صبا سے بھی نہ ملا تجھ کو بویے گل کا سراغ

[ترکی نے فوجی کارروائی کیوں نہیں کی؟]

 

 

محمد صابر حسین ندوی

 

 

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ترکی جناب طیب أردوغان مدظلہ کی قیادت میں ایک امید، نئی روشنی اور نئی راہ کی صورت میں ظاہر ہوا ہے، مغربی سامراج، عروج اور جہاں داری کے درمیان؛ نیز خلافت عثمانیہ کا سقوط، معاہدہ لوزان اور کمال اتاترک کی دین بیزار تحریک کے بعد بہت سے صاحب بصیرت اور صاحب دل کی محنت، سوز جگر اور انتھک کوششوں کے بعد آج ترکی اس لائق ہے کہ وہ اسلامی شعائر، وحدت امت اور دینی شعور کی نمائندگی کرے، مسلمانوں میں موجود سرد انگیٹھی کو گرم اور بھولا ہوا سبق یاد دلائے، اس کے باوجود یہ چراغ سخت طوفانی ہواؤں کا شکا ہے، کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ یہ چراغ سحر ہے جو بجھنے کو ہے، یا اس کا فتیلہ ختم ہو نے کو ہے، اب بھی ترکی میں اکثریت ان عوام کی ہے جنہیں لادین کہنا مناسب نہیں پھر بھی مغربی تہذیب و ثقافت کے سامنے سربسجود ہیں، وہ کسی خود رو گھاس کی طرح ہر کہیں اور ہر کبھی نکل آتے ہیں، متعدد دفعہ یہ دیکھا گیا ہے کہ اسلامی، فطری اصلاحات کے دوران بھی صدر محترم کو دشواریوں، احتجاج اور کالجز و یونیورسٹیوں کی جانب سے سخت رد عمل کا سامنا ہوا ہے، گزشتہ سال تھرڈ جینڈر کے سلسلے میں جب صدر محترم نے سخت تبصرہ کیا تھا، تب کئی دنوں تک استنبول میں احتجاج ہوئے تھے، مغربی میڈیا نے اس پر خوب بغلیں بجائی تھیں، ان سب کے باوجود کسے شک ہے کہ ترکی امت مسلمہ کیلئے اپنی ریاست، قوت اور ترقی کو خطرہ میں ڈالے ہوا ہے، ہم تاریخ کی بات نہیں کرتے؛ ورنہ ہم پر ان کی سنہری تاریخ تو اس قدر محسن ہے کہ ہے پوری امت تا قیامت ان کا احسان نہیں اتار سکتی؛ بلکہ فی الوقت بھی وہی ہیں جو اقوام متحدہ میں فلسطین کا نقشہ لیکر دنیا کو آئینہ دکھاتے ہیں، عرب ممالک کو جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں، ایران سے مذاکرات کرتے ہیں، کشمیر سے لیکر میانمار، فلسطین، آذربائیجان ہر کہیں ان کے نام کا شور ہے، حالیہ فلسطینی اور اسرائیلی جنگ میں روس کو امریکہ کے خلاف لے جانا، ایران اور پاکستان سے لیکر متعدد ممالک کو ساتھ میں لانا اور پھر اقوام متحدہ میں پر زور آواز بلند کرنا انہیں کا حصہ ہے، دانشور یہ بھی بتاتے ہیں کہ ایران اور ترکی نے حماس کی مسلح خفیہ مدد کی ہے؛ ویسے بھی اقوام متحدہ کے قیام اور عالمی سیاست کا ہیولہ کچھ ایسا ہوچکا ہے کہ مسلم ممالک کا یوں کسی ملک میں اقدام کرنا مشکل ہے، مغربی دجال اسی گھات میں بیٹھے رہتے ہیں؛ کہ کسی بھی قانونی داؤ پیچ میں الجھا کر ملک کو تباہ کردیا جائے، افغانستان، عراق، یمن، سیریا جیسے ممالک ہمارے سامنے ہیں؛ اسی طرح ترکی اب بھی فوجی اور سیاسی اعتبار سے اتنا مضبوط نہیں ہے کہ وہ علی الإعلان عالمی سطح پر جنگ چھیڑ دے، امریکی فوج، اسرائیلی میزائل اور عربوں کی منافقت کا کھلے عام سامنا کر لے، طیب أردوغان ایک ہوش مند اور دور رَس نگاہ رکھتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ کب کس طرح کا اقدام مناسب ہے، اس مرد قلندر کی بارگاہ میں قوم کی منفعت کے سوا کچھ نہیں ہے، وہ رجل علی ساعۃ المطلوب ہیں، افسوس کا مقام ہے کہ بعض لوگ نادانی کا ثبوت دیتے ہیں اور ترکی کو لفاظ کہنے کی جرأت کرتے ہیں، کاش وہ جانتے کہ ترکی مسلمانوں کیلئے کس طرح سینہ سپر ہے؛ بہرحال عالمی سیاست اور اس کی نزاکت کو سمجھنا پھر ان پر تبصرہ آسان بات نہیں ہے، جوش اور جذبات کے بجائے اب جنگیں میدان میں کم سیاست میں زیادہ لڑی جاتی ہیں، اسرائیل بھی اب تک اس لئے کامیاب نہیں ہے کہ اس کے پاس ہتھیاروں کا ذخیرہ ہے، یقیناً اس سے فرار نہیں لیکن ان کا اصل چہرہ منافقت، سیاست اور پس پشت خنجر مارنا ہے۔

