مولانا عبدالرحمن ملی کے انتقال پر ملال سے ممبئ کی علمی دینی وملی فضا سوگوار ۔

 

 

 

از ۔محمد شاہد ناصری الحنفی

 

 

آج اچانک بہ وقت سحر ناگاہ یہ اطلاع ملی کہ ممبئ شہر کے علمی ودینی اور ملی حلقوں کے قدیم پاسپان اور مجسم حرکت وعمل صاحب طرز ادیب حضرت مولانا مفتی عبدالرحمن صاحب ملی نے بھی رمضان المبارک کے آخری عشرے کی بابرکت دنوں میں داعی اجل کو لبیک کہا تو کلمئہ استرجاع کے بعد بہت دیرتک غم وحسرت کی تصویر بنارہا چونکہ مولانا ملی مرحوم کو جس طرح ملی ومذہبی کاموں کے اختیارکرنے کا شوق تھا اورجس طرح انہوں نے ممبئ میں مختلف مکروفریب اورچاپلوس قسم اورنفاق زدہ لوگوں کو برداشت کیا اوران کی اصلاح کی کوشیشں کی اورجس طرح جاں کاہی کے ساتھ عوامی سطح پر مختلف تنظیموں کو کھڑاکیا یا اس کا تعارف کرایا اور پھر ذرا اس کام میں تیزی آئ تو جاہ پسند لوگوں کی ریشہ دوانیوں نے رفتہ رفتہ ان کو ان تنظیموں سے کنارہ کشی اختیارکر نے پرآمادہ کرلیا ۔ اس طرح وہ ملی تنظیموں سے بہت دل براشتہ ہوگئے تھے ۔

آل انڈیا ملی کو نسل کے وہ تاسیسی ارکان میں تھے ۔مدراس حج ہاؤس ممبئ میں جب ملی کونسل مہاراشٹرکی تشکیل حضرت مولانا قاضی مجاہدالاسلام قاسمی اپنے سہ نفری قافلہ مرحومین حضرت مولانا مجیب اللہ ندوی ۔حضرت مولانااسرارالحق قاسمی اورحضرت مولانا مفتی نسیم احمد قاسمی کے ساتھ فرمارہے تھے اور جن ناموں کا انتخاب فرمارہے تھے ان میں مفتی عبدالرحمن ملی صاحب کی رائے اس مجلس میں مقدم تھی ۔ خاکسار اورمحترم ہارون بھائ موزہ والے اور محترم الحاج عبدالستار یوسف شیخ صاحب بھی موجود تھے ۔ ممبئ میں بہ طورخاص ملی اورسماجی تمام کارکن حضرات کے یہ اصحاب ثلاثہ آئیڈیل تھے ۔ چناں چہ ہم چارو حضرات کو مہاراشٹرملی کونسل کے اولین معماروں نے حضرت قاضی صاحب نے رکھا اورخاکسارنے ہی اس وقت وثیقہ تحریر کیا اورحضرت قاضی صاحب نے اس کا املاء کروایا ۔

داستان بہت لانبی ہے اور اعتکاف کی حالت میں کچھ لکھنا اوروہ بھی بعدنماز ظہر کے وقت طبیعت پرگراں بار ہوتا ہے ۔

قصہ مختصر یہ کہ منافقین حاسدین اورچغل خوروں نے جس طرح ہمیشہ ملی کاز کو نقصان پہونچایا ہے اورجس طرح شخصیتوں کے اعتماد کو ان کی کانا پھوسی کرکے مجروح کیا انہی حالات سے مفتی صاحب بھی نبردآزما ہوئے اورسارے اجتماعی پلیٹ فارم کو تیاگ دیتے ہوئے حج وعمرہ اورکنسلٹنگ ویزا کے کاروبار میں مشغول ہوگئے اور دینی ومذہبی اشتغال کیلئے ممبرا جہاں ان کا قیام تھا بورڈنگ والا مدرسہ بھی قائم کر لیا تاکہ اپنے فرائض منصبی اورعلم کے تقاضے بھی پورا کرتے رہیں ۔

مفتی صاحب مرحوم کا خاکسارسے بھی تعلق رہا وہ ہمارے رفیق مکرم حضرت مولانا سید اعجاز ملی صاحب زیدمجدہ نائب صدر ادارہ دعوت السنتہ اور نائب مدیر ماہنامہ مکہ میگزین کے کاروباری رفقاء میں بھی تھے اور ان کے مادرعلمی معہد ملت مالیگاؤں کے قابل فخر ولائق ذکر سپوت بھی تھے اس لئے گاہ گاہ وہ مولانا کے یہاں تشریف لایا کرتے تواس طرح لذت کام ودہن اور علمی لطائف کی ایک محفل سج جاتی تھی ۔

مفتی صاحب ایک باکمال جیدالاستعداد خوش مزاج ملن سار باکردار مومن اوردین وشریعت کے عالم تھے ۔ مرحوم ہمارے ہونے والے سالانہ کل ہند مسابقتہ القرآن کے مؤید تھے اورفرماتے تھے کہ آپ نے ممبئ شہر کی چکا چوند اور نہ جانے کن کن بلاؤں سے متمیز روایات اور مشاعرہ و شاعرات اورقوالیوں کے ماحول میں ایک اچھی اوربہت اچھی چیز لانچ کیا ۔

مفتی صاحب نے ادھر دوچارسالوں سے خلوت بھی کچھ زیادہ ہی اختیارکرلیا تھا ۔ بہرحال ماہ صیام کے بابرکت ایام اوردوزخ سے نجات والے دنوں میں رب کریم کی بارگاہ میں عبدالرحمن کا حاضر ہونا ان شاء اللہ برکت ومغفرت اورنجات کا مورد ہوگا ۔

اللہ پاک موصوف کے زلات کومعاف فرمائے اورحسنات کو قبول فرمائے اورپسماندگان کو صبر جمیل مرحمت فرمائے آمین

Comments are closed.