Baseerat Online News Portal

خودی کی موت سے پیر حرم ہوا مجبور!!

[قضیہ فلسطین - تازہ أحوال]

محمد صابر حسین ندوی

اسرائیلی جارحیت کا تسلسل جاری ہے، بروز پیر اور منگل کو علی الصباح فلسطینی ٹیریٹری غزہ پر کئی راکیٹ چھوڑے گئے، جس سے متعدد معصوم بچے، مرد اور خواتین شہید بھی ہوئے اور زخمی حالت میں زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں، الجزیرہ نے رپورٹنگ کرتے ہوئے دردناک تصاویر اور وڈیوز جاری کی ہیں، دی کُوینٹ ہندی کے مطابق اسرائیل نے ان راکٹس کو حماس کی جانب سے ایک راکٹ داغنے اور بعض شرپسندوں کا سر کچلنے کیلئے چھوڑا تھا؛ لیکن اصل بات یہ ہے کہ حماس نے اسرائیل کے جواب میں حملے کئے ہیں، انہوں نے دفاع کیا ہے، بلکتے اور سسکتے فلسطینی اور غزہ پٹی پر دہشتگردانہ کارروائی کا جواب دیا ہے، جس میں تازہ رپورٹ کے مطابق بعض یہودی بھی مارے گئے ہیں، یہاں اک پَل رُکئے اور سوچئے! – – – دنیا کتنی ظالم ہے! مسلمانوں کا خون کتنا سستا ہے؛ کہ خدشات کی بنیاد پر انہیں بہادیا جائے، اور دنیا تماشہ دیکھتی رہے، یہ کیسے لوگ ہیں جو معصوم بچوں کا خون بہا کر بہادری دکھانا چاہتے ہیں، بیت المقدس پر غندہ گردی کر کے اپنی فوجی طاقت کا دھونس دکھانا چاہتے ہیں، مگر سبھی خموش ہیں؛ البتہ ترکی کے اندر پہلے انقرہ میں زبردست احتجاج درج کیا گیا تھا، آج استنبول میں لوگوں کا سیلاب نکل پڑا ہے، وہ فلسطینی بھائیوں سے مواخات و مواسات اور بھائی چارگی کا اظہار کر رہے ہیں، خود صدر محترم رجب طیب أردوغان مدظلہ نے عالمی اسلامی برادری کو جمع ہونے کی تلقین کی ہے، انہوں نے اسرائیل کے خلاف پیش قدمی کی گہار لگاتے ہوئے کہا ہے: "تمام دنیا بالخصوص اسلامی ممالک کو اسرائیل کے مسجد اقصی، القدس اور فلسطینیوں کے گھروں پر ہونے والے حملوں کے خلاف عملی طور پر میدان میں آنے کی دعوت دیتا ہوں” – – بعض نامور شخصیات نے بھی درد دل برقی ترنگوں پر جاری کیا ہے، پاکستان سے علامہ مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم لکھتے ہیں:” ‏مسجد اقصی میں کھلی دہشت گردی اور ریاستی غنڈہ گردی پر انسانی حقوق کے علمبردار خاموش ہیں؛ لیکن افسوس ان مسلم حکمرانوں پر ہے جو یہ سب کچھ دیکھ کر بھی چپ ہیں انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ وقت ایک سا نہیں رہتا اللہ تعالی کی لاٹھی بے آواز ہے قبلہ اوّل سے بے وفائی کوئی سستا سودا نہیں ہوسکتا ” – -ہندوستان سے استاد گرامی قدر فقیہ عصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی حفظہ اللہ نے لکھا:‏ "فلسطینی مسلمانوں پراسرائیل کے ظلم سے ہر انصاف پسند انسان کادل چھلنی ہے، مسلم حکومتیں عالمی پلیٹ فارم پر قوت کے ساتھ آواز اٹھائیں اور پوری دنیاکے مسلمان دعاء کے ساتھ اسرائیلی مصنوعات کابائیکاٹ بھی کریں، سلام ان فلسطینی جیالوں پر جو مسکراتے ہوئے قیدخانوں کو گلے لگارہے ہیں اورجام شہادت نوش کررہے ہیں” – – خطیب العصر مولانا سلمان حسینی صاحب ندوی مدفیوضھم لگاتار اپنے خطابات سے فلسطینیوں کا درد لوگوں کے سامنے رکھ رہے ہیں – – اسی طرح نامور کرکٹر شاہد آفری کی بھی رگ غیرت پھڑکی ہے اور انہوں نے لکھا ہے:‏” ادھر مسجد اقصی کی دیواریں فرش، فلسطینی خون سے اور ادھر، میری آنکھیں بے بسی کے آنسوؤں سے سرخ ہیں۔ عالمی ضمیر بے حسی کی چادر میں لپٹا سو رہا ہے۔ شاید مسلمانوں کا لہو اس قدر بےتوقیر ہے کہ اس پہ نہ کوئی آواز اٹھے گی اور نہ مہم چلے گی. قبلہ اول، ہم تیری تقدیس کا قرض اتارنے سے قاصر ہیں” – – – – – – مگر جن لوگوں کے پاس طاقت ہے، جنہوں نے اسلام، قرآن اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر مملکتیں قائم کی ہیں، جن کا دعویٰ ہے کہ وہ اسلامی حکومت کے ذمہ دار، علمبردار اور قرآنی احکام کے پاسبان ہیں، بالخصوص خادم الحرمين الشريفين کا لقب رکھنے والے کیا کر رہے ہیں؟
