صفحۂ ہستی سے مٹتا فلسطین اور بدلتے انصاف و ظلم کے پیمانے

ناصر مصباحی رامپوری
صہیون نواز عالمی ممالک, عالمی میڈیا, بھارت کے سنگھی عناصر اور گودی میڈیا, اسرائیل دوست عرب حکمران, اور ایک طبقہ وہ جو انصاف مزاج تو ہے تاہم وہ چیزوں سے آگاہ نہیں, صرف سرسری فہم سے کام لے رہا ہے.
یہ سب مل کر فلسطین اور اسرائیل کی لڑائی کو صرف دو مرحلوں سے شروع کرتے ہیں, بہت زیادہ تو یہاں سے کہ حماس اسرائیل پر آتنکی حملے کرتا ہے, حماس پُر امن بات چیت میں یقین نہیں رکھتا, جیسے الفتح اور محمود عباس رکھتے ہیں
جب کہ کوئی بھی مسئلہ صرف بات چیت سے ہی حل ہو سکتا ہے, تشدد اور راکٹوں سے نہیں, ایسے میں اسرائیل کو غزہ پر مجبوراً جوابی کاروائی کرنا پڑتی ہے, اور اسرائیل کو اپنے دفاع اور شہریوں کی حفاظت کا مکمل حق حاصل ہے.
مذکورہ لوگوں اور متعصب میڈیا کا دوسرا مرحلۂ بات چیت, اقوام متحدہ کا تقسیم پلان ہے, کہا جاتا ہے کہ جب اقوام متحدہ نے بٹوارہ کرا دیا, جب فلسطین کو اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے بیچ ففٹی ففٹی بانٹ دیا.
جب کہ شہرِ بیت المقدس کسی کو نہ دے کر مستقل آزاد عالمی شہر قرار دے کر اس کا نظم و نسق اپنے کنٹرول میں لے لیا, اور پھر جب اِن سب چیزوں پر فریقین نے اتفاقِ راے بھی کر لیا تھا, تو آج یہ راکٹ بازی کیوں؟ آج یہ لڑائی کیوں؟
خلاصہ یہ کہ مذکورہ لوگ عموماً بات چیت کو اِنہیں دو مرحلوں سے شروع کرتے ہیں, اور پھر انصاف اور فیصلہ چاہتے ہیں, جو سراسر اَن دیکھی اور ظلم ہے, یہاں سے بات شروع کرنے کا مطلب ہے ڈاکہ زنی اور ملکیت کو ایک پلے میں رکھنا اور مسروقہ سامان مالک کو نہ دے کر ڈاکو اور مالک کے بیچ آدھا آدھا بانٹ دینا.
جب کہ بات کی اصل شروعات کم از کم پہلی جنگ عظیم 1916ء سے ہونا چاہیے کہ جب فلسطین میں صرف 7-8 فیصد یہودی تھے, حالاں کہ ان میں بھی زیادہ تر 1880 کے بعد سے یہاں آکر بسے تھے, یہاں سوال ہے کہ یہ لوگ کیوں اہلِ فسطین کی اجازت کے بغیر فلسطین میں آکر بسے؟
چلیے برداشت ہوا, لیکن پھر برطانیہ نے پہلی جنگ عظیم کے بعد دنیا بھر سے یہودی بلا کر یہاں کیوں بھر دیے؟ یہاں تک کہ صرف 1947 تک پہنچتے پینچتے فلسطینی آبادی میں ان کا فیصد 30-35 ہو گیا, کیوں؟ تو دراصل یہ جو آج اسرائیلی شہری ہیں یہ بے گناہ شہری نہیں, بلکہ غاصب و مجرم ہیں.
اب یہاں کئی باتیں کہی جاتی ہیں, کہ مثلاً یہود اصلاً یہیں کے باشندے تھے, اس پر ہمارا کہنا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام تو ہند میں اُترے تھے, اس اعتبار سے یہودی اصلاً بھارتی ہوئے, نہ کہ فلسطینی, فلسطین کی طرف تو اُنہوں نے ہجرت کی تھی.
