم جثہ کی نفی کر دی ہے ،وہ عزت کی موت کو گلے لگانے کے بجائے ذلت کی موت کو خوش آمدید کہہ رہی ہے ۔ تمہاری مردہ ضمیری کے باعث مسلم امہ آج ایک واہمے اور ایک سراب سے کم نہیں،اس کا وجود ہے بھی اور نہیں بھی ہے۔ وہ جب سڑکوں پر نکلتی ہے تو اس کا دیوہیکل وجودنظر آتا ہے لیکن جب یکلخت تم اسکی خواہش اور مطالبے کوبلڈوزکرکے کچلاتے ہو تو اس کا وجود پھرکہیں بھی نظر نہیں آتا۔
مسلمان ممالک کے حکمرانو!
کرہ ارض پر پھیلے ہوئے پانچ ارب انسانی نفوس میں ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلمان ہیں لیکن تمہاری منافقت نے اس سواداعظم کورسوائی کی قعرمذلت میں پٹخ دیاہے۔چاردانگ عالم ہر دن مسلمان قتل ہو ر ہے ہیں ،ان کی عزتیں پامال ہو رہی ہیں مگرتمہاری بے حسی کی چادر اوڑھنے کی وجہ سے فضائے بسیط میں مکمل سکوت طاری ہے۔اس فسانہ غم کا سب سے تاریک پہلو یہ ہے کہ تم اپنے ہی ممالک میں اپنے ہی بھائیوں اپنے ہی برادران وطن کے خلاف برسرپیکارہوکرانہیں نیست ونابودکررہے ہو۔ تمہارے ہاتھ خون مسلم سے تربتر ہیں ۔ ہم تمہارے سامنے اپنارونانہیں روئیں گے کیونکہ آج سرزمین فلسطین پراسرائیل خون کی جوہولی ہمارے ساتھ کھیل رہاہے اس کے پیچھے تمہارے ہاتھ کارفرماہیں۔اغیارجہاں چاہیں تمہاری مرضی و رضا مندی سے بمبارمنٹ کرکے مسلمانوں کی آبادیوں کوصفحہ ہستی سے مٹارہے ہیں۔ نااہل، ظالم اور اسلامی غیرت و حمیت سے عاری مسلم حکمرانو!افسوس صدافسوس کہ اغیار سے تمہاری ملی بھگت سے ہم مظلوم سے مظلوم ترین بنتے چلے جارہے ہیں لیکن اس عالم میں ہمیں جس بات نے دکھ پہنچایاوہ یہ ہے کہ اغیارکی شناخت واضح ہے لیکن تمہاری پہچان غیرواضح،مذبذب اورمنافقانہ ہے۔
مسلمان ممالک کے حکمرانو!
جب تم اپنے ہی بھائیوں اوراپنے ہی برادران وطن کابے دریغ قتل عام کررہے ہوتو پھرہماری یعنی فلسطینی مظلوم مسلمانوں کی حالت زار دیکھ کرتمہارادل کیسے پسیچ جائے۔ تمہارا طرز عمل اور رویہ ہر اہل ایمان کے دل کو خون کے آنسو رلاتی ہے کیا تمہیں خبر نہیں کہ تم سے پہلے ایسے جری اوربہادر مسلمان حکمران گذرے جو اتنے غیرت مند اور انسانی قدروں کے پاسدار ہوا کرتے تھے کہ ایک مظلوم عورت کی داد رسی کی خاطر عرب سے ہند آ کر سندھ کے راجہ داہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے اور اس عورت کے ساتھ عدل کا معاملہ کرتے ہوئے انسانیت کو سربلندی عطا کرتے تھے، مظلوموں کی آواز پر لبیک کہنا جن کا قومی و دینی شعار تھا۔
مسلمان ممالک کے حکمرانو!
انہی مسندوںپرآج تم سریرآرائے اقتدارہواورتمہاراحال یہ ہے کہ اقصیٰ کی بیٹیاںتمہیں باربار مدد کے لئے پکار رہی ہیں مگر تم حال مست مال مست ہوکرلمبی تان لئے بیٹھے ہو،درازپڑے ہو۔مظلوم مسلمانوں کے کرب ناک حالات سے کنی کتراکرتم اغیارکے اشاروں پررقصاں ہونے پر فخروانبساط محسوس کرتے ہو۔اغیارکے حکم کی بجاآوری کے علاوہ تمہاراکوئی مقصدحیات یامقصود اقتدارنہیں۔ تم میں سے کسی نے جمہوریت کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے، کوئی آمریت کے تخت پر بیٹھا ہے، کوئی بادشاہت میں کھیل رہا ہے اورکرداروعمل کے اعتبارسے تم سب ایک جیسے ہو، ایک ہی آقا امریکہ ، ایک ہی صدر کے تابع فرمان اور ایک ہی درجے کے غلام ہو ۔
مسلمان ممالک کے حکمرانو!
آج دنیا بھر کے مظلوم مسلمان جن بدترین حالات سے گذر رہے ہیں اس کی مثال تاریخ میں شائد ہی ملے۔ اسلام اور اس کے ماننے والے آج جن مصائب میں گرے ہوئے ہیں اورجن زہرگداز خطرات کا سامنا کررہے ہیں ایسے خطرات سے ملت اسلامیہ کبھی دوچار نہیں ہوئی تھی حتیٰ کہ چنگیزاورہلاکوکے دورمیں بھی نہیں۔ہائے! صلاح الدین ایوبی جیسا مرد مجاہدکیوں نہیں آتا ۔ صلاح الدین ایوبی تو دور کی بات ہے، تم میں سے کوئی حجاج بن یوسف بن کربھی سامنے نہیں ہے جو انتہائی ظالم وشقی القلب ہونے کے باوجود بھی غیرت ملی اور حمیت اسلامی سے نا آشنا نہیں تھا۔ سندھ کے راجہ داہر کی زیر سرپرستی سرگرم عمل بحری قزاقوں کے عرب تجارتی قافلوں پر حملے قتل و غارت گری اور دیگر مظالم کی عرب بیوائوں اور یتیموں کی فریاد سن کر حجاج بن یوسف تڑپ اٹھا اور محمد بن قاسم کو راجہ داہر اور اس کے ظالموں کی سرکوبی کیلئے فوری روانہ کیا ۔
مسلمان ممالک کے حکمرانو!
