مولانا نظام الدین اسیر ادرویؒ علم و تحقیق کے در نایاب تھے

محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آب بقائے دوام لا ساقی
کرونا وائرس کی وجہ سے اب تک صرف ہندوستان میں لاکھوں لوگوں کی جانیں جاچکی ہیں، ان جانے والوں میں ایک بڑی تعداد علماء، اہل علم، دانشوران اور اصحاب فضل و کمال کی بھی ہے، ادھر چند ہفتوں میں تو ہر روز عام لوگوں کے ساتھ کسی نہ کسی جید عالم، محقق اور صاحب کمال دنیا سے رخصت ہورہے ہیں۔ اور علم و تحقیق کے میکدہ کو ویران، اداس اور سنسان کرتے جارہے ہیں، یقیناًمحفل پروانوں سے روز بروز خالی ہوتی جارہی ہے۔ اس وقت موت کی خبریں تسبیح کی لڑی کے ٹوٹنے کی طرح ہر طرف سے آرہی ہیں انمول موتیوں کے بکھرنے کا سلسلہ جاری ہے
اب تو کہنا پڑ رہا ہے کہ
اے موت کے فرشتو! ذرا دم بھی تو لو
کہ ہم کہہ کہہ کہ تھک گئے ہیں خدا مغفرت کرے
۲۰مئی ۲۰۲۱ء بروز جمعرات سوشل ذرائع سے یہ اطلاع ملی کہ علم و تحقیق کے در نایاب و تابدارمشہور مورخ، ادیب، شاعر، افسانہ نگار، مصنف و مولف مدبر و منتظم صحافی اور انشاء پرداز مولانا نظام الدین اسیر ادروی بھی اللہ کو پیارے ہوگئے، ارادہ تھا کہ اسی دن مولانا مرحوم کی شخصیت اور علمی خدمات پر قلم ✒ کو جنبش دوں گا اور ان کے علمی کارناموں سے تشنگان علم کو واقفیت کراوں گا،لیکن مصروفیات کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہوسکا ۔۔ وہ میرے استاد نہیں تھے اور نہ ہی ان سے مجھے ذاتی طور پر واقفیت تھی ، لیکن ان کی کتابوں اور ان کے مضامین سے استفادہ اور خوشہ چینی کا مجھے دور طالب علمی ہی سے موقع ملا ، اس لیے میں اپنے کو ان کا شاگرد ہی خیال کرتا ہوں۔ مجھ پر فرض ہے کہ میں ان کی سرگزشت حیات اور علمی و ادبی خدمات سے اپنے قارئین باتمکین کو آشنا کروں۔
مولانا اسیر ادروی رح کا تعلق ہندوستان کے اس خطہ سے ہے، جس کو شیراز ہند کے نام سے جانا جاتا ہے ، اعظم گڑھ قدیم زمانے میں جونپور کا ہی حصہ تھا اور جون پور ایک زمانے میں ہندوستان کا شیراز ہند کہلاتا تھا اور آج بھی وہاں کی علمی زرخیزی باقی ہے۔ وہاں کی سرزمین میں آج بھی علم و فضل کے لیے بے پناہ کشش رکھتی ہے۔ آج بھی اعظم گڑھ، مئو اور اس کے قصبات سرائے میر، چریا کوٹ، محمد آباد گہنہ مبارک پور، خیر آباد ادری، بندول، بلریا گنج،جگدیش پور،پورے معروف،قلندر پور کوپا گنج فریہا اور چاند پٹی یہ وہ علمی اور تاریخی جگہیں ہیں جو پورے برصغیر میں اپنی روشنی بکھیر رہے ہیں۔ یہ علاقہ دینی درسگاہوں کی کثرت اور طالبان علوم نبوت کی مرجعیت کے اعتبار سے معروف ہے دار المصنفین اور شبلی نیشنل کالج کے قیام نے علم و تحقیق اور تصنیف و تالیف کی دنیا میں اس کی صورت کو چار چاند لگایا ہے۔ مفتاح العلوم،دار العلوم مئو،فلاح و اصلاح بھی یہاں کے مشہور علمی میکدے ہیں۔ مولانا حبیب الرحمن اعظمی رح علامہ شبلی نعمانی، مولانا حمید الدین فراہی،ڈاکٹر مصطفی اعظمی،مولانا عبد الرحمن مبارک پوری،مولانا عبید اللہ،مولانا قاضی اطہر مبارک پوری، مولانا محتار ندوی اور مولانا وحید الدین خاں وغیرہ یہ وہ عظیم علمی ہستیاں ہیں جن کا تعلق اعطم گڑھ یا مئو سے ہے جو پہلے اعظم گڑھ کا ہی حصہ تھا۔
مولانا سعید احمد اکبر آبادی نے اس خطہ کے بارے میں کہا تھا،، اعظم گڑھ ایک مردم خیز خطہ ہے، اس جیسے علاقوں کے سوتے خشک ہوگئے یا ہوتے جارہے ہیں، لیکن اس کی زرخیزی نہ صرف قائم ہے بلکہ روز افزوں ہے،، (ماہنامہ برہان دہلی شمارہ جون ۱۹۷۶ء)
اسی سرزمین کے بارے میں مشہور شاعر جناب اقبال سہیل مرحوم نے کہا تھا،،
اس خطئہ اعظم گڑھ پہ مگر فیضان تجلی ہے یکسر
