ہونہار فرزند کے نامور والد رخصت ہوگئے

ابو معاویہ محمد معین الدین ندوی قاسمی
خادم تدریس
جامعہ نعمانیہ، ویکوٹہ، آندھرا پردیش
ہمارا ملک اول دن سے ہی اہل علم و فن کا مرکز رہا ہے، یہاں ایسی ایسی عبقری شخصیتیں پیدا ہوئیں ہیں، جن کو عرب بھی رشک و غبطہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اکثر و بیشتر اہل علم کے خاندان سے علم اٹھ گیا، بلکہ آج بعض علمی خاندان کا نام و نشان تک مٹ گیا۔
ملک میں چند ہی ایسے خاندان یا اہل علم ہیں جن کے فرزند نامور ہوۓ یا ہوتے ہیں، البتہ اکثر و بیشتر کو نامور کردیا جاتا ہے۔
موجودہ دور میں نامور فرزند ہونے والوں میں ایک نمایاں نام نواسہ شیخ الاسلام حضرت مفتی سلمان منصور پوری صاحب دامت برکاتہم (استاذ حدیث: جامعہ قاسمیہ، مدرسہ شاہی مراد آباد، یوپی) کا لیا جاسکتا ہے۔
اللہ تعالی نے حضرت والا کو ان گنت خوبیوں سے نوازا ہے، اللہ تعالی آپ کا سایہ ہم پر تادیر قائم رکھے (آمین)
آپ کی تعلیم وتربیت آپ کے نامور والد محترم نے کی ہے، اس دور قحط الرجال میں آپ کے والد محترم کی ہر سمت تعریف و توصیف کی جاتی ہے کہ اگر کسی نے اپنی اولاد کی درست ترتیب کی تو وہ حضرت قاری عثمان صاحب رح ہیں۔
حضرت مولانا قمرالزماں صاحب ندوی دامت برکاتہم (استاذ:مدرسہ نور الاسلام، کنڈہ، پڑتاب گڑھ، یوپی) اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:
*ہندوستان کے ایک بڑے اور جہاں دیدہ عالم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ علماء اور اہل علم کو اپنی اولاد کی تربیت کے حوالے سے حضرت قاری عثمان صاحب منصور پوری کو اپنا نمونہ اور آیڈیل بنانا چاہئے یقینا وہ مثالی باپ اور مثالی والد و مربی ہیں۔*
آہ! آج ایسے بے مثال اور باکمال والد و مربی سے حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم محروم ہوگئے، اور یہ کہا جاسکتا ہے:
*درد من کمتر ز درد حضرت یعقوب نیست*
*او پسر گم کردہ بود و من پدر گم کردہ ام*
یعنی میری تکلیف حضرت یعقوب علیہ السلام سے کم نہیں ہے، انہوں نے اپنے صاحب زادہ حضرت یوسف علیہ السلام کو کھویا تھا اور میں اپنے والد محترم کو کھویا ہوں۔
ابھی چند دنوں سے یہ خبر گردش میں تھی کہ حضرت قاری عثمان صاحب قدس سرہ کی طبیعت علیل چل رہی ہے، ملک و بیرون ملک میں پھیلے ہوئے آپ کے ہزارہا شاگرد و محبین آپ کی شفا اور صحت یابی کے لئے دعا گو تھے، فضلاء دیوبند کی زبانوں پر یہ دعا بار بار آرہی تھی، کہ بارالہا ابھی ابھی ہم دو عظیم پاک طینت پاک باز اساتذہ سے محروم ہوۓ ہیں، ہمارے اندر صبر کی سکت نہیں ہے، مولا! آزمائش میں ہم ناکام رہیں گے، اس لئے مزید آزمائش سے حفاظت فرما۔
لیکن ہر ایک کا وقت مقرر ہے وہ اسی وقت مقررہ پر اس فانی دنیا سے باقی عالم کی جانب کوچ کرتے ہیں، کل گذشتہ یہ الم ناک خبر آئی کہ حضرت قاری صاحب نوراللہ مرقدہ اب ہمارے درمیان نہیں رہے، دل کو سخت دھکا لگا، کیونکہ آپ ہمارے "مؤطاامام محمد” کے استاذ تھے۔
آپ کا گھنٹہ جمعہ کے دن نو بجے صبح ہوا کرتا تھا، اکثر و بیشتر طلباء جمعہ ہونے کی وجہ سے غیر حاضر ہوجاتے،اس لئے حاضری بھی لیا کرتے تھے، غیر حاضر ہونے پر آپ رح یہی سزا دیتے تھے کہ مطبخ سے طعام بند کر دیا جائے، کاتب السطور بھی ایک مرتبہ غالباً بعد نماز فجر سونے کی وجہ سے جانے سے رہا، اور جرم میں شامل ہوا ہے۔
آپ رح سادات خاندان سے تعلق رکھتے تھے، آپ رح ملک کے عظیم دینی درسگاہ مادر علمی دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث ومعاون مہتمم تھے، صد سالہ تنظیم "جمعیۃ علماء ہند” کے صدر اور ملک کے امیر الہند تھے۔
اللہ تعالی !
ہمیں آپ کا نعم البدل عطاء فرمائے، اور آپ کو جنت کا مکیں بناۓ۔(آمین)
Comments are closed.