اور اگر زیادہ دن رہ جانے سے وہاں کے اصلی باشندے بن گئے تو یورپ میں بھی رہتے رہتے کم صدیاں نہیں گزری ہیں, یہود وہاں کے اصلی باشندے کیوں نہیں ہوئے؟ یا پھر بتایا جائے کہ وہ کون سا ضابطہ ہے کہ جس کے مطابق نہ ہند کے, نہ یورپ کے, صرف فلسطین کے اصلی باشندے بن گئے؟
پھر آگر اصل وطن کے اعتبار سے یہ لاجک مان لی جائے, تو پھر جو فلسطینی, یورپ جانے والے یہودیوں کی طرح پہلے کبھی یورپ یا مُلکِ دیگر نہیں گئے بلکہ ہمیشہ یہیں رہے, اُن کو اُن کے اصلی گھر اور شہر سے کس جرم میں بے دخل کیا جارہا ہے؟
کیا اُن کا یہ جرم ہے کہ اسلام آنے کے بعد وہ اسلام کی پناہ میں آگئے؟ اگر ایسا ہے تو اس سے فرق کیا پڑتا ہے, وطن تو اُن کا بھی یہی اصلی ہے, اور وطن ہی آپ کی دلیل ہے, نہ کہ مذہب, پھر آپ اُن کو کیوں ستا رہے, نکال رہے ہیں؟
اور اگر مسئلہ مذہب کا ہے, تو اس میں بھی مسلمانوں کا پلہ یہود سے ہلکا نہیں, یہود وہ قوم ہے جو عیسی و محمد عربی کو نہیں مانتی, عیسائی وہ قوم ہے جو محمد عربی تو نہیں مانتی, صرف مسلمان ہیں جو کسی نبی کو مِس نہیں کرتے (علیہ وعلیم الصلوۃ التسلیم).
مسلمان سارے انبیاے اِلہی, سارے ادیانِ سماوی, ساری کتبِ بشمول زبور و توریت کو تسلیم کرتے ہیں, بعض فروعی تشریعات کو چھوڑ کر جملہ اساسیاتِ ادیانِ سماویہ کا عقیدہ رکھتے ہیں, تو مذہبی اعتبار سے بھی مسلمان قدس و فلسطین کیوں چھوڑیں؟
بلکہ بڑے بھائی ہونے اور جامع دین رکھنے کے ناطے اصل مستحق ہی مسلمان ہیں, ایسا ہو سکتا ہے کہ محمد عربی علیہ السلام اور آپ سے شدید منسوب بعض مقدسات کو یہودی یا عیسائی نقصان پہنچائیں, ان کی حفاظت, اُن کا احترام نہ کریں, لیکن مسلمانوں سے برعکس کی توقع نہیں, کیوں کہ مسلمانوں پر جملہ انبیاے سابقین اور ان کے متروکات کا احترام واجب و فرض ہے.
اب رہی یہودیوں پر ظلم کی بات, تو یہ کہاں کی لاجک ہے کہ ظلم کریں عیسائی اور سزا بُھگتیں مسلمان, گھر زمین صلب کرے یورپی عیسائی, اور بدلے میں ہرجانہ بھریں ایشیا کے مسلمان, حق چھینے عیسائی کا بھیا ہٹلر, اور بھرپائی کرے مسلم فلسطین, وہ بھی جبراً؟
چلیے تھوڑی دیر کو یہ منطق بھی مان لی, تو آج میانماری مسلمان بھی بہت دربدر بھٹک رہے ہیں, کیا اُن کو بھی اسرائیل میں پناہ و شہریت ملے گی؟ یا خود یورپ و امریکہ اُن کے لیے اپنی زمین کشادہ کرنے کا حوصلہ جُٹائے گا؟
یہ تو سب سے بہتر رہے کہ اسرائیل کو یہودی نسل و مذہب کا ملک بنانے کے بجاے بلا امتیاز نسل و مذہب دنیا بھر کے ستائے مہاجرین کا ملک قرار دے دیا جائے, اسے ایک ایسا ملک ڈکلیر کر دیا جائے, اُسے مخلوط نسل و مذہب ملک ڈکلیر کیا جائے؟ انسانیت کا غیر متعصب جذبہ تو یہ ہے.
