آپ کے شرعی مسائل؟

فقیہ عصرحضرت مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی مدظلہ العالی
بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد ۔ جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا
بچہ کی پیدائش پر تحفہ
سوال:- عام طورپر جب بچہ کی پیدائش ہوتی ہے تو اس وقت یا بعد میں لوگ بچہ کو دیکھنے آتے ہیں اور ہدیہ و تحفہ دیتے ہیں ، کیا اس طرح تحفہ دینا اور اس کا قبول کرنا جائز ہے ؟ ( محمد عامر ، گنٹور)
جواب :- بچہ کی ولادت ایک خوشی کا موقع ہے اور اس موقع پر جو ہدیہ و تحفہ دیا جاتا ہے ، وہ محبت و تعلق کے اظہار کے لئے دیا جاتا ہے ، نہ اس کا مطالبہ ہوتا ہے اور نہ دینی عمل سمجھ کر اس کا لین دین ہوتا ہے ؛ اس لئے اس میں کوئی حرج نہیں ہے، رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا : آپس میں تحفوں کا لین دین کیا کرو ، اس کی وجہ سے ایک دوسرے سے محبت پیدا ہوگی : ’’ تھادوا تحابوا‘‘ ( الادب المفرد:۱؍۳۰۶،باب قول الھدیۃ،حدیث نمبر:۵۹۴) ہدیہ یا دوسرے معاملات میں اصل ان کا جائز ہونا ہے ، سوائے اس کے کہ قرآن مجید میں ان کی ممانعت کی گئی ہو ، فقہ کا اُصول ہے : ’’ الاصل فی الاشیاء الاباحۃ ‘‘ ( المبسوط للسرخسی:۲۴؍۷۷،کتاب الاکراہ،باب تعدي العامل)
دوکانوں کے سامنے ٹھیلہ لگانے والوں سے اُجرت لینا؟
سوال:- شہروں میں آج کل تجارت کی ایک صورت یہ اختیار کی جاتی ہے کہ دو کانوں اور آفسوں کے سامنے ٹھیلے والے اپنے ٹھیلے لگالیتے ہیں اور تجارتی سامان بیچتے ہیں ، دوکان والے ان سے کرایہ وصول کرتے ہیں ، کیا اس طرح کرایہ وصول کرنا جائز ہے ؟ ( محمد امجد ، ملک پیٹ)
جواب :- کرایہ لگانے اور کرایہ وصول کرنے کے لئے شرعاً دو باتیں ضروری ہیں : ایک یہ کہ جو کرایہ وصول کرتا ہے، وہ اس جگہ کا مالک ہو ، دوسرے: جائز کام کے لئے وہ جگہ کرائے پر لگائی گئی ہو ؛ لہٰذا اگر دو کان کے سامنے کی جگہ خود دوکاندار کی ملکیت ہو اور ٹھیکہ والا جائز چیز کی تجارت کرتا ہو تو کرایہ پر لگانا بھی جائز ہے اور اس کی اُجرت بھی جائز ہے : ’’ أما شرط النفاذ فأنواع منھا … ومنھا الملک والولایۃ فلا تنفذ إجارۃ الفضولی لعدم الملک والولایۃ‘‘ ( بدائع الصنائع : ۴؍۱۷۷ ، کتاب الاجارہ) لیکن اگر وہ جگہ سرکار کی ہو ، سڑک کا فٹ پاتھ ہو جو پیدل چلنے والوں کے لئے ہوتا ہے ، یا حکومت کی طرف سے پارکنگ کی جگہ ہو تو یہ عوامی حق ہے ، ٹھیلے بنڈی والوں کے لئے بھی سرکاری قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وہاں ٹھیلہ لگانا جائز نہیں ہے اور دوکاندار کے لئے بھی اس کا کرایہ لینا حرام ہے ؛ کیوںکہ ان دونوں میں سے کوئی اس کا مالک نہیں ہے ؛ لہٰذا یہ غصب ہے ، افسوس کہ مسلمان اُمت ِدعوت ہونے کے باوجود ایسے ناجائز قبضہ کے سلسلہ میں زیادہ بدنام ہیں ، وباللہ التوفیق ۔
