سسٹم کا انتم سنسکار!

عاقل حسین
موبائل- 9709180100
بھارت میں کورونا کی ہولناکی جاری ہے۔ صرف حکومتیں اعلانات کررہی ہیں لیکن مرکز سے لے کر ریاست تک کی حکومتیں ابھی تک کورونا سے نپٹنے کے لئے کوئی ٹھوس انتظام کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ ملک کی ریاستوں میں، حکومتیں آکسیجن کی قلت پر قابو پانے اور کثیر تعداد میں ریمڈیسیور انجیکشن فراہم کرانے میں ناکام رہی ہیں۔ حکومتی نظام کا کورونا دور میں جنازہ نکل چکا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ بہار کے بکسر سے گزرنے والی گنگا ندی میں بہنے والی سینکڑوں لاشیں یہ بیاں کررہی ہیں۔ بہار کے ضلع بکسر کے چیسا اور سمری بلاک سے گزرنے والی گنگا ندی میں لاشیں تیرتی دیکھی گئیں جس کے بعد بہار حکومت اور بکسر ضلع انتظامیہ چوکس ہوتی ہے اور تیرتی ادھ جلی لاشوں کو نکال کر پوسٹ مارٹم کے بعد آخری رسومات کا عمل انجام دیتی ہے۔گنگا ندی میں تیرتی لاشوں نے حکومتی نظام کو بے نقاب کردیا۔ویسے بہار کے سرکاری افسران نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ تمام لاشیں گنگا ندی میں تیرتے ہوئے یوپی سے آئی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بکسر ضلع یوپی سے متصل ہے۔یہی وجہ ہے کہ بہار سے ملحق یوپی ریاست سے ادھ جلی لاشوں کو گنگا میں پھینک دیا گیا اور گنگا ندی میں بہتے ہوئے بہار کے بکسر ضلع میں پہنچ گئیں۔گنگا ندی میں تیرتی لاشوں کا تعلق یوپی ریاست سے ہے یا بہار کی ریاست سے ہے! سوال انسانیت کا ہے! سوال حکومتی نظام کا ہے! حکومتی نظام دم توڑ چکا ہے۔اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ایک سال میں مرکز سے لے کر ریاستوں تک کی حکومتوں نے نظام صحت کو درست کیوں نہیں کیا؟مرکز سے لے کر ریاستوں تک کی حکومتیں ایک سال سے صرف انتخابات میں مصروف رہی ہیں۔ سال 2020 میں بہار اور دہلی انتخابات کے ساتھ سال 2021 میں مغربی بنگال، آسام،تمل ناڈو،کیرالہ اور پنڈوچیری میں اسمبلی انتخابات میں لگی رہی۔ مرکزی حکومت سے لے کر ریاستوں تک کی حکومتیں عوام کو صرف ووٹر کے طور پر استعمال کرتی رہیں۔ کبھی بھی ملک کے عوام کی صحت کی پرواہ نہیں کی۔ اگر مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو عوام کی فکر ہوتی تو گجرات میں دنیا کے سب سے بڑے مودی اسٹیڈیم کی تعمیر سے لے کر 2990 کروڑ کے خرچ سے سب سے بڑا مجسمہ نہیں بنوایا جاتا۔ کورونا کے پہلے مرحلے کے بعد اگر حکومت سال 2020 سے لوگوں کی صحت کے بارے میں فکرمند رہتی تو ملک کی ریاستوں میں علاج ومعالجے کیلئے نئی ٹکنالوجی سے لیس بڑے بڑے اسپتال بنوائے جاتے جس میں آج کورونا دور میں ملک کی عوام کا علاج ہوتا اور آکسیجن کے فقدان میں لوگوں کی سانسیں نہیں ٹوٹتی لیکن جمہوریت یعنی عوام کی حکمرانی والے ملک میں حکومتیں اور ان کے وزراء اپنے عیش وآرام کے لئے عوام کی قربانی دے رہے ہیں۔ اب سوال یہاں تک پیدا ہونے لگا ہے کہ مرکزی حکومت جس نے بیرون ملک سے امداد نہیں لینے کا اعلان کیا تھا وہ حکومت اب کورونا دور میں غیرملکی امداد کی طرف آنکھیں بچھائے ہوئی ہے۔ جنوری 2021 میں پی ایم مودی نے ورلڈ اکنامک فورم کے داوس اجلاس میں دنیا سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستان نے کورونا وبا پر قابو پالیا ہے اور اس طرح دنیا کو ایک بڑے بحران سے بچالیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی دعوی کیا تھاکہ ان کی حکومت نے کورونا وبا سے نپٹنے کے لئے ایک ٹھوس نظام صحت بنالیا ہے۔دنیا نے ان کی باتوں پر یقین کرلیا۔ ہندوستان کے لوگ جانتے ہیں کہ وزیراعظم کے دعوی کرنے کی عادت پر ماضی میں بھی تنقید ہوتی رہی ہے۔کئی ممالک میں ہندوستان کے سفیر رہ چکے راجیو ڈوگرہ نے اعتراف کیا ہے کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ اپنے کاموں کی تشہیر کو کم کرتے تھے۔ ان کے بقول، سابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومت نے سائرن یا اشتہار لگاکر کوئی مدد فراہم نہیں کی۔ اس کے باوجود دسمبر 2004 میں سونامی کے دوران بیرون ملک یہ پیغام گیا کہ بھارت نے کتنا اچھا قدم اٹھایا ہے۔ اب غیرملکی میڈیا دیکھ رہا ہے کہ کس طرح ہندوستان میں کورونا کی دوسری لہر تباہی مچا رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں، اس کا نازک نظام صحت تباہی کے دہانے پر ہے۔ شمشان گھاٹوں پر جگہ کم پڑنے پر لاشوں کے آخری رسومات ادا کر ندیوں میں بہایا جارہا ہے۔ مریض آکسیجن کے لئے تڑپ رہے ہیں۔ لوگ آئی سی یو بیڈ کی کمی اور بہتر طبی خدمات کے فقدان میں مر رہے ہیں۔ یعنی مودی حکومت کورونا بحران سے نپٹنے میں پوری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ درجنوں ممالک طبی امداد بھیج رہے ہیں۔ مودی حکومت کورونا بحران سے نپٹنے کے بجائے اپنے خلاف تنقید اور کھلی بحث کو دبانے میں زیادہ وقت لگارہی ہے جو ناقابل معافی ہے۔ اب کورونا کی تیسری لہر آنے کی بات ہو رہی ہے۔ اگر ہندوستان تیسری لہر آنے سے پہلے اپنے صحت کے نظام کو ٹھیک نہیں کرتا ہے تو کورونا کی آنے والی تیسری لہر سے لوگ خدا بھروسے ہی رہیں گے۔ ہم ایسی بے بسی پر آ گئے ہیں کہ بہت سے سوالات اٹھتے ہیں۔ ہمیں خود سے یہ پوچھنا چاہئے کہ اعتماد سے بھرا ایک ملک جو ابھرتے ہوئے ستارے کی طرح تھا، جو چین کا مقابلہ کرنا چاہتا تھا اب وہ ایسی صورتحال میں آچکا ہے کہ غیر ملکی مدد لے رہا ہے! اور کورونا کی دوسری لہر سے ہندوستان اور وزیراعظم مودی کی شبیہ کو کتنا نقصان پہنچا ہے لوگوں کی اس پر مختلف رائے ہوسکتی ہے۔ لیکن موٹے طور پر یہ ضروری ہے کہ کوئی یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ مارچ 2020 سے مارچ 2021 کے درمیان ہندوستان کو جو کرنا چاہئے تھا اس نے وہ کام نہیں کیا۔
Comments are closed.