نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر        [حماس کی فتح اور پیغام]

 

 

محمد صابر حسین ندوی

 

چھٹی صدی عیسوی میں جاہلیت، حیوانیت، درندگی اور اخلاقی گراوٹ کی گھٹا چھائی ہوئی تھی، پورا انسانی معاشرہ خدا پرستی چھوڑ کر خود پرستی، معدہ پرستی اور ہوس رانی کی چپیٹ میں آچکا تھا، کوئی ایسی برائی نہ تھی جو ان میں نہ پائی جاتی ہو، حکمران طبقہ عیش و عشرت، تنعم و خوشحالی میں مگن تھا، عوام ٹیکس، ناجائز قوانین اور غلامی کے سلاسل سے بندھی ہوئی تھی؛ کہ اس شب دیجور میں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے، قرآن و حدیث کی تعلیمات لیکر پوری انسانیت کو مخاطب کیا، انہیں انسانوں کی بندگی سے نکال کر ایک خدا کی بندگی، دنیا کے ظلم و جور سے اسلام کے انصاف اور دنیا کی تنگی سے اسلام کی وسعت و کشادگی کی طرف نکالنا شروع کیا، دیکھتے ہی دیکھتے ایک ایسی جماعت تیار ہوگئی جس نے اطاعت، سپردگی، شعور اور اسلامیت کو اپنا سب کچھ بنالیا، دنیاوی پیشوں، انسانی مظالم، جھوٹ، فریب، دھوکہ اور تمام اخلاقی برائیوں سے توبہ کرتے ہوئے اسلامی شعار، کردار اور حکم الہی کے فرمان کو لازمی کر لیا، انہوں نے دعوت و تبلیغ کیلئے انتھک کوشش کرتے ہوئے جہد وجہاد کا علم تھاما، اور دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے کی جانب کوچ کرنے لگے، قیصر و کسریٰ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، بادشاہوں کے غرور، گھمنڈ اور ستم کو چور چور کردیا، حق کی بازیابی ہوئی، مقامات مقدسہ کی حفاظت اور انسانیت کی معراج ہوئی، انہوں نے زمام اقتدار سنبھالا، دنیا کی کایا پلٹ دی، خود شناس، احسان شناس اور محبت شناس بنا دیا، دنیا کی محبت اور موت سے نفرت ختم کرتے ہوئے آخرت کا عشق، موت کی لذت اور لقائے الہی کا شوق پیدا کردیا، یہی وہ سرمایہ تھا جس کی بنیاد پر خلافت راشدہ نے انسانیت کو حکمران کا ایک نمونہ پیش کیا، بعد میں ملوکیت نے اگرچہ اس پر گرد ڈال دی؛ لیکن مصلحین کی کاوشوں اور اسلامی رنگ اور میزان کو جوں کا توں رکھا گیا، ہر عہد اور زمانے میں ایسے لوگ کہیں نہ کہیں پائے جاتے رہے، جنہوں نے علی منہاج النبوۃ اسلام کی نمایندگی کی، عمر بن عبد العزيز، نورالدین زندگی اور صلاح الدین ایوبی جیسوں کا شمار انہیں میں ہوتا ہے؛ لیکن امریکی عروج، برطانوی، روسی اور فرانسیسی دور نے مسلم حکمرانوں، قوم اور معاشرے کو تھپکی دے کر سلا دیا، مصلحت کے نام پر پوری ملت اسلامیہ خواب غفلت میں پڑ گئی، جس کا خمیازہ خلافت عثمانیہ کا سقوط اور سب سے بڑھ کر بیت المقدس پر صہیونی قبضہ اور اسرائیل کے قیام سے بھگتنا پڑا، افسوس کہ اس میں خود ہمارے اپنوں کا ہاتھ رہا، عربیت کا بھوت اور اقتدار کی ہوس نے سب کچھ برباد کردیا، رفتہ رفتہ بیت المقدس اور اہل فلسطین کو دنیا سے کاٹ دیا گیا، اسے ایک عام معاملہ بتا کر قوم کو گمراہ کیا گیا؛ لیکن اس دور میں بھی کچھ لوگوں نے عہد اولین کا جھنڈا تھام کر اسلامی تعلیمات پر پڑی گرد کو صاف کرنے اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے؛ کہ آج بھی اسلام کے جیالے زندہ ہیں، ان کی رگوں میں انہیں اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا خون بہہ رہا ہے جنہوں نے دنیا کا رخ بدل دیا، یقیناً ہم نے وہ قدیم دور کا مشاہدہ تو نہیں کیا؛ مگر غزہ، حماس اور فلسطینی مجاہدین کا ولولہ انگیز ایمان دیکھ کر شرح صدر ہوتا ہے۔