اسٹیڈیم میں ایسا کھیل دیکھنا جس میں بعض خلاف شرع امر موجود ہو
سوال:- شہروں میں کھیل کے لئے بڑے بڑے اسٹیڈیم بنے ہوئے ہیں ، جہاں لوگ مختلف قسم کے کھیلوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں ، بعض میچ خاتون کھلاڑیوں کے ہوتے ہیں ،بعض مردکے ہوتے ہیں؛ لیکن وہ صرف چڈی پہن کر کھیلتے ہیں تو کیا لوگوں کا اسٹیڈیم میں جانا اور کھیل دیکھنا جائز ہے اور اس کی اُجرت لینا درست ہے ؟ ( محمد سمیع اللہ ، دہلی )
جواب :- شرعی حدود کے ساتھ تفریح طبع جائز ہے ؛ لیکن مردوں کے لئے خاتون کھلاڑیوں کا کھیل دیکھنا یا مر دوں کو ایسے لباس میں دیکھنا جس میں ناف سے گھٹنوں تک کا حصہ چھپا ہوا نہیں ہو ، یا ناظرین میں بے پردہ خواتین موجود ہوں، انھیں دیکھنا جائز نہیں ہے،اور جس محفل میں ایسے گناہوں کا ارتکاب ہوتا ہو، وہاں جانا بھی درست نہیں ہے؛ اس لئے اگر یہ صورت حال ہوتوایسے کھیلوں کا دیکھنا اور اس کے لئے اسٹیڈیم جانا ناجائز ہے اور ایسے ناجائز کام پر اُجرت حاصل کرنا بھی جائز نہیں ہے: ’’ ولا تجوز الاجارۃ علی شیٔ من الغناء والنوح والمزامیر والطبل وشی ء من اللھو ولا علی الحدایٔ وقراء ۃ الشعر ولا غیرہ ولا أجر فی ذلک، وھذا کلہ قول أبی حنیفۃ وأبی یوسف و محمد ؛ لأنہ معصیۃ ولھو ولعب،والاستئجار علی المعاصی واللعب لا یجوز ‘‘۔ ( حاشیۃ الشلبی علی تبیین الحقائق : ۵؍۱۲۵ ، کتاب الاجارۃ ، باب الاجارۃ الفاسدۃ )
کیا قعدہ اولیٰ میں شریک ہونے والے کو تشہد پڑھنا ضروری ہے؟
سوال:- میں ظہر کی نماز کے لئے مسجد گیا ، امام صاحب قعدہ اولیٰ میں تھے ، میں ’’اللہ اکبر‘‘ کہہ کر بیٹھا ہی تھا کہ امام صاحب کھڑے ہوگئے اور میں بھی ساتھ ساتھ کھڑا ہوگیا ، میں تشہد نہیں پڑھ سکا ، میرے ایک ساتھی نے کہا کہ تم کو تشہد پڑھنا ضروری تھا ؛ کیوںکہ تم نے امام کو تشہد میں پالیا تھا ، بعض احباب نے کہا کہ تشہد پڑھنے کی ضرورت نہیں تھی ، اس سلسلہ میں صحیح حکم کیا ہے ؟ رہنمائی فرمائیں ؛ تاکہ مجھ جیسے دوسرے احباب بھی مسئلہ سے واقف ہوجائیں ۔ ( ذبیح اللہ ، سکندرآباد)
جواب :- ایسی صورت میں تشہد پڑھ لینا بہتر ہے، اور اچھا ہے کہ اگر امام صاحب پہلے اُٹھ جائیں تو مقتدی تشہد پڑھ کر امام کے ساتھ قیام میں شامل ہوجائے ؛ لیکن تشہد پڑھنا ضروری نہیں ہے ، پڑھنا بہتر اس لئے ہے کہ مقتدی کو امام کی اتباع کرنی چاہئے، اور ضروری اس لئے نہیں ہے کہ یہ قعدہ اس کے حق میں معتبرنہیں ہے؛اسی لئے یہ قعدہ اولیٰ شمار نہیں کیا جاتا،فقہاء نے اس مسئلہ کی صراحت کی ہے : ’’ إذا أدرک الامام فی التشھد وقام الامام قبل أن یتم المقتدی أو سلّم الامام فی آخر الصلوۃ قبل أن یتم المقتدی التشھد فالمختار أن یتم التشھد … وإن لم یتم أجزأہ ‘‘ ۔ (الفتاویٰ الہندیہ : ۱؍۹۰ ، کتاب الصلوٰۃ ، الفصل السادس فیما یتابع الامام ، نیز دیکھئے : مراقی الفلاح : ۲۵۱)
سبک دوش کردہ ملازم کو اعزازی طورپر چند ماہ کی تنخواہ دینا
سوال:- بعض مدارس یا تعلیمی اداروں میں ایسا ہوتا ہے کہ کسی استاذ کو خدمت سے اچانک سبک دوش کردیا گیا ؛ چوںکہ اس کو دوسری جگہ تلاش کرنے میں کچھ وقت لگتا ہے ؛ اس لئے اسے مدرسہ کی جانب سے دو تین ماہ یا اس سے زیادہ کی تنخواہ ادا کی جاتی ہے ، کیا ادارہ کے ذمہ داروں کا یہ تنخواہ دینا اور ملازم کا یہ قبول کرنا جائز ہوگا ، جب کہ اس نے ان ایام میں خدمت نہیں کی ہے ۔ ( نفیس احمد ، چارمینار)
جواب :- اس کا تعلق باہمی معاہدہ، ادارہ کے قواعد و ضوابط اور عرف سے ہے ، اگر ادارہ نے ملازم سے وعدہ کیا کہ وہ اس کو اچانک سبک دوش کرنے کی صورت میں تین یا چھ ماہ کی تنخواہ ادا کرے گا تو ادارہ پر وعدہ کا پورا کرنا واجب ہے ؛ کیوںکہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کو پورا کرنے کا حکم دیا ہے ، ( الاسراء:۳۴) اگر ادارہ اور ملازم کے درمیان باضابطہ معاہدہ نہیں ہوا ہے ؛ لیکن پہلے سے ادارہ کے قواعد و ضوابط میں یہ رعایت شامل ہو ، تب بھی ملازم کے لئے یہ خصوصی تنخواہ لینا جائز ہوگا ؛ کیوںکہ جب یہ بات پہلے سے قواعد و ضوابط میں شامل ہے اور اس کے باوجود لوگوں نے ادارہ کا تعاون کیا ہے تو یہ تعاون کرنے والوں کی طرف سے اجازت سمجھی جائے گی اور قواعد و ضوابط میں شامل ہونے کی وجہ سے یہ ملازمین سے ایک طرح کا عہد بھی ہے ؛ اس لئے ادارہ پر اپنے قواعد کے مطابق عمل کرنا واجب ہوگا ، اگر باضابطہ طورپر تحریری معاہدہ نہیں ہے اور نہ قواعد و ضوابط میں اس کی صراحت ہے ؛ لیکن ادارہ کے سبک دوش کرنے کی صورت میں چند ماہ کی اعزازی تنخواہ دینے کا عرف ہو اور عام طورپر اس نوعیت کے ادارے اپنے ملازمین کے ساتھ اس طرح کا حسن سلوک کرتے ہوں تو اس طرح کی رعایتی تنخواہ دینا جائز ہوگا ۔
اگر یہ تینوں صورتیں نہ ہو اور ادارہ کے ضابطہ میں یہ بات شامل ہو کہ ملازمین کو کبھی بھی سبک دوش کیا جاسکتا ہے ، تو ملازم مطالبہ تو نہیں کرسکتا ؛ لیکن ادارہ کی انتظامیہ کے یہاں فیصلہ کرنے کے جو اُصول مقرر ہیں ، اس اُصول کو برتتے ہوئے اعزازی طورپر چند ماہ کی تنخواہ دینے کا فیصلہ کیا گیا تو اس کی گنجائش ہے ، واللہ اعلم بالصواب ۔
گروپ میں الگ الگ کام کرنے والوں کی اُجرت برابر ہوگی یا کم و بیش؟
سوال:- بعض اوقات کئی لوگ گروپ بناکر کسی کام کا ٹھیکہ حاصل کرتے ہیں ، کوئی براہ راست مطلوبہ کام کو کرتا ہے اور کسی کو دوسرا معاون کام سونپا جاتا ہے ، جیسے کچھ لوگ کنسٹرکشن کی نگہداشت میں لگے ہوئے ہوں، اور ایک دو ساتھی پکوان کے کام میں مشغول ہیں تو کیا آمدنی میں یہ سب برابر کے شریک ہوں گے یا ان کی آمدنی میں کم و بیش کے اعتبار سے فرق کیا جائے گا ؟ ( رفیع خان ، ممبئی )