جو ذرہ یہاں سے اٹھتا ہے وہ نیر اعظم ہوتا ہے
مولانا نظام الدین اسیر ادروی رح ضلع اعطم گڑھ موجودہ ضلع مئو کے قصبہ ادری میں ۱۹۲۶ء میں پیدا ہوئے، آپ نے ادری قصبہ کی طرف نسبت کی،اور یہ نسبت آپ کے نام کا گویا جزء ہوگیا اور اس قصبہ کو پورے برصغیر میں آپ نے متعارف کرا دیا۔ ابتدائی تعلیم اور ثانوی تعلیم گاوں اور ضلع کے مختلف مدارس میں ہوئی، مفتاح العلوم مئو اور احیاء العلوم مبارک پور میں بھی زیر تعلیم رہے، لیکن علوم عالیہ کی تکمیل جامعہ اسلامیہ شاہی مراد آباد سے کی، آپ وہاں کے قدیم فضلاء میں تھے، ۱۹۴۲ء میں وہاں سند فراغت حاصل کی، آپ نے جن اساتذہ سے کسب فیض کیا ان میں چند مشہور ہستیاں یہ ہیں۔ مولانا حبیب الرحمن اعظمی رح، مولانا عبد اللطیف نعمانی، مولانا شکر اللہ مبارک پوری، مفتی یسین قاسمی، مولانا اسمعیل سنبھلی، مولانا محمد میاں دیوبندی مولانا سید فخر الدین رح۔۔۔۔
فراغت کے بعد تقریباً نصف صدی تک جامعہ اسلامیہ ریوڑی تالاب بنارس تدریسی خدمات انجام دی اور تشنگان علم کو سیراب کرتے رہے۔۔ اخیر عمر میں مکمل طور پر تصنیف و تالیف کے لیے یکسو ہوگئے۔ انہوں نے مختلف موضوعات پر خامہ فرسائی کی قلم ✒ اٹھایا اور موضوع کا حق ادا کیا، ان کی کوئی بھی تصنیف محض بھرتی کی نہیں ہے ہر ایک کتاب علمی گہرائی و گیرائی سے پر ہے۔ دو درجن سے زیادہ کتابیں آپ کی علمی یاد گار ہیں۔ تاریخ اور سیرت و سوانح اورخاص طور پر برطانوی ہند کی مسلم تاریخ کو آپ نے موضوع بنایا۔
وہ انتہائی زود نویس اور صاحب مطالعہ انسان تھے، دار العلوم دیوبند کے کئی مشاہیر کی سوانح عمری بھی ترتیب دی، خلف کو سلف کی خدمات سے روشناس کرایا،جامعہ اسلامیہ بنارس کے سہہ ماہی صحافتی مجلہ ترجمان اسلام میں بھی خوب لکھا اور علم و تحقیق کے گوہر لٹائے۔ ان کی مشہور تصنیفات میں سے چند یہ ہیں۔ مآثر شیخ الاسلام، تحریک آزادی اور مسلمان، دار العلوم دیوبند احیاء اسلام کی عظیم تحریک، دبستان دیوبند کی علمی خدمات، اردو شرح دیوان متنبی، تاریخ جمعیت علماء ہند، فن اسماء رجال، تفسیر میں اسرائیلی روایات، تاریخ طبری کا تحقیقی جائزہ اور خود نوشت سوانح داستان ناتمام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ خود نوشت سوانح کا نام بھی بڑا اچھوتا اور البیلا رکھا اور بہت سوچ سمجھ کر رکھا ، ظاہر ہے کوئی بھی خود نوشت مکمل نہیں ہوتی وہ ناتمام ہی رہتی ہے۔ موت کی کیفیت نزاع کے وقت کی حالت اور موت کا متعین وقت اور گھڑی کوئی بھی شخص اپنے بارے میں نہیں لکھ سکتا۔
مولانا جمعیت سے ہمیشہ وابستہ رہے، اس پلیٹ فارم سے بھی انہوں نے ملی اور سماجی کاموں میں ہاتھ بٹایا اور نیک نامی حاصل کی، مولانا اسیر ادروی کو مدنی خاندان سے بے پناہ تعلق تھا، اس خاندان سے قلبی اور روحانی تعلق تھا ، اس خاندان سے مھبت کرنے والوں سے محبت تھی اور اس کے خلاف اور اس پر نقد کرنے والوں کے مخالف تھے، اس سلسلہ میں کبھی کبھی ایسا محسوس ہونے لگتا تھا کہ وہ اس محبت و عقیدت میں کہیں کہیں افراط و تفریط کے شکار ہو جاتے ہیں، یہ اکثر دیکھا بھی جاتا ہے کہ برصغیر میں عام لوگوں کو تو جانے دیجئے بعض بڑے بڑے اہل علم اور جنیس لوگ بھی محبت و تقدیس میں غلو اور افراط تفریط کی حد میں داخل ہوجاتے ہیں۔ مولانا اسیر ادروی صاحب رح کی بعض صحافتی تحریریں ایسی آئیں جن سے اتفاق ممکن نہیں ہے۔۔
اللہ تعالیٰ حضرت اسیر ادروی رح کی مغفرت فرمائے، جنت الفردوس ان کا نصیبہ بنائے ، امت کو انکا نعم البدل عطا فرمائے اور تمام پسماندگان، وارثین و متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین
Comments are closed.