اب آجائیے دوسری جنگ عظیم کے بعد 1948 میں اقوام متحدہ کے تقسیم پلان پر, بھائی آپ تھوڑے بہت کونے کے بجاے کسی کو ڈائرکٹ آدھا ملک کیوں دو گے, حرام کا ہے؟ کیا صدیوں اہلِ فلسطین نے اپنے ملک کی یہی دن دیکھنے کے لیے تعمیر و حفاظت کی؟
پھر اس ظالمانہ پلان پر آپ نے فلسطینی عوام کے بیچ ریفرینڈم کرایا؟ یا صرف اپنی ایک کٹھپتلی سے دستخط کروا لیے؟ اور کیا آپ نے پڑوسی ملکوں سے پوچھا, یا زبردستی اُن کی سرحدوں سے چپکا کر ایک شیطان کو بسا دیا؟
ہم کہتے ہیں کہ بھارت کی چین سے متصل سرحد پر امریکہ تو کسی کو بسائے, امریکہ سے متصل کسی ملکِ دیگر کے بارڈر پر چین تو کسی کو بٹھائے, یا دنیا میں کہیں بھی کوئی ایسا کر کے تو دکھائے, باوجودے کہ اصل ملک راضی ہو, لیکن کیا پڑوسی برداشت کرے گا؟ راضی ہوگا؟
چوں کہ حقِ شفعہ مارا گیا, اس لیے فلسطین کے پڑوسی مزاحمت پر آمادہ ہوئے, چوں کہ فلسطینی عوام کے جذبات کو کُچلا گیا, اس لیے حماس تشکیل دی گئی, تو کیا آدمی اپنے گھر زمین اور ملک کے لیے نہ لڑے, اپنی اولاد کے لیے اپنا خون نہ بہائے؟ کیا آزادیِ ملک کی لڑائی دہشت گردی ہے؟
پھر جب عرفات, محمود عباس, الفتح, راضی ہو بھی گئے, تو کہاں ہے اُن کا آدھا ملک؟ اور کیوں اب تک اُن سے کیے گئے وعدے کے مطابق آدھے فلسطین تک کو مستقل ملک ڈکلیر نہیں کیا گیا, جنہوں نے تقسیم پلان پر دستخط کیے, اُنہیں کے ساتھ دھوکہ؟ آج 70 سال بعد بھی اُن سے کیا وعدہ بھی پورا نہیں کیا گیا, کیوں؟
تقسیم پلان کے مطابق بیت المقدس کو آج عالمی ملک ہونا چاہیے, اقوام متحدہ کے قانون اور نگرانی میں ہونا چاہیے, پھر اس کے مغربی نصف کو اسرائیل نے کیسے قانوناً ہتھیا لیا؟ مشرقی نصف پر کیسے غیر قانونی قبضہ جما لیا؟ پورا بیت المقدس پر اسرائیل کی حکومت, کیوں؟ کہاں ہے خود اقوام متحدہ؟
کم از کم محمود عباس اور الفتح کو تو دھوکے میں نہیں رکھتے, آج مغربی پٹی کا نقشہ دیکھیے, چَھلنی کی طرح جگہ جگہ آپس میں غیر مربوط ٹکڑیوں میں الفتح کا قبضہ ہے, ایک شہر یا خطہ دوسرے سے مربوط نہیں, بیچ میں اسرائیل کا قانونی قبضہ ہے یا غیر قانونی, لیکن ہے بہرحال اُس کا قبضہ.
صرف غزہ ایک الگ حصہ ہے جو پتلی سے پٹی ہے, جس کو کسی طرح جان پر کھیل کر حماس بجائے ہوئے ہے, غزہ کی حالت یہ ہے کہ ایک طرف بحرہ روم ہے تو دوسری طرف خود اسرائیل, ذرا سا کونا مصر سے ملا ہوا ہے, غزہ کو سمندر اور اسرائیل سے تو کوئی فیض نہیں.
مصر بھی اکثر اپنی سرحد سیل کیے رہتا ہے, ایسے میں غزہ بھی ایک مکمل مبحوس خطہ ہے, جس کو آج دنیا کی سب سے بڑی اوپن جیل بالکل صحیح کہا جاتا ہے, نہ کوئی عالمی رابطہ, نہ کسی ملک سے تجارت, سائنسی ترقی سے کچھ کام بنتا مگر وہ بھی نہیں.