ہم اہل فلسطین تم سے کیونکر اپنی مظلومیت سنانے بیٹھیں ! تم تووہی ہوناکہ جب عالمی غنڈے امریکہ اور اس کے دم چھلے عراق کو برباد کر رہا تھے۔ ہزاروں کلومیٹر دور سے آ کروہ بغداد کا امن تاراج کر رہا تھے۔جب امریکہ نہتے بے گناہ افغانیوں کے لہو سے اپنے ہاتھ رنگ رہا تھا جب ڈیزی کٹر اور نیپام بم افغانستان کی بستیوں کو بھسم کر رہے تھے، تو را بورا میں انسانی جسموں کا قیمہ بنایا جا رہا تھا اور قلعہ جنگی میں افغانی مسلمان مٹائے جا رہے تھے، ابو غریب جیل میں انسانیت کی تذلیل کی جا رہی تھی ، بگرام کے ایئر بیس پر انسانوں کی کھال ادھیڑی جا رہی تھی اور گوانتاناموبے میں نازی مظالم شرما رہے تھے۔تو تب خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے،اس وقت جب تمہاری غیرت نہ جاگ سکی توآج جب مسجداقصیٰ اورغزہ لہولہوہے تم اپنی خوابیدگی سے کیسے جاگ سکتے ہو ۔’’تمہیں یاد ہوکہ نہ یاد ہوہمیں یاد ہے ذراذرا‘‘
مسلمان ممالک کے حکمرانو!
امریکہ اوراس کے صلیبی اتحاد کی افواج ہزاروں کلومیٹر دور سے آ کر مسلم ممالک کی سر زمین مسلمانوں کے خلاف استعمال کرتے رہے۔ اوران کے سامنے تم مٹی کے مادھو بنے رہے ،عراق اور افغانستان کے چاروں اطراف پھیلے مسلم ممالک کے تم بے حس حکمرانوں کواس جرم کو روکنادورکی بات تم توعملا عالمی غنڈے کے دست و بازو بن گئے اورعصر حاضر کے فرعون کو اپنے کندھے پیش کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کی ۔تمہاری اس بزدلی اورمردہ ضمیری کودیکھ کر عالمی غنڈہ امریکہ ہر قسم کے قانون اور اخلاق سے عاری ان دو مسلم ممالک کو اس طرح نشانہ بناتا رہاکہ ہرطرف خون بہہ رہاتھااورمسلمانوں کی لاشیں بکھری پڑیں تھیں۔تم ہی کہوکہ وہ کون سا خلیجی ملک تھا جس نے بغدادکی تباہی اوربربادی کے لئے اپنی سر زمین، سمندر اورفضائیں فخر کے ساتھ امریکہ کو پیش نہیں کیں،جبکہ پرویز مشرف نے اپنے فوجی ایئر بیس پیش کرکے اپنی آخرت اورعاقبت تباہ کرڈالی ؟اس طرح تم نے لاکھوں مسلمانوں کا لہو اپنی گردنوں کا ہار بنا لیا ۔امریکہ تمہاری گردن خم کی چال کودیکھ کرتمہاری گردنوں پر پائوں رکھ کرمسلمان بستیوں اورمسلمانوں کے تاریخی شہروں کو تہہ وتیغ کرتا چلا گیا ۔
مسلمان ممالک کے حکمرانو!
دنیا بھر میں تمہاری وجہ سے مسلمانوںکو جگہ جگہ ظلم وبربریت اور ناانصافی کا سامنا ہے۔ دنیا بھر میں کفر یہ طاقتیں مسلمانوں کو مٹانے کے یک نکاتی ایجنڈے پر متحد ہیں لیکن عالمی بساط پرموجود ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان تمہاری وجہ سے اورتمہاری نحوست کے باعث اپنے آپ کوبچانے کے لیے متحد نہیں ہیں ۔ عالم کفر،یہ بات خوب سمجھتاہے کہ مسلمانان عالم کے اندر کوئی بہادر اورجرات مندقیادت موجود نہیں ،ان پرمسلط شدہ حکمران کرسی کے غلام ،بزدل ،عیش پسند ہیں اور وہ اپنی ناک سے آگے دیکھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ حقیقت یہ ہے کہ سب مسلمان اپنی جان بچانے اوراپنے دین وایمان کے تحفظ کے نظریے پر یقین رکھتے ہیں مگرتم اپنی کھال اوراقتداربچانے کی فکر میں ہو ۔تم بس اسی فکر میں ہو کہ تمہاری باری نہ آنے پائے یعنی تمہارے اقتدارکاخاتمہ نہ ہو لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ تم بھیڑ وں کی طرح بکھرے ہوئے ہوں اور بھیڑیا تمہیں کھانے سے احتراز کرے۔بزم عدو میں یہ طے پا چکا ہے کہ یکے بعددیگرے تم سب کی باری آہی جائے گی بلکہ آچکی ہے ۔کیاتم نے یہ نہیں سناکہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔کیایہ بھی نہیں سناکہ ریت میں سر چھپانے سے خطرات ٹل نہیں جاتے ۔مسلمان ممالک کے حکمرانو!یقین کے ساتھ سنوکہ جوتم بو رہے ہواسے تمہیں کاٹناہی پڑے گا۔تمہارے جاہ وہشم اورڈالروں کی ریل پیل نے تمہیں اندھابناڈالا۔اس حالت میں تمہیں کہاں نظر آئے گا کہ ستم کی سیاہ راتیں تمہاری جانب تیزی سے بڑھتی چلی آ رہی ہیں ۔
مسلمان ممالک کے حکمرانو!
تم سے مظلوم مسلمانوں کا سوال یہ ہے کہ جب بزم عدومیں یہ طے پاچکاہے کہ ایک ایک کرکے تمہاری سلطنتوں ،مملکتوںاورحکومتوں سے اینٹ سے اینٹ بجادی جائے گی تو پھرتم موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے سے کیوں کترا رہے ہو، سسک سسک کر مرنے کے بجائے بہادری کے ساتھ مرنے سے تم کیوں گریزاں ہو ؟ کیاتم میں سے کسی کے پاس اتناشعورنہیں کہ جب تک تم اغیارکی غلامی کرتے رہو گے پتھر کے دور میں داخل ہونے کے خوف میں مبتلا رہوگے اور ذلت کا شکار بھی بنتے رہو گے اورمسلمان بستیوں پر آتش و آہن کی بارش ہوتی رہے گی اورمسلمانوں کاقبلہ اول مسجد اقصیٰ جلتی رہے گی۔مسلمانوں کے شہروں ، ملکوں کی خود مختاری اور آزادیاں یوں ہی پامال ہوتی رہے گی ۔ دنیا میں وہ کون سا قانون ہے جو امریکہ اورنیٹو ،اسرائیل اوراس کے ہم پیالوں کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ جس مسلمان ملک میں چاہیں گھس جائیں ۔ روئے زمین پرجنہوں نے لاکھوں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار ا ہوکیاتمہیں انکی غلامی اختیارکرنے پرشرم نہیں آتی۔ تم نوشتہ دیوار پڑھ لیں قبل اس کے کہ تمہیںمذبح پہنچا دیا جائے ۔
مسلمان ممالک کے حکمرانو!
کیاتم نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھایاتم نے سرے سے تاریخ پڑھی ہی نہیں ،مسلمانوں کی تاریخ بتلارہی ہے کہ ایک وقت تھا جب پوری دنیا پر ان کی فوقیت مسلم تھی۔ تعلیمی و سائنسی، اقتصادی و معاشی ، تہذیبی و تمدنی ہر اعتبار سے مسلمان تمام اقوام سے آگے تھے۔ قوت وطاقت میں انکا کوئی ہمسر نہ تھا ۔ عروج و ترقی میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا ۔ طب و فلسفہ ، سائنس و فلکیات ، نجوم و ہیئت تمام اقسام علوم میں وہ ماہر اور دنیا والے ان کے تابع تھے ۔ ان کی بنائی ہوئی تعلیم گاہیں اور یونیورسیٹیاں سبھی قوموں کے لئے مرجع کی حیثیت رکھتی تھیں ۔ ان کی لائبریریاں اور کتب خانے علم و فن کا سب سے عظیم مخزن شمار کی جاتی تھیں ۔ان کی بنائی ہوئی تاریخی عمارتیں ایسی بے نظیر تھیں کہ دنیا کے ہر گوشے سے لوگ انہیں دیکھنے آیا کرتے تھے۔ ان کی تہذیبی و تمدنی اقدار دنیا والوں کے لئے مثال تھیں ۔ قوت و شوکت کا یہ عالم تھا کہ دنیا کی دیگر تمام قومیں ان کے آگے سر جھکاتی تھیں اور ایسا کیوں نہ ہوتا آخر وہ رب العالمین کے پسندیدہ دین، اسلام کے حاملین تھے۔ ان کے پاس شریعت اسلامی کی شکل میں ایک ایسا آفاقی نظام موجود تھا جس میں عروج و ترقی اور کامیابی و کامرانی کے سارے راز مضمر ہیں ۔ انہوں نے آفاقی تعلیمات دین کی راہنمائی کو سینے سے لگائے رکھا ۔ زندگی کے ہر میدان میں انہوں نے اسلام کی راہنمائی کو اپنے نگاہوں کے سامنے رکھا ، اسی لئے وہ ہر جگہ کامیاب و سرخرو تھے۔
مسلمان ممالک کے حکمرانو!
سنو دولت وثروت کی فراوانی نے جب تمہارے اندر عیش پرستی کو فروغ دیا اورتم نے اسلام کی احکامات و تعلیمات کو پس پشت ڈال کرتم دنیا کی لذتوں اور خوش سامانیوں میں مصروف ہوتے چلے گئے نتیجہ یہ ہوا کہ اغیارنے تمہاری عیش پرستی کابھرپورفائدہ اٹھایا۔تمہاری بے حسی سے علم و فن سے مسلمانوں کا ناطہ توڑا گیا ۔ مسلمانوںکے علمی ذخائر پر غیروں نے قبضہ کر لیا اور ان کی عظیم الشان لائبریریوں اور کتب خانوں کو نذر آتش کر دیا گیا ۔ ان ہی کے علمی ورثہ کو بروئے کار لا کردوسری قومیں نہ صرف ان سے آگے بڑھ گئیں بلکہ انہوں نے مسلمانوں کو پسماندگی سے دوچار کرنے کے لئے مختلف منصوبے اور لائحہ عمل تیا ر کئے ۔انہوں نے مسلمانوں کو پسماندگی وذلت کے عمیق غا ر میں دھکیلنے کے لئے با قاعدہ پلاننگ کے تحت مسلمانوں کو دہشتگردی کا لقب دے ڈالا اور اس کے لئے ایسازہریلاپروپیگنڈاچلایاکہ خودمسلمان تشکیک کی بیماری میں مبتلاہوئے۔اس طرح اس نے مسلم سواداعظم میں افتراق و انتشار کا بیج بو دیا ۔مسلمان ان کے پروپیگنڈے کے اس طرح شکا ر ہوئے کہ آپسی افتراق و انتشار اور فروعی اختلافات میں پڑ کر اپنا اصل مقصد بھولتے چلے گئے ۔مصنوعی سرحدی لکیروں،ذاتوں،قبیلوں اور مسلکوں اورفرقوںکے تفرقوںمیں پڑ کروہ ایک دوسرے کے دشمن جان بن گئے ۔ انہیں آپس میں لڑا کروہ اپنا الو سیدھا کر تے رہے ۔آپسی نااتفاقی کی وجہ سے مسلمانوں کے ہاتھوںمیں نہ علم و فن کا چراغ رہا نہ مضبوط عسکری قوت اور نہ ہی اتحاد و اتفاق کی طاقت ۔
مسلمان ممالک کے حکمرانو!
کتنابڑاالمیہ ہے کہ عالم اسلام کو کمزور کرنے کا کام تمہارا طرز حکمرانی کر رہا ہے اور اغیار یہ کام مسلم ممالک اور مسلمانوں سے ہی کروارہے ہیں۔ کیا تم یہ سمجھتے ہو کیا تم سے اس بارے میں سوال نہ ہوگا؟؟؟اور تمہیں یوں ہی بخشش اور جنت مل جائیگی؟؟؟تم خوداس امرکے گواہ ہوکہ تمہاری منافقانہ اورمذبذب حالت نے اسلام اور مسلمانوں پر ہونے والے اغیارکے حملے ہشت جہت ہیں کبھی اسلامی تعلیمات پر تشکیک و تنقیدکرنا ، کبھی اسلام اورمسلمانوں کو دہشت گرد قراردینا ، تو کبھی مسلم ممالک اور مسلم معاشروں میں اپنی آتشیں تہذیب کے تسلط کے ناپاک منصوبے روبہ عمل لانا۔ غرض کہ ہر طرح سے مسلمانوں کو دبا نے او ر حاشیہ پر لے جانے کی کوششیں ہو رہی ہیں ۔ اورتم جو پہلے ہی اپنے دین سے ناطہ توڑے ، دینی احکامات و فرامین سے منہ موڑے بیٹھے تھے۔ بری طرح ان کے جال میں پھنس گئے ہو اور مسلمان ممالک پسماندگی و تخلف کااس طرح شکار ہوئے کہ اکیسو یں صدی کے اس دور میں عالمی نقشہ پر مسلم ممالک کی کوئی وقعت وحیثیت باقی نہیں رہی۔ مسلمان عالمی طاقت نہ ہونے کے باعث روئے زمین کے سارے مسلمان اغیار کے جارحانہ عملی اقدامات اور ظلم و تشدد کی ناروا صعوبات کے شکار ہیں۔
مسلم ممالک کے حکمرانو!
