فلسطینی مجاہدین کے متعلق دو متضاد نظریے

 

 

از۔ محمد افضل محی الدین

 

خریج جامعہ سلفیہ بنارس

 

 

 

فلسطینی قضیہ ایک ایسا مسألہ ہے،جسے سنتے ہی دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں۔انسان چاہے کتنا ہی فاسق و فاجر کیوں نہ ہو،اس کی رگ حمیت پھڑک اٹھتی ہے اور بغیر اسرائیلی جارحیت کی مذمت اور عالم اسلام کی زبوں حالی و بے بسی پر افسوس کئے بغیر نہیں رہتا۔مسجد اقصی اور ارض فلسطین سے ہر مسلمان فرد کو ایمانی و قلبی و روحانی لگاؤ ہے اور ہونا بھی چاہئے،اسلئے کہ یہی ایمان کا تقاضہ ہے اور انسان کے زندہ دل ہونے کی دلیل ہے۔

 

قضیہ فلسطین ایک عالمی،اسلامی مسألہ ہے،اس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں۔لیکن بڑی خوبصورتی اور چالاکی سے اسے سب سے پہلے عربوں کا مسألہ بنایا گیا،پھر فلسطینی قضیہ کہ کر اپنا پلو چھاڑ لیا گیا۔بلا شبہ فلسطینی قضیہ ایک عالمی  اور اسلامی مسألہ ہے۔اسے قضیہ فلسطین کہ کر پکارنا یاد کرنا خود اپنے آپ میں ایک ظلم ہے اور اس عالمی مسألہ کے ساتھ کھلواڑ کرنا ہے۔

 

ہمارے ایمان کا تقاضہ ہے کہ ہر فرد اپنی اپنی استعداد اور استطاعت کے مطابق اس قضیہ کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر کھڑا رہے اور جہاں تک ہو سکے اس کا سپورٹ کرے۔

 

ہمارے یہاں سب سے بڑا مسألہ موقف کا ہے۔انسان چاہے کتنا بڑا تہجد گزار ہی کیوں نہ ہو اپنے غلط موقف کی بنیاد پر اپنا ٹھکانہ جہنم بنا سکتا ہے۔موقف تین طرح کا ہوتا ہے۔1-درست2-غلط3-توقف۔ انسان کی سب سے بڑی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ وہ حق کا متلاشی ہو اور جہاں کہیں بھی اسے حق ملے اسے قبول کرلے۔حق پسند ہونا انسان کے سب سے بڑے سچے ہونے کی دلیل ہوتی ہے۔ حقائق جب واضح ہوتے ہیں تو موقف کو طیے کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔موقف کو طیے کرنے میں رجحان، فکر و نظر اور منہج کا بہت بڑا دخل ہوتا ہے۔مشکل امر یہ ہے کہ ہمارے یہاں ہر چیز میں عجلت پائی جاتی ہے۔خصوصاعالم اسلام کی فضاء سیاسی و دینی ناحیہ سے مکدر ہے۔سوشل میڈیا اور نیوز ایجنسیاں،تحریکی و خارجی رجحانات،سیاسی و الحادی افکار نے عالم اسلام کی فضاء کو مزید غبار آلود کر دیا ہے۔ہر آدمی اپنے اپنے زاویہ فکر و نظر سے ہر ہہر معاملہ کو دیکھنے کا عادی ہے۔ردود،تقریری و تحریری سلسلے اور ہر طرح کے بیانیے نے اور زیادہ کنفیوز کر رکھا ہے۔عام آدمی پریشان ہے کرے تو کیا کرے؟؟جائے تو کہاں جائے؟ اسی لئے اصحاب فکر و نظر خصوصا علماء کرام کی دینی ذمہ واری بنتی ہے کہ ہر معاملے کو منہجی فریم میں فٹ کرنے کی کوشش کریں۔منہج ایک ایسا سانچہ ہے جو سہی کو سہی اور غلط کو غلط ثابت کرتا ہے۔علماءکرام کو چاہئے کہ وہ عالمی قضیہ کو منہجی سانچہ کے مطابق عوام کے سامنے پیش کریں۔اور اگر یہ ممکن نہیں ہے تو توقف اختیار کریں اور عوام کو اسی کا حکم دیں۔صرف رجحان اور غلط موقف کی وجہ سے کسی کی موافقت یا مخالفت کرنا جہالت و جاہلیت ہے۔

