قاری عثمان صاحب منصور پوری: حیات وخدمات کے چند درخشاں پہلو

اسجد عقابی
کرونائی عہد نے ہم سے ہمارے بے شمار قائدین، مخلصین، علماء ومشائخ اور زبان و ادب کے شہنشاہوں کو پلک جھپکتے چھین لیا ہے۔ بعض ایسے بھی تھے جو عمر عزیز کا بڑا حصہ گزار چکے تھے لیکن بعض ایسے بھی ہمارے درمیان سے جدا ہوگئے جن کی موت غیر متوقع تھی۔ بڑے بڑے اداروں کے کئی نامور اشخاص اس بیماری کی لپیٹ میں آکر زندگی کی بازی ہارگئے اور بعض اپنی فطری عمر کے تقاضوں اور وقت موعود کی آمد پر اس دنیا سے روانہ ہو گئے۔ سوشل میڈیائی دور اور تیز رفتار ذرائع ابلاغ کے نتیجہ میں ہر طرح کی نیوز تک بآسانی رسائی ہو جاتی ہے لیکن آج کل مایوس کن خبروں کے تسلسل نے ذہن و دماغ کو معطل کردیا ہے۔ اس مختصر اور قلیل مدت میں ہمارے درمیان سے شہنشاہ زبان و ادب مولانا نور عالم خلیل امینی، ابن حجر ثانی مولانا حبیب الرحمن اعظمی اور اب بافیض و باکمال مدرس کار گزار مہتمم دارالعلوم دیوبند صدر جمعیت علمائے ہند قاری عثمان صاحب رخصت ہوگئے۔
قاری عثمان صاحب منصور پوری باکمال مدرس، بافیض مربی ہونے کے علاوہ محنتی، جفاکش، جہد مسلسل کے پیکر، تجربہ کار اور نہایت سلجھے ہوئے، اعلیٰ ترین ذوق کے مالک منتظم بھی تھے۔ قاری عثمان صاحب منصور پوری نے دارالعلوم دیوبند کے کئی ایک شعبے جات کو اپنی فعال و متحرک شخصیت سے ثمر آور بنائے رکھا تھا۔ آپ نے زمانہ نیابت اہتمام میں انتظام و انصرام کا ایسا اعلیٰ نمونہ پیش کیا ہے جو بعد والوں کے لئے مشعلِ راہ ہے۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے تعلیمی تسلسل کے ٹوٹنے کی وجہ سے دارالعلوم دیوبند نے اساتذہ کرام کی فارغ البالی کو قوم و ملت کے مفاد کی خاطر بروئے کار لانے کا مضبوط و مستحکم لائحہ عمل تیار کیا، جس میں تصنیف و تالیف اور اصلاح معاشرہ کے دو اہم شعبے جات قائم کئے گئے۔ شعبہ اصلاح معاشرہ کی ذمہ داری قاری عثمان صاحب منصور پوری کے سپرد کی گئی۔ قاری عثمان صاحب منصور پوری کی سر پرستی میں مختلف عناوین پر مختصر مگر جامع رسائل مرتب کرکے تقسیم کئے گئے اور حسبِ سہولت دینی تربیت کے لئے اساتذہ کرام کو عوام الناس کے درمیان بھی بھیجنے کا سلسلہ جاری کیا گیا تھا۔ آپ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے جن کی ذات گرامی سے بے شمار بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم جانے کی توفیق ملی تھی۔
Qari usman Mansoor Puri, Qari usman Mansoor Puri president jamiatul ulama Hind
قاری عثمان صاحب منصور پوری
تاریخ پیدائش
قاری عثمان صاحب منصور پوری کی پیدائش متمول دیندار گھرانے میں ہوئی تھی۔ آپ نسباً سید ہیں اور منصور پور میں آپ کے گھرانے کو عظمت و شرافت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ قاری عثمان صاحب کی پیدائش نواب سید محمد عیسیٰ کے گھر 12 اگست 1944 میں ہوئی۔ قاری عثمان صاحب کے والد محترم علاقہ کے مشہور زمیندار ہونے کے ساتھ نہایت متقی و پرہیز گار لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ اہل علم اور علماء کرام سے والہانہ محبت و عقیدت تھی جس نے قلوب کی تطہیر سمیت ظاہری علومِ دینیہ میں بھی ان کو مستند بنا دیا تھا۔ قاری عثمان صاحب منصور پوری کی ابتدائی تعلیم و تربیت اپنے والد محترم کے زیر سایہ ہوئی۔ آپ نے قرآن مجید مکمل حفظ اپنے والد محترم کے پاس کیا تھا۔ بعد ازاں مکمل تعلیم دارالعلوم دیوبند میں ہوئی۔ قاری عثمان صاحب منصور پوری کے والد محترم اپنے صاحب زادہ کی تعلیم کے تئیں اس قدر سنجیدہ تھے کہ آپ نے منصور پور کے بجائے دیوبند میں سکونت اختیار کرلی اور دیوبند میں ہی 1963 میں آپ کا انتقال ہوا، آپ مزار قاسمی میں مدفون ہیں۔
