نظر آئے گا اسی کو یہ جہان دوش و فردا
فلسطینی فتح کے قریب]

محمد صابر حسین ندوی
مسلمانوں کے سارے نقائص کے باوجود یہ حقیقت اب بھی مسلم ہے کہ اسی کی خاکستر میں وہ چنگاری ہے جس سے دنیا روشن ہوگی، اندھیرا چھٹے گا اور ایک نئی صبح ہوگی، وہ آج بھی "اللھم ان تھلک ھذہ العصابۃ لا تعبد” کا حق رکھتے ہیں، دیر سویر ظالموں کی قائم کردہ سلطنت کے پرخچے اڑیں گے، وہ جس ملعون سمت سے دنیا کو لے جانا چاہتے وہ نقشہ مٹادیا جائے گا، مسلمان دنیا کا محتسب اور خدائی فوجدار بن کر ابھریں گے، اسی لئے دنیا کے الگ الگ خطوں کہیں نہ کہیں اس کی مشعل بلند ہورہی ہے، بلاشبہ فتح و نصرت تو اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے، کامیابی و کامرانی کی کنجی اسی کے پاس ہے، اس کے سامنے طاقت و قوت اور اسباب و وسائل کی اہمیت صرف دنیاوی رو سے ہے، یہ ایک کائناتی پس منظر ہے؛ لیکن مسبب الأسباب تو وہی ہے، اگر اللہ تعالی انسان کو کوششیں کرنے اور اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان جنگ میں کودنے کا مکلف بنایا ہے تو ساتھ ہی توکل علی اللہ کی تلقین کرتا ہے، اور ظاہریت پر کلی اعتماد اور دنیاوی وسائل پر عامیانہ بھروسہ سے بھی روکتا ہے؛ ویسے بھی ایک مومن کیلئے سب سے بڑا ہتھیار اس کا ایمان ہے، جام شہادت نوش کرنے کی تڑپ، لذت موت اور عشق الہی سے سرشار ہو کر اس کی راہ میں قربان ہوجانا ہے، مؤمن تیغ و تفنگ کی پرواہ نہیں کرتا، بکتر بند گاڑیوں اور میزائلوں سے نہیں گھبراتا، راکٹوں کی آتش بازیوں اور مکاروں کی مکاریوں سے ہیبت نہیں کھاتا، تعداد اس کے سامنے معنی نہیں رکھتے، جنگی طیارے اور ٹکنالوجی سے بھرپور شیطانی حربے کی وقعت نہیں؛ بلکہ وہ ایمان کی شمشیر پر دھار لگاتا ہے، عقیدہ کے خنجر کو تیز کرتا ہے، شہادت کے تیر کو مضبوط کرتا ہے، اور میدان جنگ میں داد شجاعت ہی نہیں بلکہ حصول شہادت کیلئے کود پرتا ہے، پھر تیغ کیا چیز ہے وہ توپ سے لڑ جاتے ہیں، ٹینکوں کو بھوس بنا کر ہوا کردیتے ہیں، جس میں شیروں کے بھی پنجے اکھڑ جائیں، بھیڑیوں کی چیخیں نکل جائیں، بڑے بڑے بہادر پانی مانگنے لگیں، لوگ گھتم گھتا ہوجائیں اور ایک دوسرے پر ہی تلوار سوت لیں، لوگوں کے سینے ہانڈی کی ابلنے لگیں، اور ایسا لگے کہ آسمان کا کوئی ٹکڑا گر کر ان سب کو خاک کرنے والا ہے؛ ایسے عالم میں بھی ایک پیر جما کر دشمن کے دانت کھٹے کر دیتے ہیں، ان پر تزلزل کا عکس بھی نہیں پڑتا، دو عالم ان کے جوش شہادت سے ہیبت کھاتی ہے، پہاڑوں کی چوٹیاں اور کوہساروں کے کہرے چھٹ جاتے ہیں، آبشاروں میں تیزی پیدا ہوجاتی ہے اور سکوت سمندر میں طوفان برپا ہوجاتا ہے، قرآن مجید میں بھی "و اوعدو لھم مااستطعتم” کہہ کر دراصل اسی بات کی طرف توجہ مبذول کروائی گئی ہے؛ کہ تم بقدر استطاعت تیاری کرو، تلواریں، تیر اور تنفگ بناؤ، میزائل اور راکٹس تیار کرو، سرحدی علاقوں کی حفاظت کرو؛ لیکن اصل اعتماد رب ذوالجلال پر ہی کرنا ہے۔