 

اس تغیر پذیر دنیا میں فکر و نظر کی تبدیلی بھی ہوتی ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ بدل جاتا ہے یا بدلتے رہتا ہے۔غیر منہجی فکر و نظر کی آمیزش اس قدر عام اور ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہے کہ فرق کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔بسا اوقات بڑے بڑے سورما تھک ہار کر خاموش بیٹھ جاتے ہیں۔لہذا ہر چیز کو تناسب کے زاویہ سے دیکھنا چاہئے۔آئڈیل لوگ،آئڈیل زمانہ اور مصادر اسلامی کے علاوہ کوئی بھی فرد،ماحول یا چیز آمیزش سے خالی نہیں ہے۔ بعض لوگ بڑے اصولی ہوتے ہیں اور اصولی باتیں کرتے ہیں،لیکن وہ حالات کے مطابق خود کو ڈھال نہیں پاتے۔انکی الگ ہی دنیا آباد ہوتی ہے۔ہر آدمی ان کی نظر میں غلط ہی ہوتا ہے۔میں یہ نہیں کہتا کہ اصولی باتیں نہیں ہونی چاہئے یا اصولوں کے مطابق لوگوں کو نہیں دیکھنا چاہئے ۔۔۔دیکھیں ضرور دیکھیں،مگر تعامل میں اصول تناسب کا خیال رکھیں،تاکہ تربیتی پروگرام کو طیے کیاجا سکے۔ فلسطینی مجاہدین،اسرائیل اور ایران کو ایک ہی زاویہ سے دیکھا درست نہیں۔فلسطینی مجاہدین کے متعلق دو زاویے بہت مشہور ہیں۔ایک تو وہ جو انہیں ایران نواز،یہودی ٹٹو اور نہ جانے کیا کیا قرار دیا ہے۔دوسرا یہ کہ آنکھ بند کرکے ان پر اعتماد کرنااور ان مجاہدین پر جرح کرنے والوں کو بالکل بھی خاطر میں نہ لانا ہے۔حقیقت یہ ہےکہ آئڈیل زمانہ ہے نہ آئڈیل لوگ ہیں۔ہمیں مجموعی طور پر ہر محاذ پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔کسی پر اتنا اعتماد نہیں ہونا چاہئے کہ وہ اعتقاد کا روپ دھار لے،نہ جرح اتنی شدید ہونی چاہئے کہ ہماری صفوں میں انتشار اور ہیجان برپا ہو جائے۔سورہ روم کی ابتدائی آیات ہمیں اسی بات کا درس دیتی ہیں کہ جب فضاء غبار آلود ہو اور فریقین میں سے دونوں غلط پر ہوں تو اصول تناسب کا لحاظ کیا جائے۔صرف سیاسی بیانات کے سہارے کسی کے متعلق موقف قائم نہیں کیا جا سکتا،ہاں دینی موقف طیے کرنے میں سہولت ضرور ہے۔حماس کے متعلق جن اجلہ اکابر علماء کرام نے کلام کیا ہے اور انکی منہجی غلطیوں کو واضح کیا ہے،ان سے اور انکے موقف سے بد ظن ہونے کی قطعا ضرورت نہیں ہے،نہ ان کا موقف کسی بھی فرد کو اجازت دیتا ہے کہ انکی شان میں گستاخی کرے۔بلا شبہ وہ ہم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والے تھے۔بغیر علم و جائزہ کے کسی کے متعلق کلام کرنے سے متعلق بہت زیادہ محتاط تھے۔ہماری یہ کوشش ہونی چاہئے کہ ہم دیکھیں کہ خلل کہاں ہے؟؟اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔جرح و تعدیل امر بالمعروف ونہی عن المنکر میں داخل ہے اور یہ تربیتی نقطہ نظر سے بہت مفید ہے۔اسے کے مثبت اثرات آگاہی بہت ضروری ہے۔

 

فلسطینی مجاہدین یا حماس کے متعلق یہ دونوں متضاد نظریے امت کے سالمیت کے حق میں مفید نہیں معلوم ہوتی ہیں۔اللہ تعالی ہم سب کو تمام طرح کے فتنوں سے محفوظ رکھے اور ہمیں امن و سلامتی عطا فرمائے۔آمین۔

Comments are closed.