ہماری نوجوان نسل نے بے حیائی کی ہر حد پار کر دی ۔

روحا غفور
دور حاضر میں دنیا دن بدن ترقی کی منازل طے کر رہی ہے ۔ ہر روز ہمیں کچھ نہ کچھ نیا دیکھنے کو ملتا ہے ۔ اسی ترقی کی منازل میں ایک کردار سوشل میڈیاکا بھی ہے ۔ سوشل میڈیا جو کہ ہمارے لئے بہت فائدہ مند ہے ۔ اس سے ہماری زندگی بہت سہل ہو گئی ہے ۔ اس سے ہمیں پیغام رسانی میں بہت آسانی پیدا ہو گئی ہے ۔ ہم گھر بیٹھے ، ای۔میل ، واٹس ایپ، اور فیس بک کے ذریعے ہزاروں میل بیٹھے ہوئے لوگوں سے رابطہ کر سکتے ہیں ۔ ان کو ویڈیو کال کے ذریعے دیکھ سکتے ہیں ۔ کاروبار میں ترقی بھی اسی کا نتیجہ ہے ۔ کاروبار کے حساب کتاب میں جہاں کئی گھنٹوں کا وقت درکار ہوتا تھا ۔ اب وہی کام منٹوں میں کر لیا جاتا ہے ۔
سوشل میڈیا کی بدولت دنیا سمٹ کر گلوبل ولیج بن گئی ہے ۔
لیکن عصر حاضر میں اس کے فوائد سے زیادہ نقصانات حاوی نظر آتے ہیں ۔
میں بات کرنا چاہوں گی ۔۔
سوشل میڈیا کی ابھرتی ہوئی اپلیکیشن ٹک ٹاک کی۔۔۔۔
جس نے پاکستان بلکہ دنیا بھر کے ممالک میں بے حیائی کا فتنہ برپا کر کے رکھا ہوا ہے ۔ اس وقت *ٹک ٹاک* بے حیائی ، فحاشی ، اور عریانیت کا بہترین اظہار ہے ۔ اس نے پوری طرح دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔ بچے ، نوجوان حتی کہ ہمارے بزرگ بھی اس فتنہ کی آگ میں جل کر راکھ ہو رہے ہیں ۔ ہر کوئی پاگلوں کی طرح اس کے پیچھے ہے ۔ خاص طور پر ہماری نوجوان نسل اس فتنہ کی زد میں ہے ۔
ہماری نوجوان نسل جنہوں نے بے حیائی کی ہر حد پار کر دی ہے ۔ دور قدیم میں جہاں غیرت کے نام پر بھائی اپنی بہنوں کا قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے ۔ آج وہی بھائی اپنی ماں ، بہنوں اور بیوی کے ساتھ ٹک ٹاک پر ویڈیوز بنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں ۔ آج ان کی غیرت بھی مر چکی ہے ۔ لڑکیاں بھی ان سے پیچھے نہیں رہی ہیں ۔ آج دنیا جس بے حیائی اور فحاشی کے موڑ پر کھڑی ہے ۔ تو اس کی سب سے بڑی وجہ صرف اور صرف عورت ہے ۔ آج کی لڑکیاں ٹک ٹاک پہ کھلے عام بے حیائی کا مظاہرہ کرتی نظر آ رہی ہیں ۔ چہرے پر دلہنوں کی طرح میک اپ کر کے ، بالوں کے عجیب و غریب سٹائل بنا کر ، واحیات اور عریانا لباس پہن کر بے حیائی اور فحاشی سے بھر پور تصویریں اور ویڈیوز اپلوڈ کر رہی ہیں ۔ لڑکوں کے ساتھ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر نازیبا گفتگو کر رہی ہیں ۔ اپنی عزت کو اپنے ہاتھوں سے پامال کر رہی ہیں ۔ چند لائیکس اور فالورز کی خاطر ایسی ایسی شرمناک حرکات کی جاتی ہیں ۔ کہ دنیا پناہ مانگے ۔ انہی شرمناک اور فحاشی سے بھر پور ویڈیوز کو دیکھ کر عوام بہت خوش ہوتی ہے ۔ ان وڈیوز پر آپس میں تبصرہ کیا جاتا ہے ۔ اور کمینٹس کیے جاتے ہیں ۔ اور انہی ویڈیوز بنانے والوں کو ان ٹک ٹاک سٹار بنا لیا جاتا ہے ۔ اتنے واحیات قسم کے کمینٹس پڑھ کر اور لائیکس لے کر سٹارز بھی بہت خوشی محسوس کرتے ہیں ۔ جیسے بہت بڑی جنگ عظیم فتح کر لی ہو ۔۔۔
یہ صرف آزاد نسل کا شیوہ نہیں ہے ۔ بلکہ ہمارے آس پاس رہنے والی اچھے گھرانے کی با عزت لڑکیاں جن کے سر سے کبھی دوپٹہ نہیں اترا تھا ۔ آج وہ لڑکیاں بھی *ٹک ٹاک* پہ کبھی اپنے پاؤں کی وڈیو اپلوڈ کرتی ہیں ۔ کبھی اپنے بالوں کی وڈیو اپلوڈ کرتی ہیں ۔ کبھی آدھے چہرے کی وڈیو بنا کر اپلوڈ کی جا رہی ہے ۔ کبھی واحیات قسم کے گانے گا کر ان پر فحاشی کا کھلے عام مظاہرہ کیا جا رہا ہوتا ہے ۔ ایک دوسرے سے زیادہ لائیکس اور فالورز لینے کے چکروں میں بے حیائی کی ہر حد پار کی جا رہی ہے ۔
افسوس کہ مجھے ایک لڑکی ہوتے ہوئے بھی کہنا پڑ رہا ہے ۔ کہ ان سب لڑکیوں کو بے حیائی کا مظاہرہ کرتے دیکھ کر آج لوگوں کو سنیما گھروں یا فحاشی کے اڈوں پر جانے کی ضرورت نہیں رہی ہے ۔ کیوں کہ یہ ضرورت ٹک ٹاک پر ہماری نام نہاد مسلمان لڑکیاں بہت اچھے طریقے سے پوری کر رہی ہیں ۔ جن کو دیکھنے کیلئے لیے نہ تو ہمارے پیسے لگتے ہیں ۔ اور نہ ہی ہمیں کسی فحاشی کے اڈے پر جانے کی ضرورت پیش آتی ہے ۔
بچے جو ہمارے ملک کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں ۔ جن سے ہم امید رکھتے ہیں ۔ کہ یہی بچے بڑے ہو کر اپنے ماں باپ اور ملک کا نام روشن کریں گے ۔ اور ایک اچھے شہری کی حیثیت سے اپنے ملک و قوم کی خدمت کریں گے ۔ آج یہی بچے ٹک ٹاک شوز دیکھتے ہیں ۔ اور ان کی نقل کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں ۔ اس میں قصور صرف ٹک ٹاکرز کا نہیں ہے ۔ ہم بھی اس میں برابر کے شریک ہیں ۔ ہم جیسے لوگ ہی ٹک ٹاک بنانے والوں کو دیکھتے ہیں ۔ ان کو سپورٹ کرتے ہیں ۔ اور اپنے بچوں کو یہ بے حیائی کا مظاہرہ دیکھنے کے لیے موبائل بھی ہم ہی دیتے ہیں ۔ ہم اپنے گھروں میں نظر دوڑائیں ۔۔۔۔۔ تو ہمیں پتا چلے گا ۔ کہ ہماری مائیں ، بہنیں بچوں کو موبائل خود فراہم کر رہی ہوتی ہیں ۔ بچے رو رہے ہیں ۔ تو موبائل دے کر چپ کروا دیا جاتا ہے ۔ بچے تنگ کر ہیں ۔ تو بھی موبائل دے کر اس سے نجات حاصل کی جا رہی ہوتی ہے ۔ اسی لیے ہم بھی اس فتنہ میں برابر کے شریک ہیں ۔
Comments are closed.