کیاتمہیں اس امرکاکوئی احساس نہیں کہ سیاسی اعتبار سے آج تقریبا ہر مسلم ملک عدم استحکام کا شکار ہے ۔ بدامنی ، بغاوت اور خانہ جنگیوں کے واقعات نے مسلم ممالک میں اضطراب کی ایک لہر دوڑا دی ہے ۔مسلم ممالک میں عوامی بغاوتوں اور انقلابوں نے غیر متوقع حالات پیدا کر دئے ہیں ۔ جب ہم مسلم ممالک کے سیاسی بحران کی وجوہات تلاشتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے بطور حکمران دین کے احکامات وفرامین سے تمہاری دوری اور سیاست وحکومت سے متعلق اسلامی ہدایات سے بے رخی ہی وہ اہم وجوہ ہیں کہ جن سے مسلم ممالک میں نا انصافی ، جور و ظلم، استبداد واستعماراور حق تلفی اور بد عنوانیوں کی کیفیت پیدا ہوئی ، عوام کا بھروسہ تمہاری حکومتوں اور رہروان حکومت سے اٹھ گیا اور وہ تمہارے خلاف بغاوت پر آمادہ ہوئے ۔
مسلمان ممالک کے حکمرانو!
کیا رب الکریم کا تمہارے زیرنگیںمسلم ممالک پر ایک بہت بڑے احسان کا تمہیں کوئی ادراک نہیں کہ اس نے مسلمانوں کی سرزمینوں کو مختلف معدنی وزرعی وسائل سے نوازا ہے ۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ تمہیں اس امر کا بخوبی علم ہے کہ پوری دنیا میں سب سے زیادہ پٹرول خلیجی عربی ممالک میں پایاجاتا ہے ۔ ربڑ ملیشیا میں ، فاسفیٹ مراکش میں ، روئی مصر میں ، کھجور عراق میں ، ٹین ملیشیا میں ، اور کولمبائٹ ،دھات نائیجیریا میں نکلتی ہے ۔ چاول کی پیداوار میں مصر دنیا کا تیسرا بڑا ، پورانیم کی پیداوار میں نائیجیریا پانچواں بڑا ، سیسہ کی پیداوار میں مراکش آٹھواں بڑا ملک ہے ۔ اسی طرح پوری دنیا میں سب سے زیادہ قدرتی گیس قطر میں پائی جاتی ہے ۔امت مسلمہ کے تمام علاقے طرح طرح کے قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں جن میں سرفہرست پٹرول ہے۔ تم خوب جانتے ہو کہ دنیا میں بڑے پیمانے پر پٹرول کا ذخیرہ کہیں پایا جاتا ہے تو وہ خلیج عرب ہے۔تم خوب جانتے ہو کہ جدید تحقیقات کے مطابق زمین میں پٹرول کا پہلا ڈیم بھی یہی ہے ۔مسلمانوں کے وسائل کی بہتات سے تو تم اچھی طرح جانتے ہو کہ یورپ کی 65فیصد قدرتی گیس کی کھپت الجزائر سے آتی ہے۔ یہ بھی جانتے ہو کہ اسلام کے آنگن اور اس کے گھر جزیرۃ العر ب میں جو مسلمانوں کے سب سے اہم قدرتی سرمایہ کا حامل ہے،تم جانتے ہو کہ دنیا کے 75فیصد پٹرول کا ذخیرہ مسلمان ممالک میں پایا جاتا ہے ۔جہاں ایک کروڑ 60 لاکھ بیرل پٹرول یومیہ نکالا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں جو ذخائر جنوبی عراق میں پائے جاتے ہیں، وہ پانچ ملین بیرل پٹرول ایک دن میں نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جبکہ گیس کا استخراج اس کے علاوہ ہے۔ نیز پٹرول و گیس کے محفوظ ذخائر جو ایران، الجزائر، شام اور سوڈان میں پائے جاتے ہیں، وہ بھی وسیع ہیں۔ ایسے ہی پٹرول کا دوسرا بڑاذخیرہ بحرقزوین کے گرد وپیش میں پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بحر قزوین سے قوقاز تک پھیلے ہوئے علاقے اور عراق و شام میں بھی پٹرول وافر مقدار میں موجود ہے۔ وسطی ایشیا کے یہ ذخائر عالمی سطح پر نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ اسی طرح جنوبی سوڈان، افریقہ کی چوٹیوں اور مصر سے الجزائر تک پھیلے ہوئے طویل علاقے میں بھی پٹرول کے متعدد ذخائر پائے جاتے ہیں جن کی اہمیت بھی محتاجِ بیان نہیں۔ یہ تمام علاقے جدید دنیا میں دولت کے اساسی ذخائر ہیں او ریہی وہ ذخائر ہیں جو ہر میدان میں ،چاہے سیاسی ہو، اقتصادی یا تزویراتی قوت و طاقت کا سرچشمہ ہیں۔
پھر انہی کے ساتھ عالم اسلام کا وہ حصہ بھی واقع ہے جو مشرق میں افغانستان، پاکستان، مشرقی فلپائن سے لے کر بحراطلس کے کنارے تک اور مغرب کی سمت مغربی ساحلوں سے ملتا ہوا ،موریطانیا اور مغرب سنیگال تک پھیلا ہوا ہے جبکہ شمال میں یہی علاقہ وسطی ایشیا قوقاز، بلقان اور شمالی افریقہ تک اور جنوب میں جنوبی ایشیا ، انڈونیشیا اور وسطی افریقہ تک کے وسیع وعریض علاقے پر محیط ہے۔ ان تمام علاقوں پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عالم اسلام مختلف قدرتی معدنیات کی عظیم دولت سے مالا مال ہے جو تزویراتی اعتبار سے بے پناہ اہمیت کی حامل ہیں۔ ان ممالک میں سے اکثر نہ صرف اہم صنعتی معدنیات کا ذخیرہ اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ وہ سامانِ خوردونوش اور زرعی پیداوار میں بھی متمول ہیں۔اس پر مستزاد یہ کہ یہ اسلامی ممالک اہم ترین بحری، بری اورفضائی آمدورفت کے راستوں پر وسیع اختیارات رکھتے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ دو چار اہم ترین مختصر بحری راستے (1)ہرمز (2)بابِِ مندب (3) نہر سویز اور (4) جبل طارق؛ جن پر عالمی معیشت کا کلی انحصار ہے، امت مسلمہ ہی کے پاس ہیں۔ یہ چاروں مختصر بحری راستے ایسی فضائی شکل بناتے ہیں جو دنیا کے نظامِ مواصلات کو چہار اطراف سے باہم ملائے ہوئے ہے۔ مسلمان ممالک کے حکمرانو !لیکن انتہائی تعجب کی بات ہے کہ رب الکریم ان تمام انعامات و احسانات کے باوجود تم نے مسلمان کو عالم کفرکے پے رول (payroll)پر رکھا ہے۔ یہ کسی بدترین قسم کی بدبختی اور بدنصیبی ہے کہ تمہاری وجہ سے خط ارض کی امیر ترین قوم مسلم آج دنیا کی ہراعتبارسے دست نگر قوم بن چکی ہے۔قدرت کی جانب سے ملے ان وسائل و ذخائر کا استعمال کر کے مسلم ممالک نہ صرف معاشی میدان میں دوسرے ممالک سے آگے بڑھ سکتے ہیں ۔بلکہ عالمی سطح پر اپنی ایک الگ معاشی پہچان بنا سکتے ہیں ۔ لیکن اس کے برعکس مسلم ممالک عالمی سطح پر اپنی معاشی پہچان بنانا تو دور کی بات ان قدرتی اثاثوں کا استعمال کر کے خود کفیل تک نہیں ہوپا رہے ہیں ۔ حتی کہ ان کو دفاع کے لئے ہتھیار اور اسلحے بھی کئی گنا رقم خرچ کر کے دوسرے ملکوں سے خریدنے پڑتے ہیں ۔
مسلمان ممالک کے حکمرانو!
