اچانک عید

تحریر: مریم راشد
انتیسواں روزہ اور رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس اسی گہماگہمی میں رات کا دس بج گیا مگر اعلان نہ ہو سکا۔ کسی نتیجہ تک کمیٹی نہ پہنچ سکی اور ہم بھی سو گئے تاکہ سحری میں ٹائم پے بیدار ہو کر سحری کی تیاریاں کرسکیں مگر گیارہ بج کے بیالیس منٹ پہ اچانک عید کا اعلان کر دیا گیا جبکہ مطلع ابرآلود تھا کہیں پہ بارش تھی تو کہیں پہ بادل تھے چاند کا نام منظر عام پر ناممکن ہی تھا۔ مگر اس اچانک عید کو قبول کر پانا بہت مشکل تھا باہر جب نکل کر گئے تو روڈ سنسان تھے، دکانیں بند تھیں، خواتین کو امور خانہ داری کی پریشانی لاحق تھی۔
دوسری طرف مرد حضرات کے لئے عید پر گھر کے اخراجات کی کے اندر پریشانی رہی۔ یہ پہلی عید تھی جو ہر گھر میں عید کی خوشیاں لے کر کم عجیب سی پریشانی کا باعث بن کر آئی تھی۔ بمشکل گھروں میں سویّاں پکائی گئی مگر ایک مڈل طبقے کے لیے مشکل لمحہ تھا۔ ایک طرف کرونا وائرس کی تباہیاں تو دوسری طرف مکمل لاک ڈاؤن کی وجہ سے روز کے دہاڑی دار کو جو مسائل درپیش تھے ان کے لیے یہ اچانک والی عید گزارنا مشکل ہی تھی۔ جو حالات اور واقعات ہیں ان پر غوروفکر کرتے ہوئے حکمرانوں یا رویت ہلال کمیٹی کو اس طرح کے اعلانات کرتے ہوئے ایک دفعہ مڈل کلاس دیہاڑی دار طبقہ کے بارے میں ضرور سوچنا چاہیے؛ کیوں کہ ایک طرف کرونا کی وبا نے تباہی مچاتے ہوئے ہمارے مزدور طبقے کے لیے بہت ساری مشکلیں کھڑی کر دی ہیں اور دوسری طرف ہمارے حکمران اور کمیٹی والوں کے ایسے اعلانات سے اس طبقہ کے اوپر جو تاثرات رونما ہونگے وہ الگ۔ جہاں ایک دیہاڑی دار طبقہ ایک وقت کی روٹی کے لیے جدوجہد کر رہا ہے وہاں دوسری طرف اچانک ہی اس طرح کے اعلانات کرنے سے کیسے وہ اپنے بچوں میں عید کی خوشیاں منا سکے گا؟ ہم ابھی بھی صحیح حکمت عملی پر عمل درآمد نہیں کریں گے تو پھر کب کریں گے؟ جب ایک غریب اپنی عید کی خوشیاں تو کیا ایک وقت کی روٹی کو بھی پورا کرنے کی خوشی منا نہیں سکے گی تب ہمیں ہوش آئے گا کہ ہمیں کوئی حکمت عملی کرنی ہے۔
Comments are closed.