یہ حق ہے کہ تاریخ میں جنگیں اسلحوں کی بنیاد پر لڑی جاتیں تو مسلمان شاید ہی کامیاب ہوتے، کفار، یہود، صلیبی، منگول انہیں اچک لیتے، دنیا کے کسی خطے میں چین و سکون نصیب نہ ہوتا، آپ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگوں پر بغائر نظر ڈالیے؛ بلکہ بدر کے بعد غزوہ احد اور فتح مکہ کے بعد حنین میں مسلمانوں کو ذرا ظاہری جوش کیا آیا؛ کہ اللہ تعالی نے ان کی سخت گرفت کی، تعداد اور اسلحے کے باوجود پسپائی کا سامنا کرنا پڑا، ان کے پاس اسلحے وافر مقدار میں تھے، نوجوانوں کی تعداد دوگنا تھی، جنگی تجربہ بھی ہوچکا تھا؛ لیکن اس کے باوجود جنگ میں شکست ہوگئی، اس کے بالمقابل جنگ بدر تو نمایا جنگ ہے جس میں ایک مٹھی بھر مسلمانوں کو ہزاروں کفاروں پر سبقت ملی، روم کی فوج سے مسلمانوں کی ایک معمولی تعداد نے دو بدو ایسا مقابلہ کیا کہ ان کی ہوائیاں اکھڑ گئیں، خیبر میں یہود زرہ میں سر تا قدم روپش تھے تب بھی ایک ایک کو کھینچ کر نکال بھگایا، اگر آپ نے سیرت النبی نہ پڑھی ہو تو ضرور پڑھیے! مگر یہ تو جن لوگوں نے حالیہ افغانستان کی صورتحال پر نظر رکھی ہوگی، جنہوں نے تیس سال تین عظیم طاقتوں سے جنگ مول لی، ان کے پاس کچھ نہیں تھا، بَس پہاڑیوں میں گزر بسر کرنے اور ایمان کا سوز و ساز ہی تھا جس کے دھن پر دنیا کے سپر پاور کی بخیہ ادھیڑ کر رکھ دی ہے اور ان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے اور انہیں ان کا حق دینے پر مجبور ہوگئے، اگر آپ ان سے بھی واقف نہیں تو پھر غزہ پٹی کو دیکھ لیجیے! فلسطین کے مغربی کنارے پر آباد بمشکل کچھ لاکھ کی تعداد والے اس خطے کے پاس یقیناً کچھ ظاہری اسباب ہیں؛ لیکن دنیا کی ایک عظیم طاقت کے سامنے وہ بونے ہیں، پھر بھی اسلامی حمیت وغیرت اور جوش شہادت نے پورے اسرائیل کی اینٹ سے اینٹ بجادی ہے اور اب وہ فتح سے کم پر راضی نہیں ہیں، انہوں نے شوق شہادت کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے، وہ اسی پر مسکراتے ہیں، سر فخر سے بلند کرتے ہیں، تین/تین بچوں کی لاشیں اٹھانے کے باوجود ان کی مائیں پرعزم ہیں، حوصلہ شکنی کی کوئی گنجائش نہیں ہے، بچہ بچہ میدان جنگ کا سپہ سالار ہے، اسرائیلی سربراہ نتن یاہو خفیہ ملاقاتیں کر رہے ہیں، گفت و شنید سے کام لیا جارہا ہے، جو بائیڈن بہت زیادہ متحرک ہیں، وہ ہر حال میں جنگ بندی چاہتے ہیں، اگرچہ انسانی حقوق اور اقوام متحدہ کی بات کا سہارا لیں؛ مگر اصل خوف انہیں غزہ کے باشندوں اور ان میں حماس تنظیم سے ہے، اور وہ جانتے ہیں کہ پہلے بھی اسرائیل اپنے بَل بوتے کوئی جنگ نہ جیت سکا ہے تو بھلا اس دفعہ کیسے فتح پا لے گا!؟
بلاشبہ امریکہ بھی جان چکا ہے کہ یہ دیوانے فاتحانہ علم اٹھا کر مانیں گے، اور یہودیوں کی آخری پناہ گاہ کو بھی برباد کردیں گے، اور اسرائیلی جارحیت کو گرد آلود کر کے ہی دم لیں گے، سر بکف نوجوانوں کو اب کوئی نہیں روک سکتا، واقعی صیہونی اور دنیا بھر کی دفاعی ایجینسیوں نے اس بات پر حیرت کا اظہار کی ہے کہ چاروں طرف سے اسرائیلی افواج سے گھری ہوئی غزہ پٹی جو انتہائی غربت کا شکار ہے، کسی طرح کی معدنیات یا وسائل ان کے پاس موجود نہیں ہیں، ان حالات مین القسام اپنے ہتھیار اور میزائلوں کی تعمیر کا کام کیسے انجام دے ر ہے ہیں اور کس طرح ان کی لمبی دوری تک مار کر