سنوتمہاری وجہ سے آج مسلمانان عالم اپنی تہذیب وتمدن سے دوربھاگ رہے ہیں اور مسلم ممالک دوسری قوموں سے مغلوب اور غیروں کی تہذیب کی مقلد نظربن چکی ہے ۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ عالمی نقشہ پر ہم کسی ایک ایسے مسلم ملک کی نشاندہی کرنے سے قاصر ہیں ، جہاں اسلامی تہذیب و تمدن مکمل طور پر رائج ہو۔بلکہ یہ تمہاری اپنی تہذیب و تمدن کو پس پشت ڈالنے کا ہی نتیجہ ہے کہ آج مسلم ممالک ہر میدان میںپچھڑے ہوئے ہیں ۔ غرض کہ مسلم ممالک فکری اعتبار سے تخلف وپسماندگی کا شکار ہیں ۔بلکہ وہ تخلف و پسماندگی کے عمیق غارمیں دھکیل دیئے گئے ہیں۔غرض معاشی ،حربی ،عسکری، اقتصادی ، سیاسی ،فکری، علمی، تہذیبی ، تمدنی ہر اعتبار سے مسلمان روبہ زوال ہیں۔یہی وجہ ہے کہ برما میں روہنگیا مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم اور ان کی نسل کشی کے حوالے سے تم اپنی بزدلانہ اور مجرمانہ رویہ ترک کرنے،برما کے سفیر کو اپنے ممالک سے بدر کر کے برما سے سفارتی تعلقات ختم کرنے ، پرآمادہ نہیںہونگے نہ تم یہ آوازاٹھاسکتے ہو کہ نوبل انعام یافتہ سوچی کے طرز عمل نے انسانیت کو بھی شرمندہ کردیا ہے،لہٰذا نوبل انعام کے چارٹر کی خلاف ورزی کرنے پر یہ انعام واپس بھی لیا جائے۔نہ تم برماکے مظلومین کے لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کی اپیل کریں گے تمہاری ضمیرفراموشی اوربدحالی کا اندازہ اس امرسے لگایاجاسکتاہے کہ گذشتہ دنوں تاجکستان میں اسلامی ممالک کی تنظیم کا اوآئی سی کا اجلاس منعقدہوالیکن تم محض نشتندگفتند اوربرخاستندکے علاوہ کچھ نہ کر سکے افسوس اجلاس بلاکربھی تم سے برما کے مظلوم مسلمانوں کے مظالم پرکوئی زوردار آواز بلند نہ ہوسکی۔
مسلمان ممالک کے حکمرانو!
سنوتمہاری ملی بھگت سے اغیارکے ہاتھوں مسلمانوں کے قیمتی سرمایہ انکے مصادر ہی سے لوٹا جارہا ہے۔ مسلمانوں کے دشمن مختلف کمپنیوں کی صورت میں تیل اور پٹرول کے نکالنے، اس کی خریدوفروخت، تجارت اور تمام چھوٹے بڑے مراحل کی خود نگرانی کرتے ہیں او ر تمہیں اس کام پر لگا دیا گیاہے کہ تم وصولی کے خاطر ان کے ہی بینکوں کا چکر کاٹتے ہوجو انہی کے بینک کھاتوں میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ تیل نکالنے والی مغربی کمپنیوں کے ساتھ شرمناک معاہدوں کی صورت میں شروع ہوتاہے۔ تم ان شرمناک معاہدوں کے ذریعے 40 تا60 فیصد آمدنی اپنے ذاتی اموال میں لے جاتے ہو جبکہ بقایا منافع ان کمپنیوں کو دیتے ہو جبکہ بیچاری امت خالی ہاتھ بیٹھے تماشہ دیکھتی ہے۔نیز اگر کہیں نگرانی پر مامور ماہرین تمہاری حکومتوں میں سے ہوں تو تمہیں رشوت کے ذریعے خاموش کرالیا جاتا ہے۔ اس طرح یہ کمپنیاں تمہاری مدد اور تمہارے تعاون سے مسلمان ممالک میں جعل سازی کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ یہ کتنی شرمناک بات ہے کہ مسلمانوں کے تیل اور گیس کی حد بندی، اس کی قیمت کا تعین اور عالمی سطح پر اس کی خریدوفروخت وہ انتہائی کم قیمت پر مسلمانو ں کے وسائل پر ڈاکہ ڈالتے ہیں ۔ ان کی ڈاکہ زنی کو سمجھنے کے لیے بس ایک مثال ہی کافی ہے کہ خود مغرب کے 26عالمی اقتصادی تعلیمی اداروں کے مطابق ایک بیرل خام پٹرول اور اس سے نکلنے والے صنعتی مواد کی اصل تصور شدہ قیمت کم از کم 260 ڈالر فی بیرل ہونا ضروری ہے جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ اب تک پوری تاریخ میں کبھی بھی یہ قیمت 45 ڈالر سے تجاوز نہیں کرسکی۔ اکثر اوقات تو اس کی قیمت 20 ڈالر کے ہی ارد گرد رہی حتیٰ کہ بسا اوقات یہ قیمت 10 ڈالر تک بھی جاگرتی ہے ۔الغرض تمہاری کمزوریوں یا تمہارے ذاتی مفاد کے پیش نظر عالمی ساہوکارہی مسلمان ممالک کے قیمتی سرمایہ اور پھرانکی کرنسیوں کی قدر گھٹاتے ہی چلتے جاتے ہیں۔امت مسلمہ کا المناک حادثہ یہ ہے کہ بسا اوقات اپنے اقتداراورمحض چند ٹکوں اورمحدود ذاتی مفادات کے حصول کی خاطرمسلمانوں کی قیمتی دولت کو عالمی سطح پر مقرر کردہ حصص کے مقابلے میں بھی انہتائی ارزاں قیمت ، مثلا 3 ڈالر فی بیرل تک میں بیچ دیتے ہو۔ یوں نصف ملین بیرل پٹرول سے محض ڈیڑھ ملین ڈالر کی آمدنی حاصل ہوتی ہے جو تمہاری آوارگی، عیاشی اورجوئے بازیوں کے چند ہفتوں کے اخراجات ہی کو کفایت کرپاتی ہے۔اس سارے مکروہ کھیل میں تم جس طرح شریک ہیں اور ان کے سامنے تمہاری گردن جس طرح خم ہے تمہارے لیے تکلیف کا باعث ہے۔
مسلمان ممالک کے حکمرانو!
