عظیم فلسطینی مجاہد محمد الضیف عزم وہمت اور جذبہ ایمانی کی ایک ناقابل یقین داستان

طلحہ السیف
محمد الضیف ابتداء سے ہی القسّام کے انٹیلی جنس شعبے سے وابستہ ہوئے۔اس شعبے کا کام خفیہ رہ کر اسرائیل کے اندر اہداف کی تلاش اور ان تک مجاہدین کی رسائی کو ممکن بنانا تھا۔وہ بظاہر تعلیم میں مشغول رہے اور حقیقت میں اپنی خداداد ذہانت، پختہ تدبیر اور صبر مندی کی طبعی خصوصیت بروئے کار لا کر اپنے کام کو مہارت سے انجام دیتے رہے۔چند سالوں میں ہی انہوں نے القسّام کے اس نیٹ ورک کو اسرائیل کے اندر ہر طرح کی کارروائیاں کرنے کے قابل بنا لیا۔اسی دوران ’’القسّام‘‘ کے کئی اعلیٰ کمانڈر شہادت نوش فرما گئے اور القسّام کی قیادت ان کے قریبی دوست ’’صلاح شحادۃ‘‘ کے ہاتھ میں آ گئی۔اس وقت ’’محمد الضیف‘‘ کو اپنے نیٹ ورک کو عملاً فعال بنانے کا حکم دیا گیا۔’’الضیف‘‘ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اسرائیلی سیکیورٹی جال کو توڑ کر تین اسرائیلی فوجیوں کو اغوا کیا اور کچھ دنوں بعد قتل کر کے تمام عالمِ یہود پر اپنی دہشت کا سکہ بٹھا دیا۔اسی طرح حماس کے میزائل سازی پروگرام کے بانی انجینئر ’’یحییٰ عیاش‘‘ کی شہادت کے بعد حماس قیادت کی طرف سے اسرائیل کے اندر انتقامی کارروائیاں کرنے کا اعلان کیا گیا تو اس اعلان کو عملی جامہ ’’محمد الضیف‘‘ کے نیٹ ورک نے ہی پہنایا اور 1996ء سے اگلے تین سال تک اسرائیل پے درپے فدائی حملوں سے گونجتا رہا۔اسرائیل کے انٹیلی جنس ادارے اس دوران یہ پتا لگانے میں کامیاب ہو گئے کہ اس ساری تباہ کاری کے پیچھے کون سا ذہن کارفرما ہے ۔ ہزاروں صفحات پر مشتمل رپورٹ ’’محمد الضیف‘‘ کے بارے میں تیار کر کے اسرائیلی حکومت کو دی گئی اور کہا گیا کہ جب تک اس شخص کو ٹھکانے نہ لگایا جائے گا اسرائیل خطرے میں رہے گا۔اسرائیل نے ہر طرح سے محمد الضیف تک رسائی کی کوشش کی،ہر طرح کے اسباب بروئے کار لائے،کثیر تعداد میں مال خرچ کیا لیکن وہ احتیاط پسندی اور خفیہ پن کی انتہائی حدوں کو پہنچے ہوئے الضیف کو ڈھونڈنے میں ناکام رہے۔2000ء میں فلسطین کی حکومت نے ایک سفر کے دوران الضیف کو گرفتار کر لیا۔اسرائیل کو اس کا علم ہوا تو اس نے فلسطینی اتھارٹی کو ہر طرح کی سودے بازی کی پیشکش کی کہ وہ جو چاہے لے کر الضیف کو اس کے حوالے کر دے۔یہ سودا آخری مراحل میں تھا کہ ’’محمد ‘‘ان کی جیل سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔کہا جاتا ہے کہ ’’الفتح ‘‘ میں موجود ان اسرائیل مخالف جہادی ذہن رکھنے والے بعض قائدین نے اس فرار کی راہ ہموار کی جو اپنی حکومت کے اس حرام سودے پر خوش نہ تھے۔بہرحال جو بھی ہوا اللہ تعالیٰ کی مدد سے ’’الضیف‘‘ اس جیل سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور پھر تاحال ان تک کوئی نہیں پہنچ سکا۔