جواب :- عمل اور اُجرت میں باہمی معاہدہ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے ، اگر معاہدہ میں یہ بات طے پائی ہو کہ کچھ لوگ پکوان کا کام کریں گے اور ان کی اُجرت الگ ہوگی اور بقیہ لوگ تعمیری کام انجام دیں گے اور ان کی اُجرت علاحدہ ہوگی تو ایسی شکل میں جو معاہدہ ہوا ہو ، اس کے مطابق عمل ہوگا ؛ لیکن اگر کام اور کام کی مناسبت سے فرق کے ساتھ اجرت کا معاملہ طے نہیں پایا ہو ، اورآپسی رضامندی سے کچھ لوگ تعمیری کام انجام دیں اور کچھ لوگ پکوان کا کام کریں تو یہ جائز ہے ، اور کام کے فرق کے باوجود وہ سب برابری کے ساتھ اُجرت کے حقدار ہوں گے : ’’ تقسیم الأجرۃ علی الرء وس إذا کان الأجراء متعددین ؛ فلو استأجر انسان خمسۃ رجال لحفر بئر بخمسین قرشا فالأجرۃ تقسم بینھم بالتساوی، ولو کان عمل أحدھم أکثر من عمل الآخر منھم … فإذا مرض أحدھم ینظر فإن کانو قد قبلوا العمل مشترکین ؛ فلا تسقط أجرۃ المریض ؛ بل یأخذھا کاملۃ ‘‘ ۔ ( دیکھئے : مجلۃ الاحکام مع دررالحکام : ۱؍۴۵۸ ، مادہ : ۳۸۹)
سامان تجارت کو فروخت کرنے کے لئے سبحان اللہ وغیرہ کہنا
سوال:- بعض اوقات تجار اپنا سامان نکالتے ہیں ،لوگوں کو راغب کرنے کے لئے اس کی تعریف کرتے ہیں اور اس مقصد کے لئے ’ سبحان اللہ ، الحمد للہ ‘ بولتے ہیں ، مثلاً ’’اس کپڑے کے کیا کہنے ! سبحان اللہ ‘‘ یا یہ بہت عمدہ چیز ہے،’’ الحمد للہ ‘‘ تو کیا تعریف کے طورپر سبحان اللہ، الحمد للہ کہنے یااللھم صل علی محمدکہنے میں کوئی حرج ہے ؟ ( محمد جاوید ، کلکتہ )
جواب :- اللہ تعالیٰ کا نام لینا ،اللہ کی حمد کرنا ، اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ و سلام بھیجنا نہایت مبارک عمل ہے، اس سے بہتر کام کیا ہوسکتا ہے؟ زبان کے لئے باعث صد سعادت ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے ذکر سے تر ہو ؛ لیکن بے محل اور خسیس مقاصد کے لئے اللہ اور اس کے رسول کا ذکرکرنا ان پاک ناموں کی بے احترامی ہے ، ذکر کے جو اعلیٰ مقاصد ہیں، ان کے مقابلہ سامان کو بیچنا کمتر ؛ بلکہ کمترین عمل ہے؛ اس لئے گاہک کولبھانے اورخریدارکوراغب کرنے کے لئے حمد و تسبیح اور صلاۃ و سلام پڑھنا مکروہ ہے اور ان مبارک اذکار کی بے احترامی کی وجہ سے ایسا کرنے والا گنہگار ہوگا : ’’ ویکرہ فعلہ للتاجر عند فتح متاعہ بأن یقول عند فتح المتاع لا إلہ إلا اﷲ ، سبحان اﷲ ، أو یصلی علی محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فإنہ یأثم لأنہ یکون لأمر الدنیا ‘‘ ۔ ( مجمع الانہر : ۲؍۵۵۱)
Comments are closed.