یہ داستانِ غم، مسلمانوں کے بیت المال او ران کے وسائل و سرمایہ کی تمہارے لوٹ کھسوٹ کی ہے۔کیاتمہیں اس بات کاعلم نہیں کہ تیل ،گیس اورمعدنیات کی شکل میںرب کائینات کے عطاکردہ خزانے پوری امت اسلامیہ کا مال ہے جو شرعاروئے زمین کے تمام مسلمانوں کی ملکیت ہے۔تم سے کس طرح اغیارکے تصرف میں دے چکے ہو۔امت ِمسلمہ کے سرمایہ میں تمام مسلمان حصہ دار ہیں۔ ہم میں سے ہر کوئی جانتا ہے کہ ہمارے دین کی اساسی تعلیمات اور اس کے بنیادی اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ امت مسلمہ ایک امت ہے۔ اس کی حفاظت و عہد کا ذمہ ایک ہے۔پوری امت جسد ِواحد کی طرح ہے۔سردار دو عالم صلعم نے تو یہاں تک فرمایا کہ ترجمہ’’ وہ مومن ہی نہیں ہو سکتا کہ جس نے خود تو سیر ہوکر رات گزاری جبکہ اس کا ہمسایہ بھوکا رہا‘‘بخاری112))اس امت کی ثروت،اثاثہ جات اور سرمایہ تم جسے فاسق وظالم حکمرانوں کی بجائے تمام مسلمانوں کی ملکیت ہیں، یعنی امت ِمسلمہ کی دولت اور سرمایہ جات کسی خاص طبقے کے لیے نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کی فلاح کے لیے ہیں۔ لیکن آج مغربی سامراج نے عالم اسلام کے مسلمانوں کو 57ملکوں کی صورت میں تقسیم کردیا ہے اورتم ان ممالک کے حکمران مسلمانوں کے ثروت و سرمایہ کو لوٹنے اور غربت عام کرنے میں مصروف ہوگئے ہو۔آج روئے زمین پرمسلمانوں کی غالب اکثریت ، تنگ و ترش زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ خستہ حالی ان کامقدر بنی ہوئی ہے اور ان کی معیشت تباہی کا شکار ہے۔
مسلمانوں کی حاصل شدہ آمدنی کو تمہاری خائن حکومتیں بینک کھاتوں کے نام پر دشمنان اسلام کے بینکوں میں منتقل کردیتی ہیں۔ جو مسلمانوں کے لئے محض الیکٹرونک حساب و کتاب میں اعداد وشمار اور صفروں کی تعداد میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ اس کے بعد تمہیں بھی اس کی اجازت نہیں ہوتی کہ ان بینکوں سے اپنی ہی رقم ایک مقرر شدہ حصے سے زائد نکلوا سکیں تاآنکہ وہ اس رقم کااکثر حصہ مغرب ہی کی صنعتی مصنوعات او رانہی کے بنائے ہوے اسلحہ کو خریدنے میں لگا دیں۔پھر یہ سامانِ حرب بھی اربابِ مغرب اپنی من پسند قیمت پر بیچتے ہیں۔اب دیکھئے کہ مسلمانوں کی دولت اورسرمایہ اور انکے وسائل میں سے خود ان کے ہاتھ کیا آتا ہے۔ حقیقی آمدنی کی مضحکہ خیز حد تک قلیل نسبت اور اس کابھی بیشتر حصہ تم سوئٹرز لینڈ، امریکہ و یورپی ممالک کے بنکوں میں موجود اپنے خفیہ کھاتوں میں جمع کروا دیتے ہو، اس ساری الٹ پھیر سے تم سارا فائدہ اسلام دشمنوں کوپہنچاتے ہو ۔ تمہاری عیاشیوں پر تحقیق کرنے والے اداروں کے مطابق تم میں سے بعض کا صرف ایک دن کا خرچہ تیس لاکھ ڈالر’’یعنی تقریبا 19 کڑوڑ روپے‘‘تک پہنچتا ہے۔ یہ اعداوشمار چند سال قبل کے میں بیان کررہاہوں آج اس پرسوسے ضرب لگاکردیکھیں کہ یہ خطیر رقم تمہارے محلات کے روزمرہ مصارف پر خرچ ہوتی ہے جو امریکہ، مختلف یورپی ممالک اور مشرقی ساحلوں پر پھیلے ہوئے ہیں۔ نیز اسی رقم سے تمہارے محلات میں ہونے والے لہو و لعب ، آوارگیوں، بدکاریوں، جوئے بازیوں اور فسادات کے اخراجات پورے کئے جاتے ہیں۔ اسی ایک مثال پرہم ملت اسلامیہ کی گردنوں پر سوار دیگر حکام کوبھی قیاس کرسکتے ہیں۔ذرائع ابلاغ پرنشر ہونے والی ایک دل سو ز خبرکے مطابق ایک عرب شہزادے فیصل بن فہد کی تھی جس نے جوئے کی ایک میز پر 10کھرب ڈالر یعنی تقریبا چھ سو کھرب روپے ہارے اور پھر اسی صدمے کی وجہ سے اس کی حرکت ِقلب بند ہوگئی اور وہ مرگیا۔
مسلمان حکمرانو!
کیااس سے بھی بڑھ کر کوئی پسپائی کی قعرمزلت ہوسکتی ہے کہ عسکری امدادکے نام پر امریکہ مسلمانوں کی سرزمینوں، بالخصوص امت کے قلب’’جزیرہ العرب‘‘’میں قدم جمائے بیٹھاہے۔ دورِ حاضر کا استعمار اپنے صلیبی عزائم کو ان خوشنما ناموں میں ملفوف کرکے ہماراپوری طرح گھیرائوکرچکاہے اورپھر اس ناپاک منصوبے اور شرمناک مہم کے مصارف واخراجات بھی مسلمان ممالک ہی سے وصول کرتا ہے۔ تاریخ شاہدوعادل ہے کہ ماضی قریب میںامریکہ نے عاصف الصحرا ’’آپریشن ڈیزرٹ سٹارم‘‘کے اخراجات یعنی پانچ کڑوڑ ساٹھ لاکھ ڈالر بھی سعودی حکومت پر تھوپے۔ اس خطیر رقم کی ادائیگی کے سبب سعودی بجٹ خسارے میں پڑ گیا اور سعودی حکومت سودی قرضے لینے پر مجبور ہوگئی۔جی ہاں! دنیا میں پٹرول کا سب سے بڑاذخیرہ رکھنے والاملک آج مقروض ہے اور بلد ِنبوی عالمی سودی امداد لینے پر مجبور ہوگیا۔اناللہ واناالیہ راجعون
مسلمان حکمرانو!
