یہ پیرانِ کلیسا وحرم، اے وائے مجبوری!! [عرب ممالک کی بے دلی]

محمد صابر حسین ندوی
مسلمانوں کی زبوں حالی کی داستان لکھ لکھ کر انگلیاں فگار اور خامہ خوں چگار ہے، جگر چھلنی چھلنی ہے، دل کے سو ٹکڑے ہو کر بکھر گئے ہیں، نگاہیں اشکبار ہیں، سوز قلب میں پورا بدن نڈھال ہوا جاتا ہے، آخر کیوں نہ ہو، فلسطینی مظلومانہ شہادت کا مقام پارہے ہیں، ان کے بچے بھی زیر زمین پناہ لے رہے ہیں، عورتوں پر تشدد حد سے زیادہ ہے، بیت المقدس کی ایک ایک اینٹ ماتم کناں ہے، ہر دیوار، گنبد اور صحن صہیونیوں کی خباثت، رذالت اور دیوسیت سے اُوب چکی ہے، غزہ پٹی پر ہر روز میزائل سے حملے ہورہے ہیں، لگاتار دوسرا ہفتہ ہے کہ ایک چھوٹا خطہ اپنی بے بضاعتی اور بے سروسامانی کے باوجود میدان جنگ میں پیر گاڑ چکا ہے، اس کے بالمقابل مسلمانوں کے ستاون ممالک اب بھی بیان بازی، لفاظی، جملہ بازی اور ایک دوسرے پر چھینٹا کشی میں مبتلا ہیں، ہر دن اپنی نگاہوں کے سامنے اسرائیلی میزائلوں کی خونریزی دیکھتے ہیں، یہ شیطان اور دجال کے ہمنوا بچوں کو نشانہ بناتے ہیں، معصوموں کو خون کے آنسو رلاتے ہیں، موت زندگی سے زیادہ آسان اور سستی کردی گئی ہے اور یہ عرب حکمران اپنی اپنی پناہ گاہوں، عیش کدوں اور مال و دولت کی ریل پیل میں مگن ہیں، وہ سوز جگر، وحدت امت اور آہ سحر گاہی سے بے نیاز ہیں، وہ خودی، شاہین صفت، پرواز کی قوت اور سطوت پر شکوہ سے عاری ہیں، ان کے محل اور قلعے ایمان سے زیادہ مضبوط ہیں، قبر، حشر و نشر اور عنداللہ سرخروئی محض دعاؤں اور حرمین شریفین کی خدمت میں ہی مقید ہوگئی ہے، ان کے سینوں میں توحید امم کا تصور ناپید ہوچکا ہے، بلکہ مسلمانوں کو خطوں، علاقوں اور سرحدوں میں منقسم سمجھتے ہیں، اسلام کی جامعیت اور کاملیت کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے، بَس اپنے اپنے گھروندے بچانے اور نشیمن کو چمکانے کے سوا کوئی کام نہیں رہ گیا ہے، زمانہ جاہلیت کی ہر عادت و خصلت ان پر چسپاں ہونے لگی ہے، اسلامی لباس ان پر چست اور غیر متوازن لگنے لگا ہے، یہی وجہ ہے کہ کل ستاون ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی کی مشاورتی نشست بلائی گئی تھی، سعودی عرب، امارات، بحرین، لیبیا، اردن سے لیکر اکثر ممالک نے شرکت کی تھی، مگر کیا ہوا؟ صرف یہ کہ انہوں نے ایک مذمتی بیان جاری کردیا ہے، اسرائیل کو ظالم اور غاصب کہہ کر زبان بند کرلی ہے، قرار داد پاس کی ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ ظلم ہورہا ہے، اور اپنا سر شتر مرغ کی طرح زمین میں دھنسا کر بغلیں بجانے لگے ہیں – یا خدا!! یہ کیسے بندے ہیں؟ یہ تو یہودیوں سے بھی بدتر ہیں جو عین وقت پر کہا کرتے تھے: قَالُوْا یٰمُوْسٰۤی اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَھا اَبَدًا مَّا دَامُوْا فِیْھا فَاذْہَبْ اَنْتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا ھٰہُنا قٰعِدُوْنَ-(مائدہ:٢٤) "کہنے لگے: اے موسیٰ! جب تک وہ لوگ وہاں موجود ہیں ہم ہرگز قدم بھی نہیں رکھیں گے، آپ اور آپ کے پروردگار جائیں اورجنگ کریں، ہم تو یہیں بیٹھے رہیں گے” – – اس وقت جنگ فرض ہوچکی ہے، منادی عام والی صورتحال ہے، اپنے بھائی، بہن اور بیت المقدس کو تہہ و تیغ کیا جارہا ہے اور یہ کمبخت قرار داد پاس کر کے اپنے اپنے بلوں میں چھپ گئے ہیں، یہ بزدل کیسے مسلمان ہیں؟ یہ کیسے حکمران ہیں؟ اسلام تو مردانگی کی بات ہے، شجاعت، بہادری اور دلیری سے تعبیر ہے، اسلام میں ایسے بزدلانہ کام کی کیا گنجائش ہوسکتی ہے؟
مگر یہ بھی تو سچ ہے کہ یہ عرب باغی ہیں، خلافت عثمانیہ سے خروج کرنے والے ہیں، اسلام سے زمانہ جاہلیت کی طرف الٹے پیر لوٹنے والے ہیں، جاہلی حمیت اور غیرت کو عربیت و قومیت کی بنیاد بنا کر اسلام اور شیرازہ امت کو منتشر کرنے والے ہیں، برطانیہ کی گود میں بیٹھ کر حکمرانی کا جھنڈا تھامنے والے ہیں، اسرائیل کو بسا کر اپنے اپنے خیمے لگانے والے ہیں، بیت المقدس کا سودا کر کے حرمین شریفین کی خدمت کے نام پر امریکہ کی پناہ میں جا کر روٹی کھانے والے ہیں، بلاشبہ اللہ تعالی نے انہیں نواز اور خوب نوازا، محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ روحی) انہیں میں سے تھے، یہ مقام انہیں ملا سو مل گیا؛ لیکن ان کے بعد انہیں معزول بھی کردیا گیا، ترکوں کے عروج عربوں کو بتلایا تھا کہ اب تمہاری ضرورت قیادت کیلئے نہیں ہے، تمہیں معزول کردیا گیا ہے؛ چنانچہ سقوط بغداد (١٢٥٨ ء) کے بعد ترکان تیموری ہندوستان میں، ترکان صفوی ایران میں، ترکان سلجوقی مڈل ایسٹ میں اور پھر ترکان عثمانی ایشیا سے لیکر مشرقی یورپ اسلامی قیادت کے متحمل ہوئے؛ لیکن اس کے باوجود عربوں نے اپنے قائدین سے غداری کی اور چھوٹے چھوٹے خطے لیکر حکمران بن گئے، پھر بھی اللہ تعالی نے انہیں موقع دیا، خلافت عثمانیہ کے خاتمے (١٩٢٤ء) کے بعد پٹرول جیسا عظیم الشان انعام سے نوازا، اگر وہ چاہتے تو اس کی مدد سے پوری دنیا پر حکومت کر سکتے تھے، ایک ایک خطہ ان کا ہوسکتا تھا، مگر انہوں نے اپنی عیاشی کو ترجیح دی، اپنے عیش کدوں کو سجانے، شاہی خاندانوں کو اعلی زندگی فراہم. کرنے اور اپنی عوام. کو دبانے کیلئے افواج تیار کرنے ساری کاوشیں صرف کیں، اور امت کو بے سر و پا کر کے رکھ دیا، وہ یورپ کے سامراج اور امریکی اتحاد کے غلام بنے؛ مگر آزادانہ ریاست، مستحکم سلطنت کی بنیاد نہ رکھی، اور فرمان الہی: وَ اَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْہِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَ عَدُوَّکُمْ وَ اٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِہِمْ ۚ لَا تَعْلَمُوْنَہُمْ ۚ اَللّٰہُ یَعْلَمُہُمْ – (انفال: ٦٠) "اور ( اے مسلمانو!) ان کے مقابلہ جہاں تک ہوسکے ، طاقت اور گھوڑوں کی تیاری رکھو، جن سے اللہ کے دشمن، اپنے دشمن اوران کے علاوہ دوسرے لوگوں پر بھی — جن کو تم نہیں جانتے ، اللہ جانتے ہیں — تمہاری دھاک قائم رہے” کو بھول گئے، چنانچہ آج حالت یہ ہے کہ وہ اپنے مقام مقدسہ کی حفاظت نہیں کرسکتے، کچھ ہی فاصلے پر یہودی دجالیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں، مقام معراج کی تقدیس کو روند رہے ہیں، مگر اپنی فوج بھیجنا تو دور کی بات ہے کوئی خفیہ تعاون بھی گوارا نہیں ہے، حد تو یہ ہے کہ جو اسلامی علم لیکر اٹھا ہے، جس نے اپنا سینہ بیت المقدس کیلئے آگے کردیا ہے اور مادیت کے بجائے روحانیت پر دار ومدار رکھ کر صہیونیوں سے لوہا لیا ہے انہیں دہشت گرد کہتے ہیں، حماس اور اخوان ان کی آنکھوں کو کھٹکتے ہیں کہ کہیں جاہلیت کا لبادہ چاق نہ کردیں؛ ایسا لگتا ہے کہ پورا عالم عرب اس بات کیلئے تیار ہوچکا ہے کہ مسلمانوں کو ذلیل و خوار کر کے غلامی کی زنجیر پہنا دی جائے، جو راز کن فکاں ہے اسے اسیر بنا دیا جائے، اور سب کے سب یہود نواز بنتے ہوئے اپنے ہی ممالک کو ان کے سپرد کر بیٹھیں، بار الہا!! یہ نادان سمجھتے ہیں کہ یہودی ان کے دوست اور قریبی ہیں، انہیں مستحکم حکومت میں مدد کریں گے؟ تو وہ جان لیں کہ وہ دن دور نہیں جب ان کی گردنوں پر یہودیوں کی تلوار ہوگی، وہ بھی زندگی کو ترسیں گے جس طرح اہل فلسطین کی سانسیں اٹکی ہوئی ہیں، ویسے بھی اسرائیل مصر اور اردن کی سرحدوں میں گھس چکا ہے، دیر نہیں کہ گریٹر اسرائیل کا خواب پورا ہو اور پورا عرب ان کے زیر آجائے، اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ فلسطینیوں کے پاس حماس کی طاقت ہے جو اپنی بلند ہمتی اور ایمانی جوش سے ان کا مقابلہ کر رہے ہیں؛ لیکن بقیہ عرب تو اس کی بھی قدرت نہیں رکھتے، وہ گاجر مولی کی طرح کاٹ دئے جائیں گے یا پھر صیہونیت کا تمغہ گلے میں ڈال لیں گے-
ویسے کچھ دنوں قبل مولانا سلمان حسینی صاحب ندوی مدظلہ کی تقریر کا ایک حصہ تحریر کی صورت میں گردش کر رہا ہے جس میں انہیں صہاینة العرب کہا گیا ہے – آپ بھی پڑھیے تاکہ اندازہ ہوجائے کہ ان کی بزدلی نے کیسی معراج پائی ہے، ان کا مستقبل کتنا تاریک معلوم ہوتا ہے اور ان سے اہل فلسطین، بیت المقدس کیلئے تعاون، سوز جگر اور کسی بھی قسم کی پیش قدمی کی امید کرنا کس قدر ناسمجھی کی بات ہے:” صہاینة العرب ” کون ہیں؟ – – ”صہاینة العرب “ "عرب کے صہیونی ” بھی ایک مشہور و معروف اصطلاح ہے ، جس سے فلسطین کا بچہ بچہ واقف ہے ، "صہاینة العرب ” سے عرب کے وہ حکام امراء اور ملوک و سلاطین مراد ہیں جنکی صلیبیوں وصہیونیوں سے گہری دوستیاں ہیں، جنکی حکومتیں صلیبیوں و صہیونیوں کے تعاون سے قاٸم ہیں، جو عالم اسلام بطور خاص عالم عربی میں امریکہ و اسرائیل کے مفادات کے محافظ اور انکی پالیسیوں کو نافذ کرنے والے ہیں، جو صہیونیوں کے چشم و ابرو کے غلام ہیں، جو دکھاوے کے لٸے دینداری کے مظاہرے کرتے ہیں، دینی موضوعات پر جلسے و کانفرنسیں کرواتے ہیں، حج و عمرے کے انتظامات بھی کرتے ہیں؛ لیکن بباطن اسلام اور نظام اسلامی اور قانون اسلامی کے سخت دشمن ہیں، اسی لٸے عرب کے یہ صہاینہ (مصر کا سیسی ، سعودیہ کا بن سلمان، امارات کا محمد بن زاید و غیرہم) اسلامی تنظیموں اسلامی تحریکوں و جماعتوں اور اسلامی مفکرین کے پیچھے پڑے رہتے ہیں، ان کو ایک منٹ کیلئے بھی برداشت نہیں کر پاتے، عرب کے یہ صہاینہ، اسلام پسند علما صلحا و دُعاة کو جیلوں میں قید کرتے ہیں، عالم عربی میں جو عالم جو داعی اور جو صحافی بھی امریکہ و اسرائیل کے خلاف بات کرے یہ صہاینہ اس کو دہشت گرد قرار دیکر جیل میں ڈال دیتے ہیں، ان صہاینہ عرب نے فکر اسلامی کے سوتے خشک کرنے اور نظام اسلامی کو ناکام بناکر نظام کفر نافذ کرنے کیلئے علامہ یوسف القرضاوی،علامہ ابوالحسن ندویؒ، علامہ مودودیؒ سید قطب شہید اور شیخ حسن البنا جیسے چوٹی کے اسلام پسند علماء کے دہشت گرد ہونے کا اعلان کر رکھا ہے، اس لئے اسرائیلی صہیونیوں سے چھٹکارے کے ساتھ عرب کے ان ” صہاینہ “ سے بھی آزادی ضروری ہے، جب تک امت "صہاینہ عرب” سے مکمل آزادی حاصل نہیں کرتی اور اپنے اندر کے ان بدترین منافقین سے خلاصی نہیں پائے گی اس وقت تک امت کو نہ عزت نصیب ہوگی نہ امت اپنے مقدسات کا تحفظ ہی کرسکے گی، اور نہ ہی کہیں نظام اسلامی ہی نافذ ہوسکے گا، عرب کے یہ صہاینہ جب تک بھی باقی رہیں گے نظام اسلامی کا مقابلہ کرتے رہیں گے اور اسلام پسندوں کو قتل کرتے رہیں گے اسلامی تنظیموں و جماعتوں اور انکے سربراہوں کے خلاف سازشیں کرتے رہیں گے”-
یہ پیران کلیسا و حرم اے وائے مجبوری
صلہ ان کی کد و کاوش کا ہے سینوں کی بے نوری
حد ادراک سے باہر ہیں باتیں عشق و مستی کی
سمجھ میں اس قدر آیا کہ دل کی موت ہے دوری
وہ اپنے حسن کی مستی سے ہیں مجبور پیدائی
مری آنکھوں کی بینائی میں ہیں اسباب مستوری
کوئی تقدیر کی منطق سمجھ سکتا نہیں ورنہ
نہ تھے ترکان عثمانی سے کم ترکان تیموری
فقیران حرم کے ہاتھ اقبالؔ آ گیا کیونکر
میسر میر و سلطاں کو نہیں شاہین کافوری
7987972043
Comments are closed.