عالم عرب سے صرف قطر نے بڑی ہمت دکھائی ہے اور انہوں نے عرب لیگ سے خود کو الگ کرلیا ہے؛ لیکن شاہان عرب عموماً اپنی عیاشی میں مست ہیں، ان کی فوجیں صرف اپنی رعایا پر ظلم کرنے، انہیں دبانے اور دبوچنے کیلئے رکھی گئی ہیں، ساری طاقتیں محض اپنی حکومت میں حق گو علماء کرام، افراد اور انسانیت پسند لوگوں کو سولی پر چڑھانے کیلئے کوشاں رہتی ہیں؛ صداقت، للہیت اور اسلامی اصولوں پر سر جھکانے والوں کی گردن زدنی میں خرچ ہوتی ہیں؛ تاکہ کوئی بغاوت نہ کردے، خاندانی اور شاہی نظام میں کوئی دخل اندازی نہ کردے اور ان کا ٹھاٹ باٹ بکھر نہ جانے، اس کیلئے انہوں نے طاغوت کی غلامی بھی اختیار کر لی، ان کی مرضی کا پٹہ بھی اپنے گلے میں ڈال لیا ہے، یہی وجہ کہ ان کی رگ جاں تبھی حرکت میں آتی ہے جب ان آقاؤں کی جانب سے اشارے ملتے ہیں، ان کے علاوہ تمام دولت، وسائل اور آمدنی صرف اپنی رعایا پر دباؤ دبانے اور عیش کدوں میں عیش کرنے کیلئے ہے، چنانچہ جس روز غزہ پر راکٹ قہر بن کر گراہے جارہے تھے، لوگوں کی سانسیں شعلہ باری اور گھٹن سے اکھڑ رہی تھیں، فلسطینی بھی مارے جارہے تھے (جس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے)، اور جب ایک ایک معصوم مرد و خواتین کو گولیوں بھونا جارہا تھا، اس وقت شاہ حرم اور پاکستان کے وزیر اعظم اعلی قسم کے دسترخوان سجا رہے تھے، افطاری پارٹی میں دونوں بغل گیر ہورہے تھے، محمد بن سلمان شاہی طرز بود و باش کا لطف لے رہا تھا، اے اللہ!!! یہ کتنے ظالم ہیں جو اپنے بھائیوں کے پیٹ پر بندھے پتھر نہیں دیکھتے، جنہیں چہرے سے بہتا خون نہیں دکھتا، بچے بچیوں کی بے عزتی اور خاص طور پر مسجد اقصی کی بے حرمتی نظر نہیں آتی!! قسم بخدا!! مظلوم فلسطینیوں کا خون اسرائیل سے زیادہ ان بدبخت عربوں پر ہے جنہوں نے اسلام کی آڑ میں حرم کو رسوا کردیا، قبلہ اول کو پامال کردیا، کوئی کہہ دے کہ اب تک عرب لیگ یا انفرادی طور پر سعودیہ نے ایک لفظ تک کہا ہو؛ بلکہ امریکی وزیر خارجہ نے اسرائیل کی حمایت کا اعلان کردیا ہے جو بلاشبہ شاہ حرم کے مولا ہیں! ایسے میں بھلا وہ کیا کہیں گے؟ جس کی گردن پر اپنے خاندان کے افراد کا خون اور اپنے ہی ملک کے معزز شہری (جمال خاشقجی) کا قتل ہو وہ کیسے زبان کھولے گا؟ آہ – – ایک طرف فلسطین کی بے بسی ہے، تو دوسری طرف امت مسلمہ کی بے ضمیری ہے، انسان کس کس پر آنسو بہائے! اب تو لگتا ہے کہ آنسو بھی خشک ہوجائیں گے، دل پتھر ہوجائے گا اور جسم میں کوئی نمو باقی نہ رہے گی، اپنے ایمانی بھائی بہنوں کی ایسی حالت اور قبلہ اول کی ایسی شکستگی دیکھ آنکھیں پھٹی ہوئی ہیں، کیا کیا جائے؟ کیسے اپنے بھائیوں کی مدد کی جائے؟ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا ہی چاہیے؛ لیکن اسی پر دل کا علاج نہیں، خون کا عوض سامان کیسے ہوسکتا ہے؟ قدس کی طہارت ان کے ناپاک سامن کیا کریں گے؟ مگر عرب کی بے حسی کے درمیان کڑوروں میل دور بیٹھے ہم ناتواں کیلئے شاید یہ بھی پڑھایا کا کام کرسکتا ہے- علامہ اقبال نے کہا تھا:
خودی کی موت سے پیرِ حرم ہُوا مجبور
کہ بیچ کھائے مسلماں کا جامٔہ احرام

[email protected]
7987972043

Comments are closed.