بلاشبہ قضیہ فلسطین میں اہل فلسطین اور بالخصوص غزہ اور ان میں بھی حماس کے مجاہدوں نے دنیا کو پیغام دیا ہے؛ کہ مسلمانوں کا دور ابھی باقی ہے، یہ دنیا کبھی بھی کروٹ لے سکتی ہے، ان کے دلوں میں وہ چنگاری ہے جو کبھی اولین مسلمانوں میں ہوا کرتی تھی، زمانہ خواہ کتنی ترقی کرلے، ٹکنالوجی کی تسبیح خوانی کر لے؛ لیکن قرآن و حدیث کے چشمہ صافی سے استفادہ کرنے والے اور اسے عَلم بنا کر رزم گاہ سجانے والے زندہ ہیں، فرعونی طاقتوں، سامراجیت اور غاصبانہ کارروائی کرنے والوں کیلئے مرد مؤمن کی للکار باقی ہے، وہ. نوجوان ملت میں اب بھی پائے جاتے ہیں جو فرنگی تہذیب سے دور ہیں، جن کے قالین ایرانی نہیں، جن کے لہو میں تن آسانی نہیں، بلکہ گرمجوشی ہے، قناعت پسندی ہے، حالات سے جوجھنا، مرمٹنا؛ مگر باطل کے سامنے سر نہ جھکانے کا حوصلہ و ایمان ہے، جو دنیا کو آخرت پر ترجیح نہیں، وقتی آزمائشوں پر نالاں نہیں ہوتے، رب کی جانب سے شدتیں بھی برداشت کرتے ہیں اور آخرت کو ہی ترجیح دیتے ہیں، امریکی چمک دمک، ریال خوروں کی عیاشی اور محلوں میں زندگی بسر کرنے کی حسین و دلکش نظارت انہیں مرغوب نہیں کرتے؛ بلکہ وہ بیت المقدس کی خاطر سب کچھ گنوانے کو تیار ہیں، مہاجر بن کر یا پھر رفیوجی کی صورت میں زندگی گزار لینے پر بھی راضی ہیں، عورتیں، بچے بھی اپنے مرد مجاہدین کو سنوار کر، لوریاں سے کر قربان ہونے کیلئے قدس کی دہلیز پر لے آتی ہیں، اور بہادری کا مظاہرہ کرتے بچوں کو دیکھ کر ٹھنڈی آہیں بھرتی ہیں، مٹھی بھر لوگ سپر پاور کو ٹکر دینے والے حماس کی فتح اور پیغام کے سلسلہ میں سیدی مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کی ایک جامع عبارت پیش کی جاتی ہے، جسے پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ اسے اسی موقع کیلئے لکھا گیا تھا، آپ رقم طراز ہیں:

"قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اب بھی زندگی اور طاقت کا ایسا سرچشمہ ہے جس سے عالم اسلام کی خشک رگوں میں زندگی کا گرم اور تازہ خون پھر دوڑ سکتا ہے، ان کے مطالعہ اور اثر سے اس جاہلی دنیا کے خلاف بغاوت کا جذبہ ابھرتا ہے، اور ان کی تاثیر سے ایک اونگھتی سوتی قوم ایک پرجوش، بے چین اور سرگرم عمل قوم بن جاتی ہے، ان کے اثر سے (اگر ان کو اثر کرنے کا موقع دیا جائے) پھر ایک بار ایمان اور نفاق، یقین اور شک، وقتی فوائد اور مستحکم عقائد، موقع پرست ذہنیت اور حق پرست ضمیر، عقل مصلحت بیں اور عشق مصلحت سوز کے درمیان پھر معرکہ کارزار گرم ہوتا ہے، پھر جسمانی راحت اور قلب کے سکون، تن آسانی کی زندگی اور شہادت کی موت کے درمیان کشمکش پیدا ہوتی ہے، وہ مبارک کشمکش جو ہر پیغمبر نے اپنے اپنے وقت میں پیدا کی تھی، اور جس کے بغیر حق و باطل کا فیصلہ اور اس دنیا کی اصلاح و انقلاب کا کوئی کام نہیں ہوسکتا، اس وقت عالم اسلامی کے گوشہ گوشہ اور مسلمانوں کے ایک ایک گھر اور ایک ایک خاندان میں ایسے صاحب ایمان نوجوان پیدا ہوں گے، جن کی تعریف قرآن مجید میں اس طرح کی گئی ہے:اِنَّہُمْ فِتْیَۃٌ اٰمَنُوْا بِرَبِّہِمْ وَ زِدْنٰہُمْ ہُدًی،وَّ رَبَطْنَا عَلٰی قُلُوْبِہِمْ اِذْ قَامُوْا فَقَالُوْا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ لَنْ نَّدْعُوَا۠ مِنْ دُوْنِہٖۤ اِلٰـہًا لَّقَدْ قُلْنَاۤ اِذًا شَطَطًا – (کھف:١٣-١٤) "وہ لوگ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے ان کی ہدایت میں اور ترقی کردی تھی، اور ہم نے ان کے دل مضبوط کردئے؛ جبکہ وہ (دین میں) پختہ ہو کر کہنے لگے کہ. ہمارا رب تو وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے، ہم تو اس کو چھوڑ کر کسی معبود کی عبادت نہ کریں گے؛ کیوں کہ اس صورت میں ہم نے یقیناً بڑی بیجا بات کہی”—اس وقت پھر دنیا میں ایک بار بلال و عمار، خباب وخبیب، صہیب و مصعب بن عمر، عثمان بن مظعون اور انس بن النضر کے جوش ایمانی اور ایثار قربانی کے نمونے نگاہوں کے سامنے آئیں گے، جنت کی ہوائیں اور قرن اول کے ایمانی جھونکے دوبارہ چلیں گے، اور ایک نیا عالم اسلام ظہور میں آئے گا، جس سے موجودہ عالم اسلام کو کوئی نسبت نہیں ” – (انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر:٣٣٣ تا ٣٣٥)

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں

نظر آتی ہے اس کو اپنی منزل آسمانوں میں

 

نہ ہو نومید، نومیدی زوال علم و عرفاں ہے

امید مرد مومن ہے خدا کے راز دانوں میں

 

نہیں تیرا نشیمن قصرِ سُلطانی کے گنبد پر

تو شاہیں ہے، بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

 

 

[email protected]

7987972043

Comments are closed.