مصر سے ٹچ حصہ بھی اکثر اتنا ہی کام آتا ہے کہ اسرائیل کی تباہی کے بعد اقوام متحدہ اس راستے سے دوائیں بھیج دیتا ہے, یا کھانے کے لیے کچھ دال آٹا پارسل کرا دیتا ہے, یا کبھی مصر کا من ہوا تو ترس کھا کر غزہ کے کسی باشندے کو ہزار سیکورٹی چیکنگ بعد نکلنے دے.
ایسے میں سوال یہ ہے کہ حماس بھی کیا کرے؟ عالمی طاقتوں نے اولاً تو ان کا آدھا ملک چِھنوا دیا, پھر الفتح نے بھروسہ کیا تو اُس کو بھی دھوکہ دیا, آدھا فلسطین تک نہیں دیا, جو عالمی شہر بیت المقدس تھا اس کو بھی اسرائیل نے اقوام متحدہ سے چھین لیا.
جب کہ اسرائیل کی حالت آج بھی یہ ہے کہ اس کے توسیع پسندانہ عزائم اب بھی ٹھنڈے نہیں پڑے ہیں, وہ مسلسل کوشاں ہے کہ بیت المقدس میں جہاں کہیں بھی مسلمان آباد ہیں وہ اپنے گھر چھوڑیں, کہیں دور بسیں, یہاں یہودی رہیں گے, اسرائیلی حرکات کا یہ سلسلہ دہائیوں سے جاری ہے, تازہ لڑائی بھی شیخ جراح نامی شہر میں اسرائیل کی اسی حرکت کے بعد شروع ہوئی.
پھر دہائیوں سے دنیا یہ خبریں سن رہی ہے پڑھ رہی ہے, لیکن خاموش ہے, ایسے میں فلسطینی اپنا شکوہ بھی کریں تو کس سے کریں, اور کس سے انصاف کی اُمید لگائیں, اب تو عرب ممالک نے بھی ایک ایک کر کے کُھل کر ساتھ چھوڑنا شروع کر دیا.
دوستو! سچی بات یہ ہے کہ فلسطین کا معاملہ بہت دل دوز ہے, آج حماس جو فلسطینی جذبات کا تنہا سچا ترجمان ہے, وہ آتنکوادی نہیں, بلکہ اپنے وطنِ عزیز کی بازیابی کی لڑائی لڑنے والی قومی تحریک ہے.
حماس 2006 میں فلسطین میں ہونے والے انتخابات میں فتح مند ہوا, سوچیے آتنکی بھی الیکشن میں حصہ لیتے اور جیتے ہیں؟ لیکن اسلام دشمن طاقتوں نے قوم مخالف تحریک کی جگہ اپنے کٹھپتلے محمود کو اقتدار پر بٹھا دیا, اور تب سے اب تک الیکشن بھی نہیں کرائے ہیں, کیوں؟
آج صہیونیت نواز عالمی طاقتوں اور عرب کے متعیش نام نہاد مسلم حاکموں کے محمود عباس بڑے چہیتے ہیں, یہ سب محمود عباس سے ہی رابطے میں رہتے ہیں, کیوں کہ اُن کو ٹکڑا ڈالا اور ہر بات منوالی, اور باہر نکل کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک دی کہ ہم فلسطینیوں سے مل کر ہی کوئی فیصلہ لیتے ہیں.
حالاں کہ حماس کے کُچلے جانے تک ہی محمود, صہیون نوازوں کے محمود ہیں, جس دن غزہ کی پھانس اسرائیل کے گلے سے نکل گئی, اس دن نہ صرف مبغوض ہوں گے بلکہ مقتول ہو کر راستے سے ہٹا دیے جائیں گے, آج پالیسی یہ ہے کہ پہلے ایک کو نبٹا دو, دوسرے کو اس کے بعد نبٹا دیں گے.
خلاصہ یہ کہ اگر مسلم دنیا جلد نہ جاگی تو قدس و فلسطین 90 فیصد تو سمٹ ہی گیا, باقی بھی بہت جلد ہی قصۂ پرینہ بن جائے گا, پھر کوئی اضطراب رہے گا, نہ مخالفت, کیوں کہ فلسطین اور فلسطینی ہی نہیں رہیں گے, تو یہودیوں میں تو ہر طرف صرف شانتی شانتی ملے گی۔
Comments are closed.