کرنے اور تباہی پھیلانے کی صلاحیت میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے، صیہونی خفیہ ایجنسیوں کو سب سے زیادہ حیرت اس بات پر ہے کہ حماس کے پاس لوہے کی فیکٹریاں بھی نہیں، اس کے باوجود لمبی دوری تک مارکرنے اور آئرن ڈوم کو چکما دے کر اہداف کو نشانہ بنانے کی حیرت انگیز ٹیکنالوجی حماس نے کس طرح حاصل کرلی ہے، دو ہفتے سے زائد ہونے کو آئے ہیں اور اب تک کیسے لگاتار حملے کئے جارہے ہیں، اسرائیلی فوج نے اب تک سینکڑوں میزائلی حملے کئے ہیں اور ان کے متعدد لیڈران کو نشانہ بنایا ہے؛ مگر وہ کامیاب کیوں نہیں ہوپارہے ہیں؟ دنیا سکتہ میں ہے کہ ایک عام سی تنظیم سے سپر پاور کیونکر بوکھلایا ہوا ہے؟ جس کی پشت پناہی امریکہ سے لیکر دنیا کی تمام باطل طاقتیں کر رہی ہیں، اس کے باوجود تسبیح کے دانوں کی تعداد والے غزہ کو تباہ نہیں کر پارہے ہیں، بلکہ مزاحمتی تحریک کے سربراہ خالد مشعل کے ذریعے اقصی سیٹلائٹ چینل کے توسط سے خطاب میں جن باتوں کا ذکر کیا گیا ان میں سب سے نمایاں طور پر غزہ کی کامیابیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے، اور یہاں تک کہہ دیا ہے کہ فتح قریب ہے، چند بنیادی باتیں آپ بھی پڑھتے جائیں، کہتے ہیں: غزہ اور یروشلم میں ہمارے لوگوں نے انتفاضہ کی روح کو زندہ کیا ہے۔ غزہ نے یروشلم میں اپنی فتح کے ذریعے ناممکن کو ممکن بنایا۔ سخت حالات میں ہزاروں مزاحمتی میزائل تیار کئے گئے ہیں۔ صیہونیت پر فتح ممکن ہے اور بہت قریب ہے، انشاءاللہ – مزاحمت فلسطینی مقاصد کیلئے اہم سرخیوں کو واپس لے آئی۔ میں سب کو اس جنگ میں شامل ہونے کی دعوت دیتا ہوں۔ مغربی کنارے اور مقبوضہ داخلہ میں موجود انتفاضہ ممکن اور ضروری ہے۔ جو کچھ اس جنگ میں تباہ ہوا تھا اسے دوبارہ تعمیر کیا جائے گا۔ ہم فوج کی تعمیر کا انتظار نہیں کرتے جب تک کہ ہم آزادی کی جنگ میں داخل نہ ہوں اور ہم نے کئی سالوں سے آزادی کی راہ پر گامزن ہیں – دشمن ناکام رہا اور اس کے اندازے غلط ثابت ہویے؛ نیز وہ غزہ میں اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ صیہونی قابض مزاحمت سے شکست کھا جانے کے بعد اپنی کامیابی کے امکان جنگ بندی مین تلاش کررہا ہے- مزاحمت نے خود کو ایسی جنگ سے نمٹنے کے لئے تیار کیا جو ہفتوں اور مہینوں تک جاری رہے گا- صیہونی قابض دشمن سے اپنی مرضی کے مطابق جنگ بندی کریں گے، کیونکہ وہ اس جنگ کا تسلسل برداشت نہیں کرسکیں گے – – – – اس مجاہد اعظم کی باتیں غور سے پڑھیے! آپ کا ایمان تازہ ہوجائے گا، یقیناً اہل غزہ پر امتحاں ابھی باقی ہے، دشمنا اسلام کی یلغار ابھی ہوتی رہے گی؛ بلکہ شدت سے ہوگی، مگر اللہ کی ذات سے قوی امید ہے کہ نتیجتاً آج نہیں تو کل فلسطین کی آزادی، قدس کی بازیابی اور مسلمانوں کی فتح ہوگی، باطل رسوا ہوگا اور اس کا ٹھکانہ دردناک ہوگا-
تو ضمیر آسماں سے ابھی آشنا نہیں ہے
نہیں بے قرار کرتا تجھے غمزۂ ستارہ
ترے نیستاں میں ڈالا مرے نغمۂ سحر نے
مری خاک پے سپر میں جو نہاں تھا اک شرارہ
نظر آئے گا اسی کو یہ جہان دوش و فردا
جسے آ گئی میسر مری شوخی نظارہ
7987972043
Comments are closed.