زمانہ طالب علمی میں قاری عثمان صاحب منصور پوری اساتذہ کرام کے نور نظر رہے ہیں۔ آپ کا شمار بہترین، ذہین، متواضع، فرمانبردار طلباء میں ہوتا تھا اور علمی صلاحیت کا عالم یہ تھا کہ آپ ہمیشہ امتیازی نمبرات سے کامیاب ہوا کرتے تھے۔ دورہ حدیث شریف میں آپ نے اول نمبر سے کامیابی حاصل کی۔ بعد ازاں قاری حفظ الرحمٰن کی زیر تربیت تجوید و قرات کے فن میں عبور حاصل کیا اور وحید العصر حضرت مولانا وحید الزمان کیرانوی کی نگرانی میں عربی زبان و ادب کی تکمیل فرمائی۔
قاری عثمان صاحب منصور پوری کا زمانہ طالب علمی نہایت خوش گوار گزرا، آپ کی علمی شخصیت اسی زمانہ میں نکھر کر سامنے آگئی تھی اور یہی وجہ ہے کہ اس وقت کے جبال العلوم اساتذہ کی مشفقانہ نگاہیں اور مربیانہ محبت ہمیشہ آپ کو حاصل رہی تھی۔ قاری عثمان صاحب منصور پوری امیر شریعت سابع حضرت مولانا محمد ولی رحمانی کے رفیق درس تھے اور دونوں حضرات کا تعلق اخیر عمر تک باقی رہا تھا۔
عملی زندگی کا آغاز
1965/66 میں دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد آپ بحیثیت مدرس جامعہ قاسمیہ گیا تشریف لائے، یہاں پانچ سال کی مدت میں مختلف علوم وفنون کی کتابیں آپ سے وابستہ رہی اور آپ نے نہایت کامیابی کے ساتھ ان پانچ سالوں میں طلباء کی تعلیم و تربیت میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ پانچ سال تک مسلسل دینی خدمت انجام دینے کے بعد آپ جامعہ اسلامیہ جامع مسجد امروہہ تشریف لے آئیں۔ یہاں گیارہ سالوں تک تشنگانِ علوم نبوت کو سیراب کرتے رہے تھے۔ آپ نے جامع مسجد امروہہ میں قیام کے دوران بے مثال معلم اور بے بدل مربی کی حیثیت سے طلباء کرام کی ذہنی تربیت فرمائی۔
دارالعلوم دیوبند سے وابستگی
1982 میں دارالعلوم دیوبند میں آپ کی تقرری ہوئی۔ آپ منجھے ہوئے، باصلاحیت، اکابرین کے پروردہ اور جبال العلوم شخصیات کے نور نظر تھے، آپ کی تدریسی صلاحیت اور مربیانہ محبت کا چرچہ پہلے سے ہی زبان زد عام و خاص تھا۔ دارالعلوم دیوبند سے وابستگی نے آپ کے فیوض و کمالات کو بام عروج پر پہنچا دیا۔ علوم دینیہ کے متلاشی اپنی سیرابی کے لئے آپ کے در دولت پر پہنچ کر علمی سیرابی حاصل کیا کرتے تھے۔ آپ کا درس مکمل طور پر حشو و زوائد سے پاک ہوا کرتا تھا۔ غیر ضروری باتوں سے مکمل اجتناب فرماتے اور مکمل وقت اسباق کی جانب متوجہ رہا کرتے تھے۔ آپ کا انداز درس اس قدر نرالا اور انوکھا تھا کہ طلباء عش عش کر اٹھتے تھے۔ حوالے جات کے سلسلہ میں آپ حد درجہ محتاط واقع ہوئے تھے، زبانی حوالوں سے احتراز کرتے اور عموماً کتاب سامنے رکھ کر حوالے دیتے یا کبھی خود لکھ کر لایا کرتے تھے۔ کلام نہایت مرتب اور ترجمہ سلیس و شستہ ہوا کرتے تھے۔ درس گاہ میں وقت کی پابندی ضرب المثل تھی۔
بندہ کو قاری عثمان صاحب منصور پوری سے دورہ حدیث شریف میں مؤطا امام محمد اور رد قادیانیت پر محاضرہ پڑھنے کی سعادت حاصل ہے، بروز جمعہ آپ کا درس ہوا کرتا تھا، جمعہ کی عام تعطیل کے باوجود طلباء کی تعداد آپ کی مقبولیت کی دلیل تھی۔ طلباء کشاں کشاں آپ کے درس میں کھنچے چلے آتے تھے۔
کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت کی سر پرستی
1986 میں عالمی تحفظ ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس کے آپ کنوینر منتخب کئے گئے تھے۔ بحیثیت کنوینر آپ کی کارکردگی اور مسئلہ کی حساسیت کے تئیں آپ کے جوش و خروش نے اکابرین کی نگاہ میں آپ کو مزید نکھار دیا تھا۔ شرعی اعتبار سے یہ نہایت اہم اور حساس مسئلہ تھا اور اس کی باگ ڈور ایسے شخص کے ہاتھوں میں دینے کی ضرورت تھی جس میں مولانا محمد علی مونگیری کا جذبہ اور علامہ انور شاہ کشمیری کی ایمانی حرارت موجود ہو۔ اللہ تعالیٰ نے قاری عثمان صاحب منصور پوری کو اس عظیم الشان مقصد کی خاطر چن لیا تھا جسے ہمارے اسلاف نے زندگی کا نصب العین بنایا اور جس فتنہ کی بیخ کنی کے لئے آلام و مصائب کے بھنور میں بے خطر کود پڑے تھے۔ کانفرنس کے اختتام پر آپ کو (کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت) کا ناظم مقرر کیا گیا اور تادمِ حیات آپ اس عہدہ پر برقرار رہے اور ہمیشہ، ہر طرح اسے فعال و متحرک بنائے رکھا۔ آپ کی نظامت میں اس شعبہ نے رد قادیانیت کے باب میں عظیم الشان کارنامہ انجام دیا ہے۔ دارالعلوم دیوبند میں تخصصات کے طلباء کے لئے رد قادیانیت پر آپ کا محاضرہ صرف معلوماتی نہیں بلکہ روح و ایمان کو جھنجھوڑ دینے والا ہوا کرتا تھا۔ جس طرح آپ خود ایمانی جذبے سے سرشار تھے یہی جذبہ آپ دیگر مسلمانوں اور خصوصاً فارغین دارالعلوم میں دیکھنا چاہتے تھے۔
نیابت اہتمام
دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ نے 1999 میں قاری عثمان صاحب منصور پوری کی منتظمانہ صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے سابق مہتمم مولانا مرغوب الرحمن بجنوری رحمۃ اللہ علیہ کے تعاون کے لئے آپ کو نائب مہتمم بنایا۔ تقریباً گیارہ سالوں تک آپ نے اس عہدہ کو رونق بخشا اور اس انداز اور حسن ترتیب سے جسے برسوں تک یاد رکھا جائے گا۔ نیابت کی ذمہ داری سمیت آپ کا طلباء کے ساتھ مشفقانہ رویہ آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ طالبان علوم نبویہ کے ساتھ ہمیشہ ناصحانہ انداز اختیار فرماتے تھے۔ 2020 میں مجلس شوریٰ نے باتفاق رائے آپ کو کار گزار مہتمم کے لئے منتخب فرمایا لیکن عمر نے وفا نہ کی اور آپ محض چند مہینوں بعد دار فانی سے رخصت ہوگئے۔
قومی و ملی خدمات
قاری عثمان صاحب منصور پوری ملی خدمات کے جذبے سے سرشار تھے، آپ کا خانوادہ رفاہی خدمات کے لئے مشہور و معروف تھا، دوسری جانب آپ کا سسرالی حسب و نسب ہندوستان کی تاریخ کا ایسا زریں باب ہے جو علم و فضل کے ساتھ ساتھ قیادت و سیادت میں بھی ہندوستان کے افق پر نمایاں ہے۔ آپ مجاہد آزادی، شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے داماد اور فدائے ملت مولانا اسعد مدنی رحمۃ اللہ علیہ اور دارالعلوم دیوبند کے موجودہ صدر المدرسین حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ کے بہنوئی ہے۔