کتنی افسوس ناک بات ہے کہ تمہاری انا اور نااہلیت کی وجہ سے استعمار نے خلیج عرب میںدومسلم برادرممالک کے درمیان بحران پیداکیا اس بحران میںامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سعودی عرب کے ساتھ ہے لیکن دوسری طرف قطر امریکی معیشت میں زیادہ حصص خرید رہا ہے تاکہ سیاسی تبدیلی کی صورت میں امریکا بھی اس کے اثرات محسوس کیے بغیر نہ رہ سکے۔کیا تمہیں پتہ نہیں کہ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق نیویارک کی ایک سو دو منزلہ ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ کو ارغوانی اور سفید رنگ کی روشنی سے اس وجہ سے نہلایا گیا ہے کہ قطر کے ملکی پرچم کے لوگو والی قطر ایئرویز کمپنی امریکا میں اپنی پروازوں کے دس برس مکمل ہونے پر شاندار جشن منانا چاہتی ہے۔ایک برس پہلے تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال قطر نے 622ملین ڈالر کی خطیر رقم خرچ کرتے ہوئے آل امریکن بلڈنگ کمپنی کا دس فیصد حصہ خرید لیا تھا جسے ٹرمپ بھی خرید نہ سکا تھا۔ قطرنے امریکن ایئر لائن کو اس وقت حیران کر دیا تھا، جب اس نے دنیا کی اس سب سے بڑی تجارتی ہوائی کیریئر کے 10 فیصد حصص حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ڈونلڈ ٹرمپ کے سعودی عرب کے ساتھ 110 بلین ڈالر مالیت کے ہتھیار خریدنے کے معاہدے اور قطر پر دہشت گردی کی حمایت کرنے کے الزام کے بعد دوحہ حکومت نے امریکا کے ساتھ 12 ارب ڈالر کے جنگی طیارے خریدنے کے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ کتنی شرمناک بات یہ ہے کہ امریکہ نے اپنے خیمے تمام مسلمان ممالک میں گارڈ دیئے ہیں اورایک سے بڑھ کر ایک امریکہ کو اپنامحسن اور آقا سمجھتے ہو یہ کتنی شرمناکی ہے کہ قطر ،سعودی عرب کی امریکا میں سرمایہ کاری کی پالیسی یا حکمت عملی کی نقل جاری رکھے ہوئے ہے۔قطر کا سب سے بڑا بین الاقوامی اثاثہ اپنی سرزمین پر خطے کی سب سے بڑی امریکی فوجی بیس ہی ہے۔یہی حال سعودی عرب کا بھی ہے ،جن کا شمار واشنگٹن کے بہترین تھنک ٹینکس میں ہوتا ہے۔ ان اداروں کو سہولیات فراہم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ دنیا بھر کے میڈیا اور خاص طور پر امریکا میں سعودی عرب اور قطر کا روشن چہرہ پیش کریں۔
مسلمان ممالک کے حکمرانو!
سنوتمہاری ملی بھگت سے اغیارکی استعماری سیاست نے مسلمانوں کو وطنی ریاستوں (National States)میں تقسیم کرکے پہلے اس امت کو کمزور کیا۔لیکن مسلمانوں کو اقتصادی، اجتماعی اور سیاسی غرض تمام میدانوں میں انتہائی تباہ کن اثرات کا سامنا ہے ۔بلاد مسلم میں اسلام کے فروغ کے لئے کوئی کام نہیں ہو رہا مسلم ممالک اورعلاقوں پر کافر انہ تہذیب مسلط کردی گئی۔مسلمانوں کے رہن شدہ اموال کو قرضوں کی صورت میںمسلمان ممالک کو دے کر، اغیارنے ان پر اپنی پالیسیاں مسلط کیں۔ رب البروبحرنے تو ملت ِاسلامیہ کو اموال وسائل سے کبھی محروم نہ کیا بلکہ سب سے بڑھ کر دیا، لیکن مسلم امہ کی مجموعی کوتاہیاں اور تمہاری عیاشیاں امت کے لئے ذلت ورسوائی کو عام کر گئیں۔اپنے اموال کے ضیاع اور غیروں کے دست ِنگر ہونے کا نتیجہ خلافت ِاسلامیہ کو کھونے کی شکل میں برآمد ہوا۔ پھر خلافت سے محرومی کے سبب ہماری دنیا بھی ہاتھوں سے جاتی رہی او رہرمیدان میں اہل اسلام کی زندگی اجیرن ہوگئی۔ یہاں تک کہ مسلمان بالعموم ظلم و جبر، ذلت و نکبت، خوف و افلاس او رطرح طرح کی بیماریوں میں گھر کر رہ ذگئے۔
مسلمان ممالک کے حکمرانو!