فلسطین کیلئے ترکی فوجی کارروائی کیوں نہیں کرتا؟ اسے سمجھنے کیلئے برادر محترم مولانا طارق ایوبی ندوی دامت برکاتہم کی تحریر بعنوان – قضیہ فلسطین پر تبصرے چھانٹنا آسان نہیں – کا ایک اقتباس پڑھئے! جو چشم کشا اور مبنی برحقیقت ہے، آپ رقمطراز ہیں: "ترکی جو بارود کے ڈھیر پر ہے، ۳۲ دانت کے منہ میں تنہا زبان ہے، اپنے بھی اس سے خفا اور بیگانے بھی ناخوش ہیں، ناکام فوجی انقلاب اور معاشی طور پر اسے توڑنے کی کوشش میں اپنے اور بیگانے دونوں ہی شریک رہے ہیں، موجودہ ترک قیادت کو وراثت میں یہود نوازی اور لادینیت و اسرائیل نوازی ملی تھی، مگر موجودہ قیادت اسے برابری کی سطح پر لائی، اور بہت سے شعبوں میں معاہدات ختم کئے، اگر اسرائیل کے ساتھ اس کی تجارتی شراکت ہے تو فلسطین کے ساتھ اس کا تعاون بالکل واضح اور حماس کے تئیں اسکا موقف بالکل دو ٹوک ہے، ترکی کے موجودہ بیانات سے اندازہ ہوتا ہے؛ کہ اگر منافق عرب و مصر ساتھ دے دیں، تو ترکی عملی کارروائی میں کسی سے پیچھے نہیں رہ سکتا؛ بلکہ جرات مندانہ فوجی قیادت کرے گا، نادانوں کو یاد نہیں کہ موجودہ ترک قیادت نے مصر و شام میں انقلاب کو مکمل سپورٹ کیا تھا، جبکہ عربی ممالک اور امریکہ نے مکمل مخالفت کی تھی، وجہ صاف تھی کہ اگر مصروشام اسلام پسندوں کے ہاتھ آ جاتے تو آج یہ صورت حال نہ ہوتی ، نادانوں کو مرسی شہید کا یک سالہ دور حکومت یاد کر لینا چاہیئے، سعودیہ و مصر کی نکمی اور اسلام دشمن نارملائیزیشن کی حامی قیادتوں سے بھی ترکی یکطرفہ طور تعلقات بہتر بنا کر کسی عملی کارروائی تک پہنچنے کیلئے کوشاں ہے؛ جبکہ صورت حال ایسی بنائی جا رہی ہے کہ ترکی کسی بھی طرح کچھ ایسا کر گزرے جس سے وہ پھر ۵۰ سال پیچھے چلا جائے، جس طرح بہی خواہان معاہدہ لوزان کے اختتام کو دیکھنا چاہتے ہیں اسی طرح امریکہ اور اسکے حواری موجودہ ترک قیادت کو اس نقطہ اختتام تک پہنچنے ہی نہیں دینا چاہتے ہیں، خود ترکی کی اندرونی صورت حال طویل عرصہ کی محنت کے بعد بھی یہ ہے کہ نصف آبادی آج بھی سیکولرزم کے نام پر کسی مذہبی جنگ میں کودنے کی اجازت نہیں دے گی، یہ تو معلوم ہی ہو گا اور انتخابات کے نتائج بھی یہی بتاتے ہیں کہ نصف آبادی اسلام پسندوں کو نہیں پسند کرتی، اردوغان کا ایک جذباتی فیصلہ اور ایک سیاسی غلطی ترکی کو اربکان رح سے پہلے کے دور میں پہنچا دے گی، عالمی طاقتیں تو یہ چاہتی ہی ہیں؛ کہ میاں صاحب ایک غلطی کریں اور ابلیس کی مجلس شوری ان پر مزید نئی پابندیاں عائد کر دے ۔ اردوغان اب تک جن حکمت عملیوں سے یہاں تک پہنچے ہیں ہمیں امید ہیکہ معاہدہ لوزان کے ختم ہونے کے بعد بھی قیادت وہی کریں گے، اور وہی فیصلہ کن مرحلہ ہو گا جبکہ ترکی جنگ کے میدان میں ہوگا اور دنیا کا نقشہ کچھ اور ہو گا۔ بہر حال درد دل اپنی جگہ مگر قضیہ فلسطین کی ابتدا و انتہا کو سمجھنا بہت ضروری ہے، عالمی سیاست پر تبصرہ کرنا اور من چاہے مطالبے کرنا تو آسان ہے مگر کام کرنے والوں کی مشکلات کو سمجھنا اور کام کا منصفانہ تجزیہ کرنا خود ایک مشکل کام ہے، اتنا طے ہے کہ فلسطین آخری میدان جنگ ہو گا، مسجد اقصی شہید ہو گی، ہیکل دجال کی تعمیر ہو گی جس کیلئے اسرائیل بےتاب ہے ، پھر اس کے بعد مسلمانوں کا عروج ہو گا، اس وقت اہم یہ ہو گا کہ کون اہل ایمان کا حامی ہے خواہ قول سے ہو یا فعل سے اور کون دجالی طاقتوں کے خیمے میں کھڑا ہے "۔ (١٩/ مئی ٢٠٢١)

ملے گا منزل مقصود کا اسي کو سراغ

اندھيري شب ميں ہے چيتے کي آنکھ جس کا چراغ

 

ميسر آتي ہے فرصت فقط غلاموں کو

نہيں ہے بندہ حر کے ليے جہاں ميں فراغ

 

فروغ مغربياں خيرہ کر رہا ہے تجھے

تري نظر کا نگہباں ہو صاحب ‘مازاغ’

 

وہ بزم عيش ہے مہمان يک نفس دو نفس

چمک رہے ہيں مثال ستارہ جس کے اياغ

 

کيا ہے تجھ کو کتابوں نے کور ذوق اتنا

صبا سے بھی نہ ملا تجھ کو بوئے گل کا سراغ

 

 

[email protected]

7987972043

Comments are closed.