قاری عثمان صاحب منصور پوری ہمیشہ جمعیت علمائے ہند کی مجالس و محافل میں شرکت فرماتے اور اپنی قیمتی آراء سے نوازتے تھے۔ 1979 میں (ملک و ملت بچاؤ تحریک) کے تحت جیل بھرو تحریک میں آپ نے تقریباً دس دن تہاڑ جیل میں گزارے ہیں۔ آپ کی یہ قربانی ایک جانب ملت کے تئیں آپ کی خدمات کا بہترین نمونہ ہے تو دوسری جانب ملک سے محبت کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ جمعیت سے قدیم وابستگی، آپ کی قیمتی آراء اور مفید مشوروں کو دیکھتے ہوئے ہوئے 2008 میں جمعیت علمائے ہند کے ایک حصے نے آپ کی صاف و شفاف اور بے داغ شبیہ کو بروئے کار لاتے ہوئے جمعیت علمائے ہند کا صدر منتخب کیا اور آپ تا دمِ حیات اس عہدہ پر برقرار رہے ہیں۔ جمعیت علمائے ہند کے پلیٹ فارم سے فساد زدگان کی امداد، ان کی باز آبادکاری کی جد وجہد، سیلاب متاثرین کی داد رسی اور سب سے بڑھ کر بے قصور مسلمانوں کی جیل سے رہائی کی کامیاب کوششیں، قاری عثمان صاحب کی ملی خدمات کا حسین باب ہے جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
بے مثال مربی اور بافیض والد
عموماً یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ قومی و ملی اور دیگر مصروفیات میں مشغول رہنے والے اشخاص اپنے گھر والوں کے تئیں ذمہ داری میں خصوصاً اولاد و احفاد کی تعلیم و تربیت کے باب میں مکمل کردار ادا کرنے سے قاصر ہوتے ہیں یا ان کی خارجی مصروفیات انہیں اس جانب توجہ مبذول کرنے کی فرصت نہیں دیتی ہے لیکن اس باب میں آپ ایسے بے بدل مربی کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے ہیں جو دوسروں کے لئے قابلِ تقلید ہے۔ قاری عثمان صاحب منصور پوری کی خارجی مصروفیات، اولاد و احفاد کی تعلیم و تربیت میں مانع نہیں رہی۔ قاری عثمان صاحب منصور پوری نے اپنے دونوں صاحبزادگان کی اس انداز میں تربیت کی ہے کہ آج دونوں فرزند آسمان علم و فضل کے دمکتے ستارے اور صف اول کے قائدین میں شمار کئے جاتے ہیں۔
بیعت و خلافت
قاری عثمان صاحب منصور پوری کی پیدائش ایسے خانوادہ میں ہوئی تھی جو ہمیشہ سے اہل علم اور علماء و مشائخ سے متعلق رہا ہے۔ گھر کے صاف ستھرے ماحول اور ذکر و اذکار کی چاشنی نے آپ کے ذہن و دماغ کو معطر کر رکھا تھا۔ دوسری جانب فطری صالحیت اور ذوقِ سلیم کی وجہ سے تعلیم سے فراغت کے بعد تزکیہ قلوب کے لئے فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے دامن ارادت سے وابستہ ہوگئے۔ ہمارے اسلاف و اکابرین کا یہ طریق رہا ہے کہ وہ تعلیم و تعلم ساتھ ساتھ تزکیہ قلوب کی جانب مکمل توجہ دیا کرتے تھے اور ان دونوں ظاہری و باطنی علوم کی تکمیل کے بغیر تکمیل علوم کا تصور نہیں تھا۔
ذاتی اوصاف و خصائل
قاری عثمان صاحب منصور پوری جسم و جثہ، شکل و شباہت، طور طریق، تواضع و انکساری، خرد نوازی میں یکتائے روزگار تھے۔ آپ کی شباہت ایسی دلکش تھی کہ دیکھنے والا ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہ جاتا۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے حسن ملاحت سے نوازا تھا جو ایک بار آپ کو دیکھ لیتا دوبارہ دیکھنے کی آرزو ہوتی تھی، حتیٰ کہ طلباء دارالعلوم دیوبند بھی آپ کے دیدار کے لئے چھتہ مسجد کا رخ کیا کرتے تھے جہاں آپ عموماً نماز ادا کیا کرتے تھے۔ آپ کی ذاتی محافل و مجالس دوسروں کے تذکروں اور لغو کلام سے مکمل پاک ہوا کرتی تھی۔ طلباء کو نصیحتیں فرماتے اور واردین کے ساتھ ضرورت کے مطابق گفتگو فرماتے۔ آپ کی مجالس بیک وقت علمی و روحانی دونوں قسم کے فیوض وبرکات سے پر ہوا کرتی تھی۔ علم و فضل کے لعل و گہر لٹائے جاتے تھے اور ہر کوئی اپنے ظرف کے مطابق اس سے استفادہ کرتا تھا۔ صبر و تحمل اور شکر گزاری کے اوصاف جمیلہ سے آپ متصف تھے، طلباء کرام کے پروگراموں میں بھی از اول تا آخر بیٹھتے اور قیمتی نصائح سے نوازا کرتے تھے۔
قاری عثمان صاحب منصور پوری اور انگریزی تعلیم
قاری عثمان صاحب منصور پوری ان باصفا اشخاص میں سے تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے قوت ایمانی اور فہم و فراست کا بھرپور حصہ عطا کیا تھا۔ آپ جدید تعلیم اور انگریزی زبان کی اہمیت کے قائل ہی نہیں بلکہ عظیم داعی تھے۔ مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر ممبئی اور اس کے طرز پر قائم اداروں کی پذیرائی کرتے تھے۔
زندگی میں دو ایسے مواقع میسر ہوئے جہاں احقر نے براہ راست آپ سے انگریزی زبان کی اہمیت و افادیت اور اس سلسلہ میں دارالعلوم دیوبند کے موقف کو دلائل کی روشنی میں ثابت کیا تھا۔ دارالعلوم دیوبند کی قدیم روداد سے اکابرین دارالعلوم کے درست موقف کو علماء کے سامنے پیش کیا تھا۔ انگریزی تعلیم حاصل کرنے والے علماء و فضلاء پر ہونے والے اعتراضات کا دنداں شکن جواب دیا تھا۔ مرکز المعارف ممبئی کے تحت منعقد ہونے والے دوسرے (آل انڈیا تقریری مقابلہ بزبان انگریزی) مقام انکلیشور میں قاری عثمان صاحب کی تقریر کا موضوع یہی تھا اور آپ نے اس سمت پیش رفت کرنے والوں کی خدمات کو سراہا اور طالبان زبان کو اپنی دعاؤں سے نوازا تھا۔ دوسرا موقع میسر ہوا جب مرکز المعارف نے 2019 میں اپنا پچیس سالہ جشن جمعیت علمائے ہند کے مرکزی ہال میں منعقد کیا تھا۔ اس موقع پر قاری عثمان صاحب نے انگریزی زبان کے تعلق سے اور اس میدان میں پیش رفت کی ایسی خوش اسلوبی سے تعریف و توصیف اور تائید فرمائی تھی جس نے مجلس میں موجود تمام افراد کو فرحاں و شاداں کردیا تھا۔ آپ نے بتایا کہ 120 سال قبل دارالعلوم دیوبند نے انگریزی زبان کی اہمیت کے پیشِ نظر اسے پڑھنے پڑھانے اور طلباء کو اس میدان میں تیار کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن ابتدائی دور میں مالی تنگی کی وجہ سے یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا اور بالآخر یہ کام اللہ تعالیٰ نے مولانا بدر الدین اجمل کے ہاتھوں شروع کرایا اور آج الحمدللہ ملک کے مختلف ادارے اس کام سے جُڑے ہوئے ہیں۔ قاری عثمان صاحب منصور پوری پروگرام میں اخیر تک بیٹھے رہے باوجودیکہ پروگرام انگریزی زبان میں تھا، آپ کے چہرے کی طمانینت قابلِ دید تھی۔ مرکز المعارف کے متعلقین کے لئے یہ قیمتی لمحہ تھا جب ان کے قائد و مربی اور مشفق استاذ نے ان کے عمل کو نہ صرف سراہا تھا بلکہ ان کی حوصلہ افزائی بھی کی تھی اور ان پر ہونے والے اعتراضات کا جواب بھی دیا تھا۔
سفر آخرت
گزشتہ دس بارہ دنوں سے آپ کی بیماری کی اطلاع نے اہل علم حضرات اور آپ کے منتسبین و محبین کو تشویش میں مبتلا کردیا تھا۔ ہر آئے دن آپ کی طبیعت میں گراوٹ اور کمزوری بڑھتی جارہی تھی۔ جب طبیعت میں افاقہ نہیں ہوا تو آپ کو میدانتا اسپتال میں داخل کرایا گیا لیکن انسان تو محض تدابیر اختیار کرنے کا مکلف ہے، قضائے الٰہی کے آگے انسان اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود ناکام ہو جاتا ہے، بالآخر وہ وقت بھی آگیا جب علم وفضل کا آفتاب و ماہتاب اور قوم و ملت کا مخلص قائد 21 مئی بروز جمعہ 2021 کو اپنے مالک حقیقی کی آغوش میں چلا گیا۔ اکابرین دیوبند کے آخری مسکن (مزار قاسمی) میں آرام فرما رہے ہیں۔
Comments are closed.