سنومسلمان ملکوں کی وہ تنظیم جسے کبھی شاہ فیصل شہید نے اسلامی اخوت کا عملی نمونہ بناکر پیش کرنے کیلئے بڑی محنت اور جدوجہد کے بعد جنرل ایوب خاں اور ملیشیا کے ٹنکو عبدالرحمن کی مدد سے قائم کی تھی تمہاری مردہ ضمیری سے آج تمہارے کرتوت بدکی وجہ سے عضو معطل بن چکی ہے۔ خلیجی ممالک کی حفاظت و دفاع کے بہانے جزیرہ نما عرب کے تمام ملکوں میں امریکہ و برطانیہ کے فوجی اڈے قائم ہوگئے گویا سارا علاقہ امریکہ و برطانیہ کے کنٹرول میں آگیا اور اسرائیل کے خلاف عرب ملکوں کی کسی امکانی کاروائی اور تیل کے مقاطعہ 1973 کی طرح کے امکانات ختم ہوگئے۔ دوسری طرف ہم فلسطینیوں کے فولادی عزائم اور صبر و برداشت افغانستان اور خاص طور پرافغان طالبان کی کامیابیوں،کشمیری مجاہدین کی استقامت و شجاعت نے اسلام کی بڑھتی ہوئی طاقت سے طاغوتی طاقتیں پریشان ہوکر مسلمانوں کو ساری دنیا میں کمزور اور بے دست وپاکرنے کیلئے ساری دنیا کے مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے اور اسلام کی تعلیمات جہاد کو دہشت گردی کہہ کر بدنام کرنے کیلئے 9/11 کا ڈرامہ کیا گیا۔ دور اندیشی تدبر و فراست سے محروم مسلم حکمراں ہی نہیں علمائے کرام نے مارے ڈر خوف اور مرعوبیت بلکہ حماقت کے سبب نہ صرف9/11 کو اسلامی دہشت گردی اسامہ بن لادن اور ملا عمر جیسے مجاہدین کو یہود و نصاری کے قلب میں پیوست ہوجانے والے خنجروں کی مانند دشمنان اسرائیل و امریکہ بہت بڑے دہشت گرد قرار دئیے گئے۔
جہاد افغانستان میں روس جیسے پاور کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے والوں کو دہشت گرد کہتے امریکہ کو شرم نہ آئی اور اس سے زیادہ بے شرمی و بے غیرتی کا مظاہرہ مسلم حکمرانوں نے کیا جنہوں نے بغیر ثبوت بغیر دلیل دہشت گرد تسلیم کرنے کے ساتھ ہی افغانستان میں طالبان کی حکومت کو جو اسلام کا مضبوط قلعہ بن رہی تھی ختم کردیا اس کے بعد عالم اسلام پروار ہوتے رہے۔ یورپ ملکوں میں مقیم مسلمان مشکوک دہشت گرد قرار دیاکبھی داڑھی کبھی حجاب کبھی مساجد کی تعمیر حتی کہ مساجد کے میناروں کی بلندی پر اعتراض ہونے لگے۔ دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ کہیں بھی کچھ بھی ہو تمہارے حکمرانوں پر جوں نہ رینگے گی۔ مغرب کی اس اسلام دشمنی کے پیچھے اسرائیل اور صیہونیوں کا دماغ کام کررہا ہے۔ 9/11 کے بعد افغانستان اور عراق میں اب شام میں لاکھوں مسلمان شہید کردئیے گئے خود کو اسلام کا محافظ وسپاہی کہنے والے حکمران پاسبانان حرم منبر و محراب میں یہ ہمت نہ تھی کہ دہشت گردی کا جھوٹا الزام لگانے والوں کی خبر لیتے لیکن الٹا مسلمانوں کو ہی دہشت گردی سے دور رہنے کا درس اتنی کثرت سے دیا گیا کہ تاریخ میں شاہد ہی مسلمانوں کو کسی اور چیز کی تعلیم اتنی کثرت سے دی گئی ہو۔
دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں اور حریت پسندوں کو ہر جگہ دبادیا گیا۔ مصر میں اخوان المسلمین کی حکومت کے خاتمہ کرکے عرب ملکوںخاص طور پر سعودی عرب اور
متحدہ عرب امارات کے ہاتھوں اسرائیل کو اس کے سب بڑے دشمن سے نجات دلادی گئی۔
مسلمان ممالک کے حکمرانو!
ہم اہل فلسطین سمیت دنیابھرکے مظلوم مسلمان تم سے صفربرابرکوئی خیرکی امیدنہیںرکھتے کیونکہ تمہارے اعمال مسلم دشمنانہ ہیں ،تم دشمنان اسلام کوتحفظ دینے کے لئے بے کل توہیں لیکن مظلوم مسلمانوں کے زخموں سے چوروجودسے تمہیں کوئی غرض نہیں!ہم اہل غزہ سمیت دنیابھرکے مظلوم مسلمان بس اپنے رب کی مددکے طلبگارہیں،ہم خوب جانتے ہیں کہ امت مسلمہ کے زوال کی المناک داستان اس وقت شروع ہوئی کہ جب عالمی سازشوں کے تحت خلافت عثمانیہ کاسقوط ہوا ، امہ مسلمہ کا یہ اتحاد پارہ پارہ ہو ا ،اورمسلمانان عالم ایسے کمزور ہوئے کہ ایک مدت تک استعماری طاقتیں برطانیہ اورفرانس مسلمان ممالک پر مسلط رہے اور دونوں ہاتھوں سے مسلمانوں کے وسائل لوٹنے کے ساتھ ساتھ ہرمسلمان ملک میں ایک طبقہ بھی پیدا کر دیا جو رنگ و خون اورزبان کے اعتبار سے بے شک اسی مسلمان ملک کے باشندے ہوں لیکن اپنی رائے ، فیصلے ،کرتوت اور فکر کے اعتبار سے استعماری امریکہ اوراسرائیل اوران کے ہم خیال اورہم پیالہ جیسا ہو ۔
مسلمان ممالک کے حکمرانو!
ہوش کے ناخن لیں اورغورکریں کہ عالمی نظام تعلیم اور معیشت کے ذریعے سپر پاور ز اور G-20ٹائپ ملکوں نے تیسری دنیا کے عوام کو عموما اور مسلم دنیا کو بالخصوص ایسے شکنجوں میں کسا کہ پنی بے چارے پرکچھ نہیں سکتے ۔ عالمی طاقتوں کو جہاں کہیں وسائل اور مفادات نظر آتے ہیں وہاں کوئی اصول ، قانون ، اخلاق وغیرہ کو ئی حیثیت اور حقیقت نہیں رکھتے ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی راج نے 1857 میں ہندوستان میں قابل ذکر مزاحمتی قوتوں بالخصوص ٹیپو سلطان جیسی عظیم شخصیت کو سفاکانہ طریقے سے راہ سے ہٹا دیا وہ اس کابین ثبوت ہے ۔ آج عالمگیر یت کے تناظر میں جو تماشا لگا ہوا ہے اس میں پیسے کے سوا اور کچھ نہیں ہے اگر کچھ ہے تو وہ پیسے کے بعد ہے ۔ اس خطر ناک کھیل کے میدان زیادہ تر مسلمان ممالک کے اندر بنائے گئے ہیں جہاں یہ عالمی شاطر شطرنج کی بساط بچھا ئے اپنے اپنے مفادات کے حصول کے لئے ’’جنگ میں سب کچھ جائز ‘‘ کے سفاکانہ اصول و قواعد کے مطابق اپنے اپنے مہرے آگے بڑھاتے ہیں ۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ 57 مسلمان ممالک کے حکمران آخربے بسی کی تصویرکیوں بن چکے ہیں۔ اس کا جواب اس کے سوا کیا ہے کہ مسلمان حکمرانوں کے ذاتی مفادات اور ان کے اقتدار کا دار و مدار اسی بات پر ہوتا ہے کہ گریٹ پاورز کی ہاں میں ہاں ملائیں ورنہ ان کاایمان ہے کہ بصورت دیگر ان کااقتدارچلاگیا۔ اس پس منظرکوسامنے رکھتے ہوئے دنیا میں مسلمان کٹیں مریں توان کامددگارکوئی نہیں۔
Comments are closed.