آنکھوں نے جو دیکھا ،دل نے جو محسوس کیا  حضرت مولانا مفتی عبدالرزاق صاحب بھوپالی کے حوالے سے

 

 

✍?:عین الحق امینی قاسمی

کم وبیش پچیس برس پہلے کی بات ہے ،جب جمعیۃ علماء ہند بہادر شاہ ظفر مارگ نئی دہلی میں منتظمہ کی میٹنگ تھی ،سیاہ بل کے مد عےپر ، تاکہ ایک بڑا احتجاجی اجلاس رام لیلا گراؤنڈ میں منعقد ہوسکے ۔جمعیۃ علماء ہند میں جب کچھ بڑا ہونے والا ہو تا ،تو خاص طور پر اہل دلی کے دل کو بیدار کرنے اور انہیں حالات و واقعات سے آگاہ کراکر مقررہ تاریخ میں مقررہ مقام پر بڑی تعداد میں جمع ہونے کی تحریک پیدا کی جاتی رہی ہے ،دلی واطراف کے حلقوں میں ماحول سازی کے لئے اکثر دارالعلوم دیوبند سے درجہ علیا کے ایسے طلباء کو بھی جمعہ وغیرہ کے لئے بہ طور خاص مدعو کیا جاتا ،جو خطیبانہ صلاحیت کے حامل ہوتے تھے ،چوں کہ دارالعلوم دیوبند کے دارالحدیث میں متعدد بار اس عاجز کی تقریریں بزم سجاد کے مقابلہ جاتی پروگراموں کے موقع پر ہوچکی تھیں ،اس لئے قرعہ فال میں عاجز کا نام بھی دہلی کو جگانے والوں میں شامل ہوگیا ۔

تقریبا ہم دس طلبہ کی ایک ٹیم جمعہ کے روز علی الصباح والی ٹرین سے روانہ ہوئی اور نو بجے صبح تک دفتر جمعیۃ علماء بہادر شاہ ظفر مارگ پہنچ گئی ،ناشتہ اور ضروری امور سمجھنے کے بعد سبھی طلباء مجوزہ مقام پر بیان وخطابت کے ارادے سے نکل گئے ،بعد نماز جمعہ پھر سبھوں کو جمعیۃ دفتر میں جمع ہونا تھا ،واپس آکر ہم لوگوں نے نظرانے کا لفافہ لیا اور الوداعی سلام کے ساتھ ہم میں سے بہت سے طلبا دارالعلوم کے لئے پابہ رکاب ہوگئے ۔ پہلی بار ایسا یادگار موقع ملا تھا ،اس لئے جی میں آیا کہ بہت سے مہمان تشریف لا رہے ہیں ضرور کچھ یہاں بھی ہونے والا ہے ،معلوم کرنے سے پتہ چلا کہ کل بروز سنیچر دس بجے سے جمعیۃ بلڈنگ میں اسی سلسلے کی منتظمہ کی ایک میٹنگ ہونے والی ہے ،اس میں شرکت کی غرض سے مہمانوں کی ہمہ ہمی ہے ۔

رات گزری ،صبح ہوئی ،اور پھر تانک جھانک کرتے کراتے دس بج گئے ،پروگرام شروع ہوا ،تب جمعیۃ علماء ہند کے قومی صدر فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی نور اللہ مرقدہ ہواکرتے تھے ،میں چوں کہ پروگرام سے ایک روز قبل میٹنگ کے موضوع کے سلسلے کی تقریر کر چکا تھا ،اس لئے باتیں ذہن میں بھی تھیں اور اندر سے سیکھنے کا یہ جذبہ کہ اکابرین کی میٹنگیں کس نوعیت کی ہوتی ہیں ؟ اس لئے مجلس میں ذراقریب ہوکر بیٹھ گیا ،گرچہ میں منتظمہ میں سے نہیں تھا ،لیکن دل میں یہ تھا کہ اپنے گھر کا پروگرام ہے ،اور دارالعلوم کا طالب علم ہوں اور پھر کسے معلوم کہ میں منتظمہ کا آدمی نہیں ہوں ۔

