اصل کمی اور خرابی کہاں ہے ؟؟؟

 

 

محمد قمرالزماں ندوی

مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

 

حضرت مولاناعلی میاں ندوی رح نے موجودہ زندگی کی اصل خرابی کی نشاندہی کرتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا تھا:

"موجودہ زندگی کی اصل خرابی یہ ہے، کہ پوری سوسائٹی کا ضمیر خود غرض اور مطلب پرست بن گیا ہے،اس کا ایک فرد اپنی غرض کے لئے بے تکلف بڑی سے بڑی بے اصولی کا ارتکاب کر لیتا ہے، اگر وہ کسی شعبہ کا امین بنایا جاتا ہے تو اس کو خیانت میں باک نہیں، اگر کسی قومی ادارہ کا رکن منتخب ہوتا ہے تو اس کے اپنے حقیر فائدے کے لئے بڑے سے بڑے قومی و جماعتی فوائد پامال کرنے اور دوسروں کا گھر اجاڑ کر اپنا گھر آباد کرنے میں عذر نہیں، اگر وہ ماتحت ہے تو کام چور ،سست کار اور احساس فرض سے عاری ہے، وہ اپنے کسی متوقع فائدہ یا کسی ذاتی رنجش کی بنا پر ایک گھنٹہ کے کام میں بآسانی ایک مہینہ لگا سکتا ہے اور آسان سے آسان معاملہ کو برسوں الجھا سکتا ہے،اور اس طرح سے اپنے ذاتی فوائد کے لئے نظام حکومت کو ناکام یا بدنام کرسکتا ہے،اگر وہ صاحب اختیار ہے تو اعزہ نوازی احباب پروری، بیجا پاسداری، اور شخصی یا خاندانی فوائد کی بنا پر صریح بے اصولی کا ارتکاب کرکے ملک و قوم کو نقصان پہنچاتا ہے،اگر تاجر ہے تو دولت میں غیر ضروری اضافہ کرنے کے لئے چور بازاری اور ناجائز نفع خوری کرکے لاکھوں غریبوں کو پیٹ کی مار مارتا ہے،اور دانہ دانہ کو ترساتا ہے اگر وہ روپیہ کا کاروبار کرتا ہے تو سود خوری اور مہاجنی کے ذریعے صدہا غریبوں کا بال بال قرض میں جکڑ دیتا ہے اور ان کو پیسہ پیسہ کا محتاج بنا دیتا ہے” ( پندرہ روزہ تعمیر حیات لکھنئو ۱۰/ فروری ۲۰۰۵ء )

موجودہ زندگی کی اصل خرابی کی طرف جو نشان دہی کی گئی ہے وہ بالکل صحیح اور درست ہے، آج یہ تمام خرابیاں اور خامیاں ہمارے معاشرے اور سوسائٹی میں پائی جا رہی ہیں ۔ عوام و خواص سب ان امراض اور بیماریوں میں مبتلا ہیں، بلکہ خواص اور اہل علم کچھ زیادہ ہی اس میں ملوث ہیں ،دینی ادارے اور تحریکیں بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں ۔ جن کو جہاں موقع مل رہا ہے وہ اپنے مفاد کے لئے وہ سب کچھ کر لے رہا ہے جس کی شریعت میں اجازت اور دین میں گنجائش بالکل نہیں ہے ۔ حد تو یہ ہے جو لوگ دین کے مختلف شعبوں سے متعلق ہیں دینی ادارے میں خدمت سے وابستہ ہیں، وہاں بھی مال کی طمع اور عہدہ و منصب کی حرص نے انہیں اپنی زلفوں کا اسیر بنا رکھا ہے ۔ ہر جگہ عہدہ و منصب کے لیے کشمکش اور کشاکش ہے، دینی جماعتوں میں جھگڑا ہے کہ امیر کون ہوگا ؟مدارس میں اہتمام و نظامت اور کتابوں کی تدریس سے متعلق جھگڑا کہ ہم پڑھائیں گے وہ نہ پڑھائیں، ہم ذمہ دار ہوں گے وہ نہیں ہوں گے ۔ اس معاملہ میں کچھ دینی جامعات اور دینی تنظیموں کے مقدمات سرکاری عدالتوں میں چل رہے ہیں، جو لوگ جلسوں اور پروگراموں میں عام مسلمانوں کو سرکاری عدالتوں میں جانے سے روکتے ہیں، وہ خود ان عدالتوں کی چوکھٹ پر کھڑے ہیں ۔ کہیں خانقاہوں میں تولیت کا جھگڑا چل رہا ہے، جب کہ خانقاہیں تزکیئہ قلب کا مرجع ہیں ۔

کیا عوام و خواص میں جو یہ کمیاں اور خامیاں ہیں ہم جو ان روحانی و اخلاقی بیماریوں میں مبتلا ہیں کیا اس کا سب علم کی کمی ہے ؟کیا معاشی اور اقتصادی پسماندگی اس کی وجہ ہے ؟ نہیں ہرگز نہیں اس کی بنیادی وجہ اخلاص کی کمی ہے، دل کی اصلاح نہ ہونا ہے ۔ جب کے انسان کے لئے ایک بہت بڑی ضرورت ہے کہ اس کے دل کی اصلاح ہو،کیونکہ تمام اچھے اور برے اعمال کا اصل سرچشمہ انسان کا دل ہے ۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے ۔ *یوم لا ینفع مال و بنون الا من آتی اللہ بقلب سلیم* جس دن نہ مال کام آئے گا اور نہ ہی بال بچے کام آئیں گے صرف وہی کامیاب ہو گا جو قلب سلیم لے کر خدا کے حضور آئے گا ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے، جب اس کا رخ درست ہوجاتا ہے تو ساری زندگی درست ہو جاتی ہے اور اگر وہ درست نہ رہا تو انسان کا پورا وجود بگاڑ میں مبتلا ہوجاتا ہے اور وہ دل ہے ۔

۔معلوم یہ ہوا کہ قلب کی صحت اور سلامتی پر جسمانی صحت و صلاح کا اصل دار و مدار ہے،قلب سلیم تمام۔ بھلائیوں سرچشمہ ہے ۔ ہمارے اعمال درست ہوں اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے قلب کو درست کریں ۔

اس وقت فرد اور جماعت سماج اور معاشرہ کی اصلاح کے لئے سب سے بڑی ضرورت یہ ہے، کہ انسان کے دل بدلے جائیں ۔ آج علم و تحقیق، سائنس اور ٹیکنالوجی کی کمی نہیں ہے ،صنعت و تجارت اور سرمایہ کاری کی کمی نہیں ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ زمین کی گہرائیوں سے لے کر فضا کی اتھاہ بلندیوں تک ہر جگہ انسان رسائی حاصل کر چکا ہے، اور مسلسل ترقی اور عروج کا سفر جاری ہے ۔ عیش و عشرت اور راحت و آرام کے لئے اتنے سامان اس نے کر لئے ہیں کہ وہ جنت کا مقابلہ کرنے کے لئے کوشاں ہیں ۔ لیکن دوسری طرف ستاروں سے آگے پرواز، سورج کی شعاعوں کو گرفتار کرنے، چاند کی تسخیر، اور علمی ترقی انہیں انتہائی غلط مقاصد کی طرف لے جا رہی ہے ۔

یقینا ہم نے در و دیوار کو سجانے کی کوشش کی ،جسم کو آرام و سکون پہنانے کے لئے کوشاں رہے،جسم و تن کو آراستہ کیا،علوم و فنون کے چراغ روشن کئے ،ایجادات و اختراعات پر بہترین صلاحیتں صرف ،کیں عیش و عشرت کے نقشے سجائے،ہم نے افرنگی صوفے اور ایرانی قالین کا انتظام کیا اور ان سے گھروں کو سجایا لیکن دل کی دنیا کو سجانے کی کوشش نہیں کی۔ جس کا نتیجہ ہے کہ سماج میں تمام طرح کی کمزوریاں اور خرابیاں پائ جارہی ہیں ۔ جب دلوں پر محنت نہیں ہوئی تو پڑھے لکھے لوگ بھی ان بیماریوں میں مبتلا ہو گئے جن میں عوام مبتلا ہیں ۔

انبیاء کرام علیہم السلام نے اپنے اپنے زمانے میں لوگوں کے دلوں پر محنت کی، دلوں کی اصلاح کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تربیت اسی نہج سے کی ،جس کے اثرات ان کی زندگی میں، اور اس وقت کے معاشرہ پر ایسا ظاہر ہوا کہ دنیا میں کوئی معاشرہ نبوی معاشرہ سے مقابلہ نہیں کر سکتا ۔ دلوں کی اصلاح کا نام ہی تزکیہ ہے ۔ دل میں صالح تبدیلی ہی کا نام تقوی ہے ۔

اگر معاشرہ کو صالح اور سوسائٹی کو پاکیزہ بنانا چاہتے ہیں، اور معاشرے سے ہر طرح کے فساد اور کرپشن کا، اور ہر طرح کی برائی و ناانصافی کا خاتمہ چاہتے ہیں تو ہم سب کو اس جانب توجہ کرنی ہوگی ۔اور دل کی اصلاح کی طرف متوجہ ہونا ہوگا ۔ اگر دل کی اصلاح ہو جائے اور اس میں خدا کا خوف بس جائے تو پھر گناہ کی طرف، ناانصافی کی طرف، ظلم و انارکی اور عصبیت کی طرف انسان کا ذھن ہی نہیں جائے گا اگر جائے گا بھی تو اس کا دل اس کو غلط کام کرنے سے روگ دے گا اور برائی کی طرف قدم بڑھنے سے روک دے گا ۔ خدا ہم سب کو دل کی اصلاح کی توفیق عطا فرمائے آمین

Comments are closed.