۲۰۰۲ء میں ’’صلاح الشہادۃ‘‘ بھی جام شہادت نوش فرما گئے، تو القسّام کی باگ ڈور ’’الضیف‘‘ کے ہاتھ میں آ گئی لیکن انہوں نے اپنے رفیق ’’محمد الجعبری‘‘ کے بارے میں یہ تاثر عام کیا کہ وہ القسام کے قائد ہیں اور خود پس پردہ رہ کر ان مقاصد کی تکمیل میں کوشاں رہے جن کی خاطر انہوں نے روپوشی کی سخت زندگی اختیار کی تھی۔وہ مقصد تھا ’’القسام ‘‘ کی عسکری قوت کو ناقابل تسخیر حد تک بڑھانا اور اسرائیل کے مقابلے کے لئے ایسی افرادی اور مادی قوت کا حصول جو اس اسرائیل کی عسکری قوت کو صحیح معنوں میں ٹکر دے سکے۔حماس کی دینی قیادت شیخ احمد یٰسین ،پھر عبد العزیز رنتیسی اور اب خالد مشعل جیسے ان لوگوں کے ہاتھ میں رہی ہے جنہوں نے اپنے ذاتی کردار اور قرآنی دعوت کے ذریعے اس جماعت کے ایک ایک فرد کو جذبہ جہاد اور صحیح نظریہ جہاد سے مالا مال رکھا ہے اور حماس کو اس حوالے سے دنیا بھر کی عسکری تحریکوں میں ایک نمایاں مقام حاصل رہا ہے کہ اس سے وابستہ لوگ باوجود دنیوی تعلیم اور عوامی رہن سہن کے صحیح اسلامی نظریے اور ناقابل شکست نظریہ جہاد کے حاملین ہیں۔ دوسری طرف ’’محمد الضیف‘‘ اس محاذ پر سرگرم رہے کہ عسکری تربیت اور سازوسامان اور عسکری تدبیر و تکنیک میں بھی اس جماعت کو ایک امتیازی مقام پر لے جائیں۔ وہ اپنی اس سوچ میں کامیاب رہے اور انہوں نے اپنی لگن اور انتھک محنت سے حماس کو وہ جماعت بنا دیا جو دنیا کے کئی بڑے ممالک سے بہتر عسکری ٹیکنالوجی اور تدبیر کی حامل ہے۔حماس آج میزائل سازی میں خود کفیل ہے اور اس کایہ نیٹ ورک اس قدر فعال ہے کہ غزہ کے جیل جیسے تنگ و سخت ماحول میں ہر طرف سے شدید پابندیوں میں گھرے ہونے کے باوجود وہ ہزاروں میزائل کا ذخیرہ رکھتے ہیں اور پروڈکشن کا کام بلا رکاوٹ جاری رہتا ہے اور ساتھ ہی یہ نظام اس قدر پوشیدہ ہے کہ اسرائیل اور امریکہ ہزار کوششوں کے باوجود اس چھوٹے سے علاقے میں اسے ڈھونڈ نکالنے اور تباہ کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔یحییٰ عیاش کی شہادت کے وقت حماس زیادہ سے زیادہ 20 تا30 کلومیٹر مار کرنے والے میزائل رکھتی تھی۔آج ان کی یہ صلاحیت دو سو کلومیٹر سے زیادہ رینج والے میزائلوں سے تجاوز کر چکی ہے۔
حماس کے پاس کامیاب اور مؤثر ڈرون ٹیکنالوجی موجود ہے جس کا اس نے حالیہ آپریشن میں کامیابی سے استعمال کیا ہے۔یہ ٹیکنالوجی حماس نے مکمل ذاتی ذرائع سے حاصل کی ہے اور دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک کو اس میدان میں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
حماس کا انٹیلی جنس نیٹ ورک دنیا کا بہترین جاسوسی نظام شمار کیا جاتا ہے حتی کہ اسرائیلی اخبارات اس حالیہ آپریشن کے دوران یہاں تک لکھنے پر مجبور ہوئے کہ شاید اسرائیلی پارلیمنٹ ’’کنبست‘‘ اور اسرائیلی فوج کے اندر محمد الضیف کے جاسوس موجود ہیں۔حماس کا یہ نیٹ ورک اسرائیل کے اندر اس قدر فعال ہے کہ اسرائیل کی جانب سے بروئے کار لائے جانے والے ہر اقدام کی اطلاع اور اس کا دفاع پہلے سے تیار کر لیا گیا تھا اور اسرائیلی فوج نے اُن تمام مقامات کو بارودی سرنگوں اور القسام کے کمانڈوز سے پُر پایا جہاں سے ان کا خیال تھا کہ وہ خاموشی سے غزہ میں داخل ہو جائیں گے۔انہی پے درپے شکستوں کے زیر اثر مایہ ناز اسرائیلی دستے ’’جولان بریگیڈ‘‘ کا کمانڈر انچیف استعفیٰ دینے پر مجبور ہو گیا اور آپریشن کی کمان بھی اس دستے سے لے کر دوسروں کو منتقل کرنا پڑی۔یہ تھے وہ چند مقاصد جن کے حصول کے لئے ’’محمد الضیف‘‘ نے خود کو پوشیدہ رکھا ہوا تھا۔2012ء میں ’’محمد الجعبری‘‘ بھی اسرائیلی میزائل کا نشانہ بن گئے تو ’’الضیف‘‘ دنیا کے سامنے آئے اور ایک ویڈیو پیغام میں اسرائیل کویہ واضح پیغام دیا:
’’ ہم دو ٹوک الفاظ میں بتا دینا چاہتے ہیں کہ اسرائیل نے اب جب بھی ہماری سرزمین کی طرف پیش قدمی کی اسے بھاری قیمت چکانا ہو گی۔‘‘…
’’ ہم آج سے بیت المقدس کی آزادی کے مشن کا آغاز کر رہے ہیں ۔ہر آنے والا دن ہماری اس منزل کے قریب آنے کی خبر دے گا ۔‘‘…
اور پھر انہوں نے جو کچھ کہا اسے 2014ء کے آپریشن میں ثابت کر دکھایا۔
اسرائیلی کہتے ہیں کہ محمد الضیف ’’راس الافعی‘‘ (سانپ کا سر) ہے۔جب تک اسے کچلا نہ جائے گا ہم محفوظ نہیں ہو سکتے…
حماس کہتے ہیں’’ محمد الضیف‘‘ ہی وہ قائد ہیں جو ان شاء اللہ بیت القدس کو آزاد کرائیں گے اور اس پر اسلامی جھنڈا لہرائیں گے۔اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرمائے اور امت کے اس فخر کو سلامتی کے ساتھ کفار یہود کے سروں پر مسلط رکھے۔آمین
البتہ اس دوران وہ چار بار قاتلانہ حملوں کی زد میں آ چکے ہیں۔ان کی ایک آنکھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان ہو چکی ہے اور وہ کمر میں شدید چوٹ کہ وجہ سے چلنے پھرنے سے بھی معذور ہو چکے ہیں۔لیکن ان کا رعب اور خوف ہے کہ کم ہونے کی بجائے بڑھتا چلا گیا ہے۔گذشتہ ماہ کے اس آخری حملے میں وہ خود مکمل محفوظ رہے لیکن ان کی باوفا شریکِ حیات اور کمسن بیٹا ’’احمد‘‘ شہید ہو گئے۔۷ ستمبر بروز اتوار اسرائیلی ٹیلی ویژن نے اسرائیلی عوام سے حکومت کی طرف سے اس ناکامی پر معافی مانگی ہے اور بتایا ہے کہ مکمل اور یقینی انٹیلی جنس معلومات کی بناء پر کئے گئے اس آپریشن کی ناکامی کی وجہ یہ تھی کہ اس گھر پر فائر کیے جانے والے پہلے تینوں میزائل پھٹے نہیں۔تین منٹ بعد دو مزید میزائل فائر کیے گئے جن سے گھر مکمل تباہ ہو گیا ’’محمد الضیف‘‘ غالباً اس دوران وہاں سے نکلنے میں کامیاب رہے۔
محمد الضیف کے بارے میں آخری اور اہم سبق آموز بات جو ان کے انتہائی قریبی رفیق نے ذکر کی وہ یہ ہے کہ ان پر اپنے اسیر ساتھیوں کی فکر ہر وقت سوار رہتی ہے اور وہ انہیں رہا کرانے کے لئے بے چینی کے عالم میں کارروائیاں ترتیب دینے میں لگے رہتے ہیں۔اسرائیلی فوجی ’’گیلاد شالیط‘‘ کا زندہ اِغوا اور اس کے بدلے میں ہزاروں فلسطینیوں کی رہائی ان کی اسی فکر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔حالیہ آپریشن کے دوران بھی انہوں نے ’’القسّام‘‘ دستوں کو خصوصی تاکید کی کہ وہ زیادہ سے زیادہ یہودیوں کو زندہ گھیرنے کی کوشش کریں تاکہ ان کے بدلے قیدی چھڑائے جا سکیں۔
یہ ہیں امت مسلمہ کے اس حقیقی ہیرو کے مختصر احوال جو آج عالم کفر کے لئے دہشت و خوف اور اہل ایمان کے لئے فتح و نصرت کی علامت بن چکے ہیں۔’’مسجد کے خادم‘‘ سے لے کر ’’اسرائیل کے حقیقی حکمران‘‘ تک ان کے سفرِ حیات میں ہر مسلمان کے لئے ہر مجاہد کے لئے بہت سے اسباق ہیں۔اللہ تعالیٰ اپنے اس عظیم بندے کی ہر جہت سے حفاظت فرمائے۔یہ ہیں وہ لوگ جو اس بات کے حقیقی مستحق ہیں کہ انہیں جانا جائے اور ان سے محبت کی جائے ۔ ان کی محبت ہی لاکھوں اعمال سے قیمتی عمل اور گرانما یہ متاع ہے اور اس پر اپنی مغفرت کی امید رکھی جا سکتی ہے.
Comments are closed.