سب سے پہلے تلاوت اور اس کے بعد صدر عالی وقار مرحوم فدائے ملت کامیٹنگ کے اغراض ومقاصد پر مشتمل وضاحتی بیان ہوا ۔ اتنے میں دیکھا کہ ایک بزرگ تشریف لائے ،آنکھوں میں سرمہ مارے ،سرپہ عمامہ باندھے ،عصائے موسی ہاتھ میں ،لوگوں نے دیکھتے ہی پہلی صف میں ،بل کہ اخص الخواص کے درمیان جگہ دیدی ،تجسس تھا کہ آخر یہ کون بزرگ ہیں ،اور سچ پوچھئے تو دارالعلوم دیوبند میں جاری تعلیمی گھنٹے چھوڑ چھاڑ کر یہی سب دیکھنے ،میں وہاں رکا ہی تھا ،صدر محترم کی گفتگو جاری تھی ، بعد ازاں دیگر شرکاء سے بھی اظہار خیال کی گذارش کی گئی ،تب مفتی عبد الرازق خان صاحب بھوپالی مائک پکڑتے شروع ہوگئے اور جو زور دار ،دھماکے دار گفتگو فرمائی تو مانو جیسے پورے مجمعے کو انہوں نے بیدار کردیا ،بل کہ کئی احباب نے تو اپنی رائے کا قبلہ تک بدل لیا ،ان کی گفتگو سے سامعین کے حوصلے توانا ہوگئے ،بہت سے وہ حضرات جنہوں نے چبا چبا کر اور لیکن چنانچہ کے ساتھ اپنی رائے پیش کی تھی ،دیکھا کہ وہ بھی مضبوط دل ہوکر” ہاں تو ہاں ” کی صداؤں میں ہاتھ لہرائے تائید کررہے ہیں ۔

مفتی صاحب نے میٹنگ میں رنگ بھر دیا تھا ،وہ مرد آہن باطل سے کہاں خوف کھانے والے تھے ،انہوں نے کہا کہ ملک کی آزادی میں قربانیاں ہم نے دی ،درختوں پہ لاشیں ہمای لٹکائی گئیں ، ملک کی آبیاری کے لئے جان و تن ہم نے لٹایا ، ملک کا دستور ہماری رہنمائی میں بنا ، جیلوں کو ہم نے آباد کیا ،کالے پانی کی سزائیں ہم نے کاٹیں "ہماری بلی ہمیں کو میوں ” نہیں چلے گا سیاہ قانون ،واپس لینا ہوگا ،اور اگر اس کے لئے شہادت دینے کی ضرورت ہے تو عبدا لرزاق کی گردن سب سے پہلے حاضر ہے ،ہم احتجاج کریں گے ،یہ ہمارا حق ہے ،دیکھتے ہیں کون روک لیتا ہے ،ہاں رام لیلا گراؤنڈ سےاپنا احتجاج درج کروائیں گے ،حالات میں کوئی بھی گڑبڑی نہیں ہوگی ،اگر حکومت بات چیت سے نہیں مانتی اور سیاہ بل واپس نہیں لیتی تو یہ "بینت ” من وائے گی اور تب اسے بل واپس کرنا ہوگا ۔بعد کے دنوں میں لیت ولعل کے بعد بالآ خر یہ بل ٹھنڈے بستے میں چلا گیا ،اس اقدام سے تاریخی احتجاج کے مثبت اثرات محسوس کئے گئے۔

حضرت مفتی صاحب ظاہر کی طرح باطن بھی پاکیزہ رکھتے تھے ،اس لئے دل سے جو بات نکلتی اثر رکھتی تھی ، دیکھا کہ ان کی تقریرجوشیلی ضرورہوئی ، مگر باتوں کو اعتدال کے ساتھ پیش کررہے تھے ،لیکن بے جا مصلحت پسندی کے بھی وہ قائل نہیں تھے ،جو کام کل ہو، وہ آج ہو اور جو آج ہو وہ ابھی ہونا چاہئے ، موت کی یاد سے ان دل آباد رہتا تھا ،اس لئے وہ روحانی طاقت سے کہتے کہ کل کا کیا بھروسہ ،بل کہ ابھی کے بعد ہم نہ رہیں ۔

اللہ غریق رحمت کرے ،اب کہاں ہیں ایسے لوگ ،جو راہ وفا سے گذرگئے۔ ان کا علم توانا تھا ،ان کے اثر ورسوخ آبدار تھے ،ملک کے ایک حلقے کے مفتی اعظم تھے ،جمعیۃ علماء سے ان کی وابستگی ،جان و دل کی تھی ،وہ خاندان مدنی کے مرمٹ تھے ، ان کے دل میں حضرت شیخ الاسلام کے خانوادے کی عظمت وعقیدت آج تک گھر کے فرد کی طرح تھی ۔ وہ سنت وشریعت کے پابند علمی وروحانی شخصیت کے حامل ایک عظیم انسان تھے۔

 

مثل ایوان سحر ،مرقد فروزاں ہوترا

نور سے معمور ،یہ خاکی شبستان ہوترا

 

نائب صدر جمعیہ علماء ہند